کس کو سناﺅں؟ کس سے کہوں؟

کس پر لکھوں اور کیا لکھوں؟کراچی میں گرنے والے خون کی بات کروں ؟یا پھر بلوچستان میں ہونے والی خونریزی پر لکھوں؟یا شمالی علاقہ جات میں بہتی خون کی ندیوں کی بات کروں؟سوچتا ہوں اپنے ان معصوم شہریوں کے قتل ناحق پر لکھوں جو حیرت میں ڈوب کر یہ صدا لگا کر موت کو گلے لگا رہے ہیں
جانے کس جرم کی سزا پائی ہے

کبھی جی چاہتا ہے شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں میں معصوموں کی لاشوں کی فریاد کو لکھوں جن کی لاشوں سے برابر یہ صدا آرہی ہے کہ
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

کبھی ذہن میں یہ خیال کلبلاتا ہے کہ ان بیواﺅں اور یتیموں کے نوحوں کو بیان کروں جن کے مجازی خدا اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ،جن کے خاندان کے واحد کفیل بھی اس ظلم کی چکی میں پس چکے ہیں اور دہشت گردی نے جن کے والدین کو ان سے جدا کر دیا ہے لیکن قلم ان دکھوں ،ان صداﺅں کو،ان کراہوں کو، ان غموں اور نوحوں کو لکھنے سے قاصر ہے یہ تو وہ خود جانتے ہیں جن پر یہ حالات و واقعات بیتتے ہیں ہم تو صرف قیاس آرائیاں کر سکتے ہیں ،کبھی سوچتا ہوں مہنگائی کے اس طوفان کے بارے لکھوں جن سے پاکستان کی غریب عوام دوچار ہے اور مہنگائی کاجن قابو سے باہر ہوچکا ہے کبھی بجلی کے بحران پر لکھنے کو دل مچلتا ہے کہ جس سے پاکستان کی غریب عوام اعصابی کمزوری میں مبتلا ہو رہی ہے کبھی بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر لکھنے کو قلم مچلتا ہے تو کبھی خودکشیوں میں اضافے پر لکھنے کو دل کرتا ہے لیکن ان سب دگرگوں حالات کے ذمہ دار کون ہیں ؟؟؟سب یہی کہیں گے کہ یہ کرپٹ نظام اور ہماری حکومت اس خرابی کی ذمہ دار ہے لیکن نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے اس میں ہم سب برابر کے شریک ہیں کیونکہ جیسے عوام ہوں گے ویسے ہی حکمران ہوں گے لیکن حکمران طبقے کو اپنی رعایا کا خیال رکھنا چاہئے کیونکہ حدیث نبویﷺ کے مفہوم کے مطابق”تم سے تمہاری رعیت کے بارے سوال کیا جائے گا“حکمران طبقہ کو ان خراب حالات کا نوٹس لیتے ہوئے کوئی حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی اور عوام کے دکھوں کا ازالہ کرنا ہوگا کیونکہ یہ آپ کا فرض بھی ہے اورذمہ داری بھی ہے جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو وہ اپنی رعایا کی خبر گیری کے لئے بھیس بدل کر راتوں کو گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے اسی طرح ایک رات وہ اپنے غلام اسلم کے ساتھ گشت کر رہے تھے کہ انہیں ایک جگہ آگ جلتی نظر آئی وہ اس طرف چل دیئے جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ چند بچے رو رہے ہیں اور ایک بڑھیا نے دیگچی کے نیچے آگ جلائی ہوئی ہے عمر ؓ نے پوچھا کہ بچے کیوں رو رہے ہیں تو بڑھیا نے جواب دیا کہ یہ بھوک سے رو رہے ہیں اور میں نے انہیں بہلانے کے لیے دیگچی میں پانی ڈالاہوا ہے تاکہ انہیں تسلی رہے اور یہ انتظار کرتے کرتے سو جائیں ،حضرت عمر ؓ نے کہا کہ آپ نے امیرالمومنین کو کیوں نہیں بتایا تو بڑھیا نے جواب دیاکہ عمرؓ ہمارے امیرالمومنین ہیں انہیں ہماری خبر رکھنی چاہئے بڑھیا کی اس بات پر عمرؓ نے جواب دیا بھلا عمر ؓکو تیرے حال کی کیا خبرہے جو وہ تیری خبر گیری کرتا،یہ سن کر بڑھیا نے کہا کہ وہ امیرالمومنین ہیں انہیں ہمارے حال کی خبر رکھنی چاہئے،یہ سن کر حضرت عمرؓ گھر آئے ایک بوری میں ضرورت کا سارا سامان ڈالا اور اسے اچھی طرح بھر دیا پھر اپنے غلام اسلم کو کہا کہ یہ میری پیٹھ پر رکھ دے غلام نے کہا امیرالمومنین میں اٹھا دیتا ہوں اس پر حضرت عمرؓ نے کہا کہ قیامت کے روز بھی میرا بوجھ توہی اٹھائے گا چنانچہ بوری اٹھائے وہ بڑھیا کے پاس پہنچے خود آگ جلائی پھر ان کے لئے اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کیا پھر انہیں کھلایا بھوک مٹ جانے پر بچے ہنستے اور شرارتیں کرنے لگے عمرؓ انہیں مسکراتا دیکھ کر خود بھی مسکرا دیئے اور جب وہاں سے چلنے لگے تو بڑھیا نے کہا کہ تو ہی اس لائق ہے کہ عمر کی جگہ تجھے امیرالمومنین ہونا چاہئے جس پر حضرت عمرؓ نے کہا کہ جب تو امیرالمومنین کے دربار آئے گی تو مجھے بھی وہاں دیکھ لے گی۔

یہ تھے ہمارے اسلاف،ہمیں ان سے سبق سیکھنا چاہئے اور ان کے نقش قدم پر چلنا چاہئے تاکہ میرے ملک کے اجڑے چمن میں پھر بہار آجائے پھر سے وہی رونقیں ،وہ مسکراہٹیں،وہ خوشیاں،وہ قہقہے ،وہ مسرتیں لوٹ آئیں۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 186744 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.