دکھاوا

مادی دور کی لعنتوں نے معاشرتی زندگی کو جن مصائب و آلام کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ان میں دکھاوا اپنی حشر سامانی کے باعث سر فہرست ہے ۔جس طرف بھی نظر اٹھتی ہے نمود و نمائش اور دکھاوے کا پھریرا اپنے پورے کر و فر کے ساتھ فضائے بسیط میں لہراتا دکھائی دیتا ہے ۔سفہا،اجلاف و ارزال،وضیع،خفاش اور مشکوک نسب کے درندوں کو اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے فرصت نہیں ملتی۔ایسے لوگوں کو اپنی آنکھوں کا شہتیر تو دکھائی نہیں دیتا مگر دوسروں کی آنکھ کا تنکا دیکھنے میں یہ ہر وقت ہلکان ہوتے رہتے ہیں ان کے خلجان اور خفقان کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر وقت اپنی فرضی خوبیوں اور موہوم کامیابیوں کا ڈھنڈور پیٹنے میں مصروف رہتے ہیں ۔دکھاوا ایک متعدی مرض ہے جو نہایت سرعت کے ساتھ پورے معاشرے اور سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ابتدا میں یہ معاشرے کے ان طبقوں میں پھیلتا ہے جنھیں احساس کم تری کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتا ۔مثال کے طور پر بھانڈ،بھڑوے ،مسخرے ،لچے ،شہدے،ڈوم ڈھاری اور بھگتے جب اول اول اس متعدی مرض کا شکار ہوتے ہیںتو وہ اس مرض کو پھیلانے کے ذمہ دار بنتے ہیں۔دکھاوے کا متعدی مرض ایک خاص قسم کا وائرس پھیلاتا ہے جس کا تعلق انسان کے لا شعور سے ہے ۔اس کے سوتے باطنی خباثت سے پھوٹتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ فرد کی ظاہری کیفیت اور پوری شخصیت بھی اس کی زد میں آ کر اپنی اخلاقی اور روحانی زبوں حالی پر نوحہ کناں دکھائی دیتی ہے ۔زندگی کی تمام اقدار عالیہ پر دکھاوے کا جان لیوا وائرس جب حملہ کرتا ہے تو ان پر جان کنی کا عالم ہوتا ہے ۔ دکھاوا شرافت، استغنا، قناعت، خودداری، انکسار اور صبر و تحمل کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہمہ وقت سر گرم عمل رہتا ہے ۔دکھاوا اخلاقی معائرکے گرد ایسا تار عنکبوت لپیٹ دیتا ہے کہ کچھ سجھا ئی نہیں دیتا۔وہ جن کو اپنے رذائل اخلاق کے باعث روپوش ہو جانا چاہیے تھا سر عام دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی نہیں جو ان کو لگام دے۔

دکھاوا ایک ایسا چھلاوا ہے جو ساون کے اندھوں کے علاوہ عقل کے اندھوں کے لیے انوکھا بہلاوا ہے۔کون ہے جو دکھاوے کااسیر نہیں۔ فیشن کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے پس پردہ بھی اسی متعدی مرض کے اثرات کا رفرما ہیں ۔دکھاوا جنگل کی آگ کے مانند پلک جھپکتے میں پھیل جاتا ہے اور اس کی لپیٹ میں جو کچھ بھی آتا ہے وہ ملیا میٹ ہو جاتا ہے اور ہزاروں آشیاں اس کے مسموم اثرات کی وجہ سے خاکستر اور لا تعداد گھر اس کی ہلاکت خیزیوں سے بے چراغ ہو جاتے ہیں۔دکھاوے کے مرض میں مبتلا زاغ اس فکر میں ہوتے ہیں کہ جتنی جلدی ممکن ہو عقاب کا کام تمام کر کے اس کے نشیمن پر غاصبانہ قبضہ کیا جائے ۔ہر سفید کوا ،کالی بھیڑ، گندی مچھلی اور بگلا بھگت کی بد طینتی اسے اس جانب لے جاتی ہے کہ جتنے بھی چور دروازے موجود ہیں ان میں سے جارحانہ اور حریفانہ انداز میں گزر کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے اور اپنا الو سیدھا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے ۔روم بے شک شعلوں کی زد میں رہے مگر وقت کے نیر وتو اپنی جعلی شان کی نمود و نمائش کی تقیبات کے انعقاد پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔دکھاوے کا وائرس عجب گل کھلا رہاہے آج ہر بو م سرخاب ،ہر گدھ عقاب ،ہر شپر شاہین،ہر پدی سیمرغ اور ہر بگلا شتر مرغ بننے کے خبط میں مبتلا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس عالم آ ب و گل میں خود نمائی کا مرض اب نا قابل علاج صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔

ماہرین بشریات کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ دکھاوا آج سکہ ءرائج الوقت سمجھا جا رہا ہے ۔اس کی مطلق العنان کارفرمائی کے باعث سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنے والوں کی امیدوں کی فصل غارت ہوچکی ہے اور مفلوک الحال طبقے کی روز و شب کی محنت اکارت چلی جاتی ہے ۔کوتاہ اندیش لوگ اپنی جھوٹی شان کے لیے سب کچھ داﺅ پر لگا دیتے ہیں ۔دکھاوے کے مریضوں کو تو اپنی جھوٹی انا کی فکر دامن گیر رہتی ہے ،ان کو تو اپنی شان دل ربائی اور جعلی جاہ و جلال سے کام ہوتا ہے انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کسی کی ناﺅ کنارے لگتی ہے یا منجدھار میں غرقاب ہوتی ہے ۔ایسے عیاشوں کے اللے تللے ہمیشہ جاری رہتے ہیں ۔انھیںفقیروں کے حالات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا ۔ان مجبورو ں کے دن پھریں یا نہ پھریں لیکن ان بد قماش عناصر نے طوطا چشمی کی جو روش اپنائی ہوتی ہے وہ اس پر کاربند رہتے ہیں اور پینترے بدلنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف نگاہیں بدلتے رہتے ہیں بلکہ گرگٹ کی طرح رنگ بھی بدلتے رہتے ہیں ۔دکھاوا کرنے والوں نے تو اخلاقی اقدار کی لٹیا ہی ڈبو دی ہے ۔اس کے باوجود یہ اپنی تشہیر کے لیے جس طرح اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں انھیں دیکھ کر ہر شخص ان پر تین حرف بھیجتا ہے ۔اکبر الہ آبادی نے اس قماش کے ننگ انسانیت لوگوں کی لذت خود نمائی کی حرص کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے لوگ اخبارات اور ذرائع ابلاغ پر اپنے ننگ وجود ہونے کا باوجود اپنی جعلی شان کا ڈھنڈورا جس ڈھٹائی سے پیٹتے ہیں وہ ان کی بے غیرتی اور بے ضمیری کی دلیل ہے ۔ان کی تو بس ایک ہی خواہش ہے کہ جس طر ح بھی ممکن ہو ان کا نام اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنتا رہے اور اس طرح ان کو اپنی جھوٹی شان کا نشہ چڑھا رہے ۔
اپنی گرہ سے کچھ نہ مجھے آپ دیجیے
اخبار میں تو نام میرا چھاپ دیجیے

