روزوں کا مہینہ امت مسلمہ کے لیے
اللہ پاک کا ایک بہت بڑا انعام ہے، جسمیں آسمانی شیطان کو باندھ دیا جاتا
ہے، جب کہ زمینی شیطانوں کا پٹہ شاید خود بخود کھل جاتا ہے اور وہ کھل کر
اپنا شیطانی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ بد بخت، بد نصیب، لالچی، حرام
خور ، ذخیرہ اندوز ، اس ماہ مبارک کی ااہمییت اور فضیلت کو نہ سمجھتے ہوئے
بھوکے بٹیروں کی طرح مارکیٹ میں کمانے کے لیے ایسے وارد ہوتے ہیں کہ جیسے
پورے سال کی کما ئی صرف اسی ماہ ماہ مبارک میں کرنی ہے۔ اپنی مرضی کا منافع
کمانے کے لیے ماہ رمضان ا لمبارک کی آمد سے قبل ہی انکے گودام روز مرہ کی
اشیا ءسے ایسے لبا لب بھر جاتے ہیں جیسے ہمارے ہاں کسٹم والوں کی یا تحصیل
کچہری کے کلرکوں کی جیبیں پیسوں سے بھری ہوتی ہیں ۔ یہ حرام خور ، ذخیرہ
اندوز اسوقت تک اس کام میںجتے رہتے ہیں جب تلک کہ اس حرام کی کمائی سے نکو
نک نہ ہوجائیں۔ حیرت کی بات یہ کہ انہیں نکو نک کرنے میں اور عوام کا گلا
اور جیب کاٹنے میں انتظامیہ انکا بھر پور ساتھ دیتی ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ
سیب 100 روپے کلو، کیلا 60 روپے درجن، انگور 200 روپے کلو ، آڑو 80 روپے
کلو، آم 60 روپے کلو اور کھجور 50 روپے پاﺅ بک رہی ہے ۔ دوسری طرف سستا آٹا
اور سستی چینی کے لیے لا ئنوں میں لگے عوام ایک دوسرے کو ننگ دھڑنگ کر رہے
ہوتے ہیں، ایک ٹرک سستے آٹے یا چینی کا آتا ہے تو ہزاروں لوگ اسپر ایسے پل
پڑتے ہیں جیسے شہد کے چھتے پر مکھیاں، اور شریف آدمی دور کھڑا اپنے نصیب کو
کوستا رہتا ہے۔ حکومت دعوے تو کر تی ہے کہ اربوں کی سبسڈی دے رہی ہے ، تا
ہم پتہ نہیں چلتا کہ یہ سب ۔سڑی کہاں سڑ رہی ہوتی ہے ۔ نام نہاد رمضان
بازاروں میں نہ دکاندار ہیں اور نہ خریدار۔ اتنی مہنگی اشیاءتو غریب صرف
چھو ہی سکے گا کہ خرید کر کھانا اسکے بس میں نہیں۔
ہر سال حسب روایت رمضان ا لمبارک کا چاند انتہائی غور سے دیکھنے اور شواہد
جمع کرنے کے لیے رویت ھلال کمیٹی کا اجلاس بلایا جاتا ہے ۔ عموما یہ ہوتا
ہے کہ رات بارہ بجے جب آدھے لوگ سو چکے ہوتے ہیں، آ دھے لوگ تراویح کے
انتطار میں مساجد میں بیٹھ بیٹھ کر سوکھ جاتے ہیں ، یا پھر کئی امام حضرات
تنگ آکر تراویح پڑھا بھی چکتے ہیں، اور کئی گھر وں کو سونے چلے جاتے ہیں ،
تو چاند نظر آنے کا اعلان کر دیا جاتا ہے، پتہ نہیں یہ رات دس بارہ بجے
کونسا چاند دیکھتے ہیں؟؟ اس بار بھی ہمارے سرحدی بھائیوں کو رمضان المبارک
کا چاند ایک روز پہلے ہی نظر آگیا اور یہ بھی شکر رہا کہ بقیہ پورے ملک میں
بھی چاند ٹائملی نظر آگیا ورنہ ہوتا وہی ہے جو پہلے لکھا ہے۔
رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی پہلے دو چار روز تو مساجد میں نمازیوں کی
