'پرچھاواں پکڑن والیو چھاتی وچ
بلدی اگ دا پرچھاواں نہیں ہوندا'
(پرچھائيں پکڑنے والو سینے کے اندر جلتی آگ کی پرچھائيں نہیں ہوتی)
یہ سطر کئی برس پہلے پنجابی کی امر شاعرہ امرتا پریتم نے اپنی ایک نظم میں
لکھی تھی۔
لیکن اس آگ کی تپش کل شام نیویارک کے سکھوں کی سب سے بڑی آبادی اور
گردواروں والےعلاقے رچمنڈ ہل میں بھی محسوس کی گئی جب پنجابی ادبی سبھا میں
اس کا ذکر کیا گیا کہ امرتا پریتم کا دہلی میں مشہور تاریخی گھر بیچ کر توڑ
بھی دیا گیا ہے اور اب اس پر کمپلکیس تعمیر ہوگا۔
نیویارک کا پنجابی شاعر سریندر سول مجھے مشرقی پنجاب کے ایک اخبار کا حوالہ
دے رہا تھا جس نے لکھا ہے کہ یہ محض ایک خبر نہیں بلکہ ایک تاریخ کا مرثیہ
ہے۔
مجھے یاد آیا، امرتا پریتم کا یہ گھر جس کو میں نے تو صرف ان کی خود نوشت
یادداشتوں 'رسیدی ٹکٹ'یا ناگ منی کے پرچوں میں دیکھا تھا لیکن میرے دوست
شاعر حسن درس، جامی چانڈیو اور مظفر چانڈیو بھی جب انڈیا گئے تھے اسی گھر
پر امرتا پریتم سے جا کر ملے تھے جہاں حسن نے امرتا پریتم کو اپنی اور اس
کے ہمعصر سندھی شاعروں کی شاعری بھی سنائي تھی۔ جہاں میرے یہ دوست امرتا
پریتم کے دوست امروز سے اپنی ملاقات کی دلچسپ تاثرات لائے تھے۔
ہاں اسی گھر میں انیس سو ستانوے میں بٹوارے کے پچاس سال پورے ہونے پر بی بی
سی اردو کی معرکتہ آرا سیریز 'ہندو پانی، مسلمان پانی' کیلیے محمد حنیف نے
امرتا پریتم کی تاریخی کُوک جیسی نظم 'اج اکھاں وارث شاہ نوں'جا کر ریکارڈ
کی تھی ۔