سار ا مسئلہ ہی اخبار میں چھپنے کا ہے ۔دکھاوا بھی سادیت پسندی (Sadism)کی ایک گمبھیر صورت کا مظہر ہے ۔دکھاوے کے مہلک مرض میں مبتلا افراد جب حادثہ ءوقت کے باعث کسی چور دروازے سے گھس کر جاہ و منصب پر غاصبانہ طور پر قابض ہو جاتے ہیں تودر و دیوار پر حسرت و یاس کے سائے منڈلانے لگتے ہیں ۔ہر طرف ذلت ،تخریب ،بے برکتی ،بے توفیقی ،نحوست اور بے ضمیری کے کتبے اس طرح آویزاں ہو جاتے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ان عقل کے اندھوں کو ہمیشہ الٹا ہی دکھائی دیتا ہے ۔یہ ساون کی موسلا دھار بارشوں میں بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت سے بھی عاری ہو جاتے ہیں ۔میاں والی کے رہنے والے میرے ایک دوست کی مہمان نوازی کا ایک عالم معترف ہے ۔جو بھی ان سے ملنے جاتا ہے وہ ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے ہیں ۔اس کے علاوہ مہمانوں کو کالا باغ کے مقام پر سیر و تفریح کے لیے اپنی گاڑی میں لے جاتے ہیں ۔واپسی پر اس علاقے کی مشہور سوغات میاں والی کی مشہور چپل اس کی نذر کرتے ہیں ۔ایک مرتبہ ناصف کھبال ان سے ملنے گیا ۔یہ شخص اپنی بد اعمالیوں کے باعث دھرتی کا بوجھ بن گیا تھا ۔یہ اس سے بڑے تپاک سے ملے ۔الوداع کہتے ہوئے نم ناک آنکھوں اور گلوگیر لہجے میں بولے ” آپ جب بھی آئیں گے آپ کے لیے جوتوں کی کوئی کمی نہ ہو گی ۔آپ کا سر سلامت رہے جوتوں کے تو ڈھیر لگا دئیے جائیں گے ۔کوئی کچھ کہتا پھرے جو مقام تمھار ا تقدیر نے طے کر دیا وہ تم سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔اچھا یہ تو بتاﺅ کہ میں نے تو تمھیں کالا باغ دکھایا جب میں تمھارے پاس آﺅں گا تو تمھارے علاقے میں کون سا قابل دید مقام ہے ؟ ۔“

اس زیرک دوست کی باتیں ناصف کھبال کے سر سے گزر گئیں ۔اس نے دوست سے ملنے والی جوتی اپنے بیگ میں پہننے والے صاف کپڑوں میں لپیٹتے ہوئے کہا ” میں تو اپنے سب ملنے والوں کو ہمیشہ سبز باغ ہی دکھاتا ہوں ۔جب آپ آئیں گے تو آپ کو بھی سبز باغ ہی دکھاﺅں گا۔یہی میری فطرت ہے ۔میں اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو ں۔“

یہ سننا تھا کہ میاں والی کے نیازی صاحب جلال میں آ گئے اور کہنے لگے ”ایک کام تو رہ گیا وہ یہ کہ ہمارے شہر میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں دن کو بھی تارے دکھائی دیتے ہیں “

اس انکشاف کو سنتے ہی ناصف کھبال کی آنکھوں میں شیطانی چمک پیدا ہوگئی اور حریصانہ انداز میں نہایت لجاجت سے بولے ” نیازی صاحب یہ تو قدرت کا بہت بڑا معجزہ ہے وہاں کے پر اسرار ماحول میں سے مجھے نادر و نایاب دفینوں اور گنج گراں مایہ کی موجودگی کی بھنک پڑ گئی ہے ۔ایسا لگتا ہے اس دنیا کا کولمبس میں ہی بنو ں گا ۔ مجھے ابھی اس مقام پر لے چلو تاکہ میں ان تمام سر بستہ رازوں کی گرہ کشائی کروں۔میں جب تک دن میں تارے خود نہ دیکھ لوں گا مجھے ہر گز یقین نہ آئے گا “

نیازی صاحب نے ناصف کھبال کو ساتھ لیا اور ایک ویران کھنڈر میں جا پہنچے ۔وہاں اس عاقبت نا اندیش ،کور مغز ،احسان فراموں اور نمک حرام ناصف کھبال پر جوتوں ،لاتوں ،مکوں اور گھونسوں کی بارش کردی اور پھر پوچھا سناﺅ کیا اس وقت جب کہ دن کے دو بج رہے ہیں تمھیں آسمان پر تارے دکھائی دے رہے ہیں یا نہیں ؟“

ناصف کھبال نے شدید تکلیف او رکرب سے کراہتے ہوئے کہا” میرے تو چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں ۔اب تو مجھے پور ی کی پوری کہکشاں نظر آرہی ہے ۔اس کے علاوہ نانی بھی یاد آرہی ہے جو مجھے چاند ستاروں کی کہانیاں سنایا کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔اف میرے خدا !اس نیازی نے تو مجھے چھٹی کا دودھ تک یاد دلا دیا ۔۔۔میری توبہ“

نیازی صاحب نے پوری قوت کے ساتھ ناصف کھبال کو دھکا دیا اور کہا ”جب تم میزبانو ں کو سبز باغ دکھا کر اپنی عیاری ،مکاری اور فریب کاری کا اس قدر ڈھٹائی کے ساتھ دکھاوا کرو گے تو پھر اس کے بدلے میں وہ بھی تمھیں دن میں تارے دکھانے میں حق بہ جانب ہیں ۔تم جیسے سفلہ اور متفنی لوگ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں۔تم اسی درخت کی جڑیں کاٹتے ہو جو تمھیں آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھتا ہے ۔تم اپنی تباہی ،روسیاہی اور جگ ہنسائی کا خود ہی سبب ہو ۔تم اسی ٹہنی کو کاٹ رہے ہو جس پر تمھار اآشیاں ہے ۔“

ناصف کھبال کے سر سے گدھے کے بالوں کی وگ دور جا گری تھی ۔اس نے اپنے گنج کو کھجلاتے ہوئے زار و قطار روتے ہوئے کہا:
زار رونا چشم کا کب دیکھتے
دیکھے ہیں لیکن خدا جو کچھ دکھائے

نیازی کے ہاتھوں جب ناصف کھبال کی درگت بن رہی تھی تو ایک ہجوم یہ تماشا دیکھنے کو امڈ آیا۔سب لوگ اسے ہدف تنقید بنا رہے تھے اور سب لوگ سنگ ملامت لیے باہر نکل آئے۔یہ ایسا منظر تھا جسے دیکھنے کے لیے ہر شخص بے تاب تھا ۔محسن کش کا انجام ہر شخص کے لیے تازیانہءعبرت بن گیا ۔ناصف کھبال جب چاک گریباں اور خاک بہ سر وہاں سے جا رہا تھا تو اس نے کہا :
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

بادی النظر میں دکھاوا ایک عام سا رویہ ہے مگر اس کے اثرات دور رس اور غیر معمولی ہیں۔مصر کے بازار سے لے کر انا رکلی بازار تک ہر مقام پر دیکھنے اور دکھانے کے ہزارہا مواقع موجود ہیں ۔فریب خیال کو یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ خزاں کے سیکڑوں مناظر ہیں جو کہ اس بات کے بارے میں خبردار کرتے ہیں کہ طلوع صبح بہاراں محض سراب ہے ۔دکھانے والے جو چیز بھی دکھاتے ہیں وہ فریب نظر ہو تا ہے ۔ملا نصرالدین ہو یا ملا دو پیازہ ،شیخ چلی ہو یا شیخ سعدی سب کے سب فاضل اس بات پر متفق ہیں کہ حسن کا انجام بہت ہوش ربا ہوتا ہے ۔اس کی ارزانی بھی جان لیوا ہوتی ہے اور گرانی بھی سوہان روح بن جاتی ہے ۔حسن اگر سرگراں ہو تو پروانے سبک سر بن کے اس کے حضور سر تسلیم خم کر دیتے ہیں اس کے باوجود حسن وہ گنج گراں مایہ ہے جس کی طلب کرنے والے تو بہت ہیں لیکن وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ حسن کی طلب کے لیے دست و کشکول کے بجائے کاسہءسر لے کر جانا پڑتا ہے اور یہ منظر دیدنی ہوتا ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ اس بھاری قیمت کو چکانے والے اب عنقا ہو چکے ہیں ۔بہ قول شاعر :
دکھلائیے لے جا کے تجھے مصر کا بازار
لیکن نہیں خواہاں واں کوئی جنس گراں کا