بڑی لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں، پھر آہستہ آہستہ یہ گراف گرنا شروع ہو
جاتا ہے، اور پھر جیسے ہی بیس دن گزرتے ہیں دوبارہ سے مساجد بھرنا شروع ہو
جاتی ہیں، زیا دو تر لوگ تو آخری عشرہ کا ثواب کمانے کے لیے مساجد میں آتے
ہیں۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف ختم شریف کی مٹھا ئی کھانے کے چکر
میں مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ اور تو اور محلے یا شہر کی جس مسجد میں بھی
رمضان شریف کے قرآن کے ختم کی خبر ملے یہ فورا وہاں پہنچ جاتے ہیں، صرف
مٹھائی کھانے کو۔کچھ ایسے ہی روزہ خور حضرات افطاری کے ٹائم مسکین سی شکل
بنائے مساجد میں بھی بکثرت واردہوتے ہیں تاکہ پرائے مال پر ذرا ستھرا ہاتھ
صاف کر سکیں اور تو اور انتظامیہ میں شامل ہو جاتے ہیں، تا کہ خاص خاص مال
سے بھی لطف اندوز ہو سکیں۔ کچھ کام چور اور سینہ زور حضرات جو کچھ نہیں
کرنا چاہتے وہ ان دنوں اعتکاف میں بھی بیٹھے نظر آتے ہیں اور بجائے اس کے
کہ اپنا زیادہ ٹائم عبادت میں گزاریں، منڈے شنڈے اکھٹے ہو کر رات رات بھر
مساجد میں گپیں ہانکتے نظر آتے ہیں اور دوسروں کی عبادت میں مخل ہوتے ہیں ۔
دن میں کسی بچے کوکوئی کام کہہ دو تو فورا مسکین سی صورت بنا کر روزہ کا
بہانہ بنا دیتے ہیں چاہے روزہ ہو کہ نہ ہو۔ اسکے علاوہ سرکاری دفاتر میں
کام کرنے والے ہڈ حرام جو پورا سال کچھ نہیں کرتے ان دنوں روزوں کا بہانہ
کر کے مزید ×××× پر اتر آتے ہیں،10 بجے ڈیوٹی پر آئے اور 12بجے چھٹی کر کے
غائب ۔
دوسری طرف بازار کا حال دیکھیے کہ اتنی مہنگائی اور گرانی کے باوجود لگتا
نہیں کہ مہنگائی ہے، سموسے، پکوڑے ، جلیبی ، کھجلا، پھینیاں ، چکن رول اور
دیگر سامان سحر و افطار کی دکانوں پر لوگ یوں پلے پڑے ہوتے ہیں، کہ جیسے
کبھی یہ اشیاءان کے لعاب دہن سے ہو کربھی نہ گزری ہوں یا یہ کہ اس بار نہ
ملا یا نہ کھا یا تو کبھی نہ ملے گا، یا جیسے فری بٹ رہی ہوں۔ دوسری طرف
غریب کی بیگم ایک ھاتھ میں تھیلا اور دوسرے میں سو روپے تھماکر کہتی ہیں کہ
پورے ہفتے بھر کا فروٹ لے آنا، میاں واپس آتے ہیں تو اس میں ایک افطاری کا
سامان بھی پورا نہیں ہوتا۔اس بھلیے لوکے کو کیا پتہ کہ باہر کتنی مہنگا ئی
ہے۔ آجکل آلو مہنگے یعنی 60روپے اور سیب نمبر دو سستے یعنی 50 روپے کلو
ہیں۔ میاں نے تو تنگ آ کر کہ دیا کہ بیگم سیب کے ہی پکوڑے بنا لو، اور سالن
میں بھی آلو کی جگہ سیب استعمال کرو۔ وہ تو شکر رہا کہ بیگم روزے سے تھیں
ورنہ انکا جواب کئی روز تک کانوںمیں رس گھولتا رہتا ۔ گھر میں جتنے بندے
ہوتے ہیں اتنی ہی اشیاءکہ سب کی الگ الگ پسند ۔ کسی نے شکنجوی پینی ہے تو
کسی نے روح افزا تو کسی کو لسی پسند ہے، سادہ پانی کو تو رقیب روسیاہ کی
طرح ان دنوں ایسا جانتے ہیں کہ جیسے اسمیں جمال گھوٹا ملا ہوا ہو۔ افطاری
کے ٹائم بڑوں سے زیادہ بچے پکوڑوں، سموسوں،دہی بھلوں اور دیگر لوازمات پر
ہاتھ صاف کرنے کے لیے تیا ر بیٹھے ہوتے ہیں، ادھر سائرن بجا اور بچوں کی
کاروائی شروع، بعض دفعہ تو بڑوں کو صرف پانی پر ہی اکتفا کر نا پڑتا ہے۔
رمضان المبارک میں صبح کی سحری کا آغاز ایسے ہوتا ہے کہ ہر روز صبح سویرے
میاں کا بیگم سے پھڈا ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے، بیگم کو دس بار اٹھاﺅ تو تب
جاکر ایک بار اٹھتی ہے، اور بجائے اس کے کہ بیوی میاں کو اٹھائے، میاں صاحب
بیوی کو اٹھا رہے ہوتے ہیں، کیونکہ آلو اور قیمے کے پراٹھے، پھینیاں اور
دیگر لوازمات جو تیار کروانے ہوتے ہیں۔
روزوں کا مہینہ جہاں روزہ داروں کیلئے رحمت ہے، وہیں روزہ خورحضرات کے لیے
با عث زحمت بھی ہے کہ انہیں کھانے پینے میں شدید تکلیف کا سامنا ہوتا ہے ۔
ان بیچاروں کو صبح کے ناشتے اور دوپہر کے لنچ کے لیے بار بار بس اڈوں اور
ریلوے اسٹیشنوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔چاہے کسی گاڑی یا بس کے آنے جانے کا
ٹائم ہو یا نہ ہو، اڈے اور اسٹیشن پر رش اسی طرح ہوتا ہے، اور مسا فروں سے
زیادہ روزہ خور حضرات کھانے پر ٹوٹے اور پلے پڑے نظر آتے ہیں۔ تمبو کے
پیچھے دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے کہ پاکستان ریلوے اور اڈے والوں نے محکمہ
کا خسارہ پورا کرنے کے لیے اپنی جگہ کسی شادی ہال والوں کو کرائے پر دے دی
ہے۔ اس تمبو کے پیچھے روزہ خورحضرا ت کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں پولیس
والے بھی نظر آتے ہیں جو کہ بخوشی اپنی ڈیوٹی وہاں لگواتے ہیں تاکہ پیٹ اور
جیب دونوں کے بھرنے میں آسانی رہے۔ اسکے ساتھ ساتھ مریض حضرات اور وہ حضرات
جنکے گھریلو تعلقات میں کشیدگی چلی آرہی ہو، ایسی پبلک پلیسس پر کافی تعداد
میں پائے جاتے ہیں۔
بہر حال! اگر ان مذکورہ ذخیرہ اندوز حضرات کو اس ماہ مبارک کی اصل اہمیت کا
اندازہ ہوجائے تو یہ اپنے گوداموں کے منہ خیرات کے لیے ایسے کھول دیں کہ
لینے والے بندے ختم ہو جائیںپر مال ختم نہ ہو۔ اور اگر روزہ خور حضرات کو
روزہ کی اہمیت اور فضیلت پتہ چل جائے تو وہ سال بھر پکے روزے سے رہیں، نہ
کہ ایسے جیسے ہمارے ایک شیخ صاحب دوست ہیں انکے ہاں جب بھی غلطی سے کوئی
مہمان آجائے تو وہ فورا روزے سے ہوجاتے ہیں، تاکہ کچھ کھلانا پلانا نہ پڑے۔
کیا آپ کا واسطہ کبھی ایسے لوگوں سے پڑا ہے ؟ اللہ پاک تمام مسلمانوں کو اس
مبارک مہینے کی فیوض و برکات سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔ |