محمد عابد ندیم
اسلام میں مسجد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے،مساجد اسلام کے وہ مضبوط قلعے
ہیںجہاں اسلامی اقدار کی حفاظت ہوتی ہے اور ان کو فروغ ملتا ہے۔یہ مسجد ہی
ہے جس کے میناروں سے روزانہ پانچ بار افق میں گونجنے والے نغمہ لاہوتی سے
عالم کفر لرزہ براندام ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آقائے نامدار ﷺ کا ہجرتِ
مدینہ کے بعد سب سے پہلا قدم یہ تھا کہ آپ ﷺ نے مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی
اور خودبنفسِ نفیس اس کی تعمیر میں شریک ہوئے۔
مسجد نبوی محض ادائے نماز ہی کے لیے نہ تھی بلکہ یہ ایک یونیورسٹی تھی جس
میں مسلمان اسلامی تعلیمات وہدایات کا درس حاصل کرتے تھے،ایک محفل تھی جس
میں مدتوں جاہلی کشا کشی،نفرت اور باہمی لڑائیوں سے دو چار رہنے والے قبائل
کے افراد اب محبت اوالفت سے مل جل کررہتے تھے،ایک مرکز تھا جہان سے اس ننھی
سی ریاست کا سارا نظام چلایا جاتا تھا،ایک فوجی چھاﺅنی اور ہیڈ کوارٹر تھا
جہاں سے اسلام کے جانثار فوجیوں کے لشکر جرار کفار کی بڑھتی ہوئی یلغار کا
قلع قمع کرنے کے لیے بھیجے جاتے تھے۔علاوہ ازیں اس کی حیثیت ایک پارلیمنٹ
کی تھی جس میں مجلسِ شوریٰ اور مجلسِ انتظامیہ کے اجلاس منعقد ہوا کرتے
تھے۔مسجد ہی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا ایوانِ عدل تھی جس کے چیف جسٹس
سراپا عدل وانصاف حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تھے۔ان سب کے ساتھ ساتھ مسجد ہی ان
فقراءمہاجرین کی خاصی بڑی تعداد کا مسکن تھی جن کا وہاں پر کوئی مکان تھا
نہ مال واہل وعیال۔
مسلمانوں کی ثقافت،معاشرت اور تہذیب وتمدن میں مسجد کا کردار کسی قیمت
فراموش نہیں کیا جاسکتا۔مسجد کی حرمت،عزت اور مرتبت مسلمانوں کے قلوب میں
اس قدر راسخ تھی کہ اس کی بے حرمتی کا تصور بھی گناہ خیال کیا جاتا تھا۔اسی
کے اثر کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں شہید کی جانے والی بابری مسجد اور
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بربریت کا شکار ہونے والی امیر حمزہ
مسجد کے بعد مسلمانوں کے تاثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے اس تصویر کے دوسرے رخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو دل
خون کے آنسو روتا ہے۔وہ مسجد جو کبھی اسلامی ثقافت،تہذیب اور تمدن کی علم
دار تصور کی جاتی تھی آج فقط سیر گاہ کی حیثیت اختیار کرچکی ہے ،وہ مسجد جس
کی بے حرمتی کے تصور سے مسلمان کانپ اٹھتے تھے آج ہوٹل کی شکل اختیار کرچکی
ہے اور جس کے میناروں سے صدائے بلالی بلند ہوتے ہیں اتنے لوگ خدا کی بار
گاہ میں جبینِ نیاز جھکانے کے لیے آتے کہ تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی آج وہ
مسجد معاذ اللہ ایک حمام کی صورت اختیار کرگئی ہے۔انتہائی افسوس کی بات تو
یہ ہے کہ مساجد کی حرمت کو پامال کرنے والے،مساجد کی عزت کو بالائے طاق
رکھنے والے اغیار نہیں ،ہمارے اپنے ہیں۔
اگر کسی دیہات میں آپ کا جانا ہوا ہو تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے کسان
بھائی کھیتوں میں کام کر کے غسل کے لیے مساجد کا رخ کرتے ہیں مسجد میں اگر
نماز ہو رہی ہو تو یہ صاحب غسل کے بعد بجائے حکم ربی بجالانے کے گھر کی راہ
اختیار کریں گے۔ایک مسجد کے بارے میں تو یہاں تک معلوم ہوا ہے کہ وہاں کی
خواتین اسے معاذ اللہ دھوبی گھاٹ کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔خواتین گروہ
کی صورت میں مسجد کے صحن میں بیٹھ کر کپڑوں کی دھلائی کرتی ہیں،عورت ہو اور
وہ بھی گروہ کی شکل میں تو وہاں اُدھم مچتا ہوگا اس کا اندازہ آپ بخوبی
لگاسکتے ہیں۔شب وروز کے یہ مناظر دیکھ کر آسمان محوِحیرت،زمین انگشت بدنداں
اور مسلمان جس کو خالقِ کائنات نے اپنی خلافت کا تاج پہنایا وہ محو خراماں
ہے۔
یہ تو ہمارے دیہاتوں کی حالت ہے جن کے رہنے والے ہماری نظر میں ان پڑھ ،بیوقوف،جاہل
اور اجڈسمجھے جاتے ہیں۔جن کو ”پینڈو“کا خطاب دینے میں ہم فخر محسوس کرتے
ہیں۔لیکن ہماری شہری برادری،ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی اس میدان میں کسی سے
کم نہیں بلکہ یہ بھی اپنی ہمت،طاقت اور بساط کے مطابق اس ”کارِ خیر“میں حصہ
ڈالتا ہے ان سے اور تو کچھ نہ ہوسکا،انہوں نے مسجد کو سیر گاہ کا روپ دے
دیا ہے۔
لاہور کی شاہی مسجد کو لے لیجیے وہاں زائرین کا ہر وقت تانا بندھا رہتا
ہے،ایک جاتا ہے تو دو نئے آجاتے ہیں۔لوگ فیملیوں کو لے کر سیر کے لیے آتے
ہیں ،جن کا کھانا پینا مسجد ہی میں ہوتا ہے۔کچھ اسی طرح کا حاصل اسلام آباد
کی فیصل مسجد کا ہے،یہاں بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ سیر کے لیے آتے
ہیں،ہر وقت لوگوں کا ایک میلہ سا لگا رہتا ہے جن میں بچے،نوجوان اور بوڑھے
سب ہوتے ہیں۔انتہائی تاسف اور ظلم بالائے ظلم تو یہ ہے کہ ان میں کثیر
تعداد اس صنف نازک کی ہوتی ہے جس کو اسلام نے ذلت کے گڑھوں سے نکال کر عزت
کی بلندیوں پر پہنچایا تھا وہ آج پھر انہیں ذلت کے گڑھوں کی طرف لوٹنے کے
لیے پر تول رہی ہے،جن میں سے بعض نے تو انتہائی قابل اعتراض لباس زیب تن
کیا ہوتا ہے ۔
بدقسمتی سے دور جدید میں عورتوں کی عریانی اور بے حجابی کا جو سیلاب برپا
ہے،وہ تمام اہل فکر کے لےے پریشانی کا موجب ہے۔مغرب اس لعنت کا خمیازہ بھگت
رہا ہے،وہان عائلی نظام تلپٹ ہوچکا ہے،شرم وحیا اور غیرت وحمیت کا لفظ اس
کی لغت سے خارج ہوچکا ہے،اور حدیث پاک میں آخری زمانہ میں انسانیت کی جس
آخری پستی کی طرف الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ”وہ چوپایوں اور گدھوں کی
طرح سربازار شہوت رانی کریں گے“اس کے مناظر بھی وہاں سامنے آنے لگے ہیں۔
ابلیسِ مغرب نے صنف نازک کو خاتونِ خانہ کے بجائے شمع محفل بنانے کے
لیے”آزادی نسواں“کا خوبصورت نعرہ بلند کیا،ان کے والدین کو سمجھایا گیا کہ
پردہ ان کی ترقی میں رکاوٹ ہے ،انہیں گھر کی چار دیواری سے نکل کر زندگی کے
ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہےے،اس کے لیے تنظیمیں بنائی
گئیں،تحریکیں چلائی گئیں،مضامین لکھے گئے ،کتابیں لکھی گئیں،اور پردہ جو
صنف نازک کی شرم وحیا کا نشان،اس کی عفت وآبرو کا محافظ اور اس کی فطرت کا
تقاضہ تھا،اس پر رجعت پسندی کے آوازے کسے گئے۔
اس مکروہ ترین ابلیسی پروپیگنڈے کا نتیجہ یہ ہوا کہ حواکی بیٹیاں ابلیس کے
دام تزویر میں آگئیں ،ان کے چہرے سے نقاب نوچ لیا گیا،سر سے دوپٹہ چھین لیا
گیا،آنکھوں سے شرم وحیا لوٹ لی گئی اور اسے بے حجاب وعریاں کر کے تعلیم
گاہوں،دفتروں،اسمبلیوں،کلبوں،سڑکوں،بازاروں اور کھیل کے میدانوں میں گھسیٹ
لیا گیا،اس مظلوم کا سب کچھ لٹ چکا ہے لیکن ابلیس کا جذبہ عریانی وشہوانی
ہنوز تشنہ ہے۔
اے مسلمان!ذرا ہوش کے ناخن لے تو کس ڈگر پر چل نکلا؟تیرا مشن تو ان اسلام
کے قلعوں کو محفوظ رکھنا تھا تو خود ہی ان کو مسمار اور منہدم کرنے کے درپے
ہے....؟؟ |