اپنی تما م بے اعتدالیوں ،تضادات ،بے ہنگم ارتعاشات اور کجیوں کے باوجود یہ دنیا اور کار جہاں اللہ کریم کی ایک نعمت ہے ۔اسے بڑی احتیاط سے دیکھنا چاہیے ۔اس دنیا میں تو سانس بھی بڑے سلیقے اور قرینے سے لینا چاہیے کیونکہ یہاں کے نازک امور کی انجام دہی بہت محتاط رویہ اپنانے کی متقاضی ہے ۔ دنیا کو بالعموم کارگہ شیشہ گری سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔یہاں اپنائیت کے جو مظاہر ہیں وہ فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ہیں ۔اس دنیا میں دیکھنے والوں کے لیے عبرت کا سامان موجود ہے ۔بہ قول اقبال:
گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

وقت اس دنیا میں ایسے حادثات کو سامنے لاتا ہے کہ اسے دیکھ کر ان حادثات کو کسی نام سے تعبیر کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے ۔باغ بہشت سے جب انسان کو حکم سفر ملا تو وہ یہاں آیا اور اس جہاں کے کار دراز کو دیکھ کر اس قدر الجھ گیا کہ اسے واپسی کا کبھی خیال ہی نہ آیا۔اس دنیا کی رعنائیوں اور نمود و نمائش نے انسان کو مسلسل خسارے کی جانب دھکیل دیایہاں تک کہ اس نے قبر کا منہ جا دیکھا۔انسان اس قدر غافل ہے کہ وہ اس دنیا کی رنگینیوں میں کھو جاتا ہے اور اسے یہ خبر نہیں ہوتی کہ سعی ء پیہم ہی کو در اصل ترازوئے کم و کیف حیات کی حیثیت حاصل ہے ۔یہاں اسے دیکھنے اور دکھانے سے فرصت کب ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ کائنات ابھی نا تما م ہے اور اس میںدما دم صدائے کن فیکون یہ ظاہر کرتی ہے کہ سیکڑوں دور فلک ابھی آنے والے ہیں ۔عدم کے کوچ کی فکر ہم پر لازم ہے ،اس کٹھن سفر میں راستے میں نہ تو کوئی بدرقہ میسر ہے اور نہ ہی قیام کے لیے کسی دیار کا وجود ہے ۔کڑی دھوپ کا یہ سفر اس طرح کٹے گا کہ آنکھوں میں تیز دھوپ کے نیزے گڑے ہوں گے ابتلا اور آزمائش کی اس گھڑی میں انسان بے بسی کے عالم میں کھڑے ہوں گے ۔وہ وقت دور نہیںجب ہمارے نرم و نازک اعضائے جسمانی ملخ و مور کے جبڑوں میں ہو ں گے ۔اس ہو لناک منظر کے تصور سے دل دہل جاتا ہے ۔الفاط کی ترنگ اور دبنگ لہجے کی تمام شان خیال و خواب ہو جائے گی ۔عمر رواں کی یہ سزا اسے تن تنہا بھگتنا ہو گی اس میں کسی تخفیف کا تصور ہی عبث ہے ۔

دکھاوا کئی اعتبار سے ہماری معاشرتی زندگی کا ایک جزو بنتا جارہا ہے ۔کئی سماجی رسوم و رواج میں دکھاوا اپنی پوری تابانی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے ۔یہ خیال بار بار نہاں خانہءدل میں جا گزیں ہوتا ہے کہ ہماری ورق ورق زندگی ایک دکھاوا ہی تو ہے۔ہم زندگی بھر آلام روزگار کے مہیب بگولوں کی زد میں رہتے ہیں ۔دیکھنے الے ہماری بے سروسامانی،کم مائیگی ،حرماں نصیبی،دوں ہمتی اور اضمحلال کی کیفیات دیکھتے ہیں ۔تقدیر قدم قدم پر ہماری ہر تدبیر کی دھجیاں اڑا کر ہمیں اپنے ابنائے جنس کے روبرو تماشا بنا دیتی ہے ۔کاتب تقدیر نے کس قدر عبرت نا ک انداز میں اس قسم کے دکھاوے کے فراواں مواقع پیدا کر دیئے ہیں۔احبا ب کی جدائی کے جان لیوا صدمات سہنے کے بعد ہماری بے بسی دیدنی ہوتی ہے ۔ہماری سب تدبیریں الٹی ہو جاتی ہیں او رہم گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ اے ہجوم یاس اب بس بھی کر کیونکہ اب ہمارا دل حرمان و یاس کے مزید تیر ستم سہنے کی تاب نہیں لا سکتا ۔دکھاوے کی متعد د قباحتوں کے باوجود ہر شخص اس کا اسیر ہے ۔کون ہے جو اس کا حاجت مند نہیںہے ۔جسے دیکھو دکھاوے پر جان دینے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے ۔دکھاوے کے عشق کی انتہا کو ن لا سکتا ہے ۔امیر لوگوں کو تو تعلیمی اداروں میں بھی نمود و نمائش سے فرصت نہیں۔ان کے بچے ان اداروں میں داخل ہوتے ہیں جہاں دکھاوے کی سہولتیں دستیاب ہوں جہیز بھی دکھاوے کی ایک رسمی صورت کے طور پر ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی میں رواج پا گیا ہے ۔لڑکی کے والدین اپنے لخت جگر کی آسودگی کے لیے اپنے جگر کا خون دے کر جہیز کی نمائش کا اہتمام کرتے ہیں ۔اس کے باوجود لالچی ،حریص،منافق اور ابن الوقت عناصر کی کسی طور سیری نہیں ہوتی ۔وہ ھل من مزید کا نعر مستانہ لگاتے ہوئے خود غرضی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں ۔جہیز کی نمائش کے بعد جب دلھن اپنے سسرال کو سدھار جاتی ہے تو وہا ں پہنچ کر دلھن اپنا منہ دکھانے کی رسم ادا کرتی ہے ۔حیرت کی بات ہے دولھا کے حریص والدین جنھیں سر جھکا کر اور منہ چھپا کر چلنا چاہیے تھا وہ دندناتے پھرتے ہیں مگر دلھن کے غریب والدین زندہ در گور ہو کر باقی زندگی ایک جبر مسلسل کے طور پر کا ٹتے ہیں ۔جہیز کی نمائش،اس کے تقاضے اور اس کے مسمو م اثرات نے لڑکیوں کے مجبور والدین کی زندگی اجیرن کر دی ہے ۔ان سب باتوں کا علم ہوتے ہوئے بھی استحصالی مافیا لڑکی کے والدین کے درپئے آزار رہتا ہے ۔

رشوت ،بلیک مارکٹنگ ،منشیات کی کمائی اور کالے دھن کی وجہ سے پورا معاشرتی ڈھانچہ لرزہ بر اندا م ہے ۔ان گھناونے دھندوں کے پس پردہ بھی جعلی شان و شوکت اور نمود و نمائش کی تمنا کار فرما ہوتی ہے ۔کالے دھن کے استعمال سے سطح زمیں پر ناسور کی صورت میں کھڑی ہونے والی بلند و بالا عمارتیں شرافت ،انسانیت او رعزت و وقار کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔اس پر طرفہ تماشا یہ کہ مجبوروں کا خون چوس کر تعمیر کیے جانے والے ان عشرت کدوں کے دکھاوے کے لیے ان کی منحوس پیشانی پر ”ھذامن فضل ربی “کے مقدس الفاظ کند ہ کر کے صداقتوں کی تکذیب اور حقائق کی تمسیخ کو وتیرہ بنا لیا گیا ہے ۔

آج کا دور دکھاوے کا دور ہے ہر سمت دکھاوے کے ہزارہا مناظر دیکھے جا سکتے ہیں ۔بیوٹی پارلر ،بوتیک ،فیشن کے مراکز ،جیولرز کی دکانیں ،شادی ہال،کلب ،ریسٹورنٹ،سیر گاہیں ،صحت افزا مقامات اور تعلیمی ادارے غرض کون سی جگہ ہے جہاں نمود و نمائش کے فراواں مواقع میسر نہیں ۔کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے ہوتے نہیں ان کی اصلیت کچھ اور ہوتی ہے ۔دکھاوے کے لیے انھیں خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے ۔اس قسم کی ملمع سازی کے بعد ان کی حقیقت کی تہہ تک پہنچنا بلا شبہ ایک کٹھن مرحلہ ثابت ہو تا ہے۔انسان محو حیر ت رہ جاتا ہے کہ اس قدر برق رفتاری سے بدلنے والے مظاہر آنے والے زمانے میں کیا سے کیا ہو جائیں گے َ۔زندگی جسے جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں سے تعبیر کیا جاتا ہے اب کس قدر مصنوعی اور نمائشی انداز میں مشینو ں میں ڈھلتی جا رہی ہے ۔بے حسی کا یہ حال ہے کہ لوگ حادثہ دیکھ کر ٹھہرنے کے بجائے اپنے اپنے معمولات زندگی میںمشغول رہتے ہیں ۔مسلسل شکست دل کی وجہ سے انسانیت کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کے اعصاب شکن مناظر عام ہیں ۔آدمی اب انسانیت سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ہمارے ارد گرد پتھر اور روبوٹ خراما ں خراماں سر گرم سفر ہیں ۔بہ قول شاعر
چلتے پھرتے ہوئے مردوں سے ملاقاتیں ہیں
زندگی کشف و کرامات نظر آتی ہے

سب دکھاوے اپنی جگہ پر موجود ہیں مگر اس وقت اہل قلم کو بھی اس نے اپنی گرفت میںلے رکھا ہے ۔ادیبوں کے ساتھ شامیں ،صبحیں ،دن ،ہفتے اور سال منانے کے کام اسی ذیل میں آتے ہیں ۔کتب کی رونمائی کو بھی اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ فروغ علم و ادب کے لیے ایسی تقریبات کا اہتمام نا گزیر ہے۔ان کے معجز نما اثر سے ہر طرف چہل پہل دکھائی دیتی ہے ۔اس موقع پر زیرک نقاد ،اور ارباب بصیرت او رممتاز دانشوروں کو یہ امر بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ گلشن ادب سے خود رو جڑی بوٹیوں کو تلف کرنا بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔خس و خاشاک سے چمن زار ادب کو پاک کرنا تنقید کا منصب ہے ۔یہ تنقید ہی ہے جو چربہ ساز ،سارق،کفن دزد اور جعل ساز متشاعر اور ادیبو ں کا پورا کچا چٹھا پیش کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتی ہے ۔ہمیں وقت کا انتظار کرنا چاہیے کہ آنے والا وقت کسے کیا مقام عطا کرتا ہے ۔ ممتاز شاعر اور ادیب محشر بدایونی نے ایک اہم صداقت کو شعر کے قالب میں ڈھالا ہے جو ہر دور میںقاری کے لیے چشم کشا ثابت ہو گی؛
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیئے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
Dr. Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Dr. Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Dr. Ghulam Shabbir Rana: 80 Articles with 257236 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.