بڑھے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

 بین الا قوامی یوم محنت 2022 کے موقع پر خصوصی مضمون

اب سے 136سال قبل محنت کشوں کے حقوق کے حوالہ سے امریکہ کے شہر شکاگو میں قربانیاں دینے اور اُس کی پاداش میں پھانسی پر چڑھائے جانے والے مزدور رہنماؤں کی یاد میں منایا جانے والا عالمی یوم محنت ایک مرتبہ پھر آپہنچا ہے۔عالمی یوم محنت کے حوالہ سے گفتگو کرنے سے پہلے بہتر ہوگا کہ ہم اپنے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کا بھی ایک سرسری جائزہ لے لیں کیونکہ جمہوری نظام اور مزدوروں کی جدوجہد کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔پاکستان میں گذشتہ چھ ماہ سے حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں کے مابین جاری جنگ اب ایک نتیجہ پر پہنچ چکی ہے۔نام نہاد تبدیلی کے نام پر برسرِ اقتدار آنے والی سیاسی جماعت ’’تحریک انصاف‘‘کے اقتدار کی بساط پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی نے لپیٹ کر رکھ دی ہے۔پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف وزیر اعظم بن چکے ہیں،اُن کی کابینہ نے مورخہ 19اپریل کو حلف بھی اُٹھالیا ہے جس میں سابقہ اپوزیشن کی تقریبا تمام جماعتیں شامل ہیں۔یہ پاکستان میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی بھی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی ہو۔اس طرح سیاست کا ایک نیا باب لکھا گیا ہے جس کے نتیجہ میں پارلیمانی نظام جمہوریت نے کامیابی سے قدم آگے بڑھایا ہے اور ہمیں اُمید ہے کہ اس کے نتیجہ میں ملک کے چاروں صوبوں کے مابین مفاہمت اور یکجہتی میں بھی اضافہ ہوگا۔گو کہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں عددی اعتبار سے سب سے بڑی جماعت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی وہ پاکستان کے مزدور طبقہ کی سب سے بڑی پارٹی ہے جس طبقہ کی آبادی کُل آبادی کا 33فیصد سے بھی زائد ہے اور وہ اُس کی وہ واحد نمائندہ جماعت بھی ہے۔اپریل میں برسرِ اقتدار آنے والی مخلوط حکومت اور آئندہ عام انتخابات کے نتائج کے حوالہ سے منتخب ہونے والی پارلیمان پاکستان کی جمہوری سیاست کا واضح رُخ متعین کرے گی۔پاکستان پیپلز پارٹی اس سارے سیاسی منظرنامہ میں سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرچکی ہے،اُس کا اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس بہت پہلے ہی سے یہ مؤقف تھا کہ پارلیمان سے استعفوں کی بجائے عدم اعتماد کی تحاریک کے ذریعہ سلیکٹڈ وزیر اعظم اور اُس کی وفاقی اور صوبائی حکومت کو رُخصت کیا جائے اور مُناسب وقت پر شاہراہوں پر عوامی قوّت کا مظاہرہ بھی کیا جائے جبکہ مسلم لیگ (ن) وراپوزیشن کی دیگر جماعتیں اس سے متفق نہ تھیں لیکن اُنہیں بھی وقت گذرنے کے ساتھ پی پی پی کے اس مؤقف سے اتفاق کرنا پڑا اور اُس کے مثبت نتائج اب سامنے ہیں۔یوں تو اس جمہوری پیش رفت اور کامیابی کا سہرا سابقہ اپوزیشن کی تمام ہی جماعتوں کو جاتاہے مگر وقت نے ثابت کردیا ہے کہ فہم و فراست،سیاسی تدبراور کامیاب جمہوری حکمت عملی اختیار کرنے میں نہ صرف یہ کہ پاکستان بلکہ اس خطہ کے سب سے کم عمر نوجوان سیاست دان بلاول بھٹو نے سب کو پیجھے چھوڑ دیا ہے اور آج اُن کا نام اپنے عظیم نانا شہید ذوالفقا ر علی بھٹو اور عظیم والدہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی طرح آسمانِ سیاست پر روشن ہوچکا ہے۔عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی سے ہمکنار ہونے سے بہت پہلے ہی سے پاکستان پیپلز پارٹی انتخابی اصلاحات پر زور دیتی رہی ہے اور اب اُس پر عملدرآمد کا وقت آپہنچا ہے۔ہمیں یقین ہے کہ گو کہ یہ ایک مخلوط حکومت ہے اور اس کی سربراہی مسلم لیگ (ن)کررہی ہے لیکن اس کے باجود کابینہ میں پی پی پی کی موجودگی میں جو بھی انتخابی اصلاحات کی جائیں گی اُن میں ورکنگ کلاس کے مفادات کو بھی بھرپور تحفظ دیا جائیگا۔

136ویں عالمی یو م محنت کے حوالہ سے اگر ہم اپنے ملک میں مزدور تحریک اور ٹریڈ یونینز کا جائزہ لیتے ہیں تو صورتحال واضح ہوتی ہے کہ اس تحریک کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے ۔سرکاری ،نیم سرکاری اداروں اور حکومت کے زیر انتظام دیگر اداروں میں ٹریڈ یونینز موجود اور کسی حد تک متحرک بھی ہیں لیکن جہاں تک پرائیویٹ سیکٹر کا تعلق ہے تو صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔صنعتکاروں کی اکثریت کی سوچ میں اب تک کوئی پروگریسو تبدیلی نہیں آئی ہے۔وہ اب بھی مزدوروں کی یونینز کو اپنا حریف بلکہ غالبا دشمن ہی سمجھتے اور اُنہیں پنپنے ہی نہیں دیتے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حقیقی نمائندہ مزدور یونینز معدوم ہوتی جارہی ہیں اور اُن کی جگہ یہ دور پاکٹ یونینز کے عروج کے لئے انتہائی سازگار ہے۔ان حالات میں وہ جو کہا جاتا ہے کہ دیگ میں سے چند چاول نکال اور اُنہیں ٹیسٹ کرکے پوری دیگ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ہم پاکستان کی بنکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونین موومنٹ کو اس حوالہ سے اُس کا جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ 1991میں نجکاری کے بعدپرائیویٹ مالکان اور اُن کی انتظامیہ نے شعبہ بنکاری میں ٹریڈ یونین تحریک کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے اور اب وہاں جلے ہوئے نشیمن کی چند چنگاریاں تو موجود ہیں لیکن وہ بھی جلد ہی بجھ جائیں گی۔اس انڈسٹری میں کہ جس میں پرائیویٹائزیشن سے قبل یونینز کی ممبرشپ ہزاروں کی مجموعی ورک فورس کا 80فیصد ہوتی تھی اب یہ صرف ایک فیصدرہ گئی ہے۔افسران کی تعداد اب 99فیصد ہے لیکن آفیسرز ایسوسی ایشن موجود ہونے کے باوجود لاپتہ ہیں اور اب پاکستان کی بنکنگ انڈسٹری جس میں کم و بیش اس وقت بھی تقریبا 2لاکھ افراد کی ورکنگ فورس موجود ہے لیکن اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں اور وہ مکمل طور پر انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہیں۔یہ المیہ صرف پرائیویٹ سیکٹر کے بنکس کا نہیں بلکہ یہی صورتحال مختلف شعبوں کے دیگر اداروں میں بھی پائی جاتی ہے۔سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ٹریڈ یونینز تو موجود ہیں لیکن وہ بھی اپنی بقاء جیسے بنیادی مسئلہ سے دو چار ہیں اور یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک انتہائی ذبوں حالی کا شکار ہے۔ابھی ایک واقعہ ہوا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی سرکاری اداروں میں ہفتہ میں دو چھٹیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے صرف اتوار کی چھٹی کو برقرار رکھا۔ تعجب یہ ہے کہ اس حوالہ سے ٹریڈ یونینز کی جانب سے کوئی نمایاں ردِعمل سامنے نہیں آیا مگر موبائل اور واٹس ایپ کے ذریعہ بنکنگ انڈسٹری کے ملازمین سے اس فیصلہ کے خلاف کراچی اور ملک بھر کے دیگر شہروں میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے دفاتر اور پریس کلبز کے سامنے احتجاج کرنے کی اپیل کی گئی۔حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ یہ احتجاج ہوا اور اُس میں ہزاروں بنک ملازمین نے حصّہ بھی لیا مگر تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس تحریک میں ہماری اطلاعات کے مطابق بنکنگ انڈسٹری کی کوئی ٹریڈ یونین یا آفیسرز ایسوسی ایشن شامل نہیں تھی اور یہ کہ اِس تحریک کی قیادت یا تنظیم کہیں ظاہر بھی نہیں ہوئی اور اس طرح اِسے ہم ایک خودرو تحریک بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان تمام مایوس کن حقائق کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹریڈ یونین تحریک کی بحالی کے لئے کوششیں بھی ملک میں جاری ہیں۔ گذشتہ سالوں میں کراچی، اسلام آباد اور پاکستان کے دیگر شہروں میں اجلاس منعقد ہوئے ہیں جن میں ٹریڈ یونین نمائندگان نے بڑی تعداد میں شرکت کی ہے اور مزدور تحریک کی کشتی کو منجھدار سے نکالنے کے لئے سوچ بچار اور لائحہ عمل بھی مرتب کئے ہیں۔ آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد شعبۂ محنت کو مکمل طور پر صوبوں کو منتقل کردیا گیا جس کے نتیجہ میں صوبہ سندھ میں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ اور ٹریڈ یونین تحریک کی جدوجہد کو بڑھاوا دینے کے لئے متعدد قانون سازیاں کی گئیں۔ پی پی پی کی صوبائی حکومت نے اس ضمن میں جو تاریخی کامیابی حاصل کی اُس کا اعتراف انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے پاکستان میں ذمہ داران نے بھی کیا ہے۔ صوبہ سندھ کی حکومت کی جانب سے کی گئی مثبت قانون سازیوں کی تقلید دیگر صوبائی حکومتوں نے بھی کی ہے لیکن جہاں تک قوانین پر اُس کی اسپرٹ کے مطابق عملدرآمد کا تعلق ہے تو صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پورے ملک میں پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں حکومتوں کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم اُجرت کے قانون پر عملدرآمد ہی نہیں کیا جاتا ،لیبر لاز کے تحت کسی بھی ورکر سے 8 گھنٹہ یومیہ سے زائد کام نہیں لیا جاسکتا لیکن اس کے برعکس بغیر کسی اوور ٹائم ادائیگی 12,12 گھنٹہ کام لینے کی شکایت عام ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں مزدوروں کی حقیقی یونین کا قیام اور اُسے فعال رکھنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔مزدوروں کو تقرر نامہ (Appointment Letter) بھی جاری نہیں کئے جاتے اور اس طرح یہ لاکھوں محنت کش (EOBI)، ورکرز ویلفئیر بورڈ اور سوشل سیکیورٹی کے اداروں سے ملنے والی سہولیات جن میں بُڑھاپے کی پینشن، طبّی سہولیات، میریج گرانٹ، فوتگی گرانٹ اور مفت تعلیم اور مکان کے حصُول سے محروم رہتے اور ادارہ سے بُڑھاپے کی عمر میں خالی ہاتھ بے یار و مددگار اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں زندگی کے بقایا دن کسمپرسی میں گذارنے کے لئے۔ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے اور اس میں محنت کش طبقہ کی تعداد سات کروڑ سے زائد ہے لیکن ملک کی پارلیمان، سینیٹ آف پاکستان، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مزدوروں کا کوئی حقیقی نمائندہ موجود نہیں۔ مزدور تنظیموں کا یہ مطالبہ اب زور پکڑتا جارہا ہے کہ اُن کے طبقہ کے لئے پارلیمان میں نشستیں مختص کی جائیں۔

پاکستان میں جب ہم مزدور تحریک کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں شکاگو کے اُن شہید مزدور رہنماؤں کی یاد آتی ہے کہ جنہوں نے اب سے 136 سال قبل محنت کشوں کے بنیادی حقوق کی بحالی کے لئیاور اُن سے جانوروں کی طرح 18,18 گھنٹہ کام لینے کے خلاف امریکہ کے شہر شکاگو میں علمِ بغاوت بلند کیا، اس تاریخی بغاوت کے نتیجہ میں سات مزدور رہنماؤں کو صنعتکاروں کی عدالت نے پھانسی کے پھندے پر چڑھادیا اور اپنے طور پر وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوئے کہ اُنہوں نے تحریک کو تشدّد کے ذریعہ کُچل ڈالا ہے لیکن یہ اُن کی بہت بڑی بھول تھی جس تحریک کو ختم کرنے کا خواب اِنہوں نے دیکھا تھا وہ رفتہ رفتہ پوری دنیا میں بیداری کی ایک لہر کے طور پر پھیل گئی، دنیا کے تمام برِ اعظموں میں ٹریڈ یونین منظم ہوئی، حقوق کے سُرخ جھنڈے بلند کئے، کئی ریاستوں نے محنت کشوں کے سُرخ جھنڈے اور اُن کے حقوق کو اپنے ریاستوں کے بنیادی منشور میں شامل کیا اور آج تمام دنیا شکاگو کے شہداء کی یاد پورے جوش و خروش سے مناتی ہے لیکن اُن کو پھانسی کے تختہ پر چڑھانے والے صنعتکار اور اُن کے اشاروں پر کام کرنے والی نام نہاد انصاف کی عدالتیں تاریخ کے کوڑا دان کا حصّہ بن چُکی ہیں۔ہمیں بحیثیت مجموعی ایک معاشرہ کے طور پر تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے کمزور طبقات اور مظلوموں کے حقوق کو مکمل طور پر تسلیم اور اُنہیں بحال کردینا چاہئیے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا ہم کسی نئے یومِ مئی کا انتظار کررہے ہیں؟#

 

Habib Uddin Junaidi
About the Author: Habib Uddin Junaidi Read More Articles by Habib Uddin Junaidi: 8 Articles with 6605 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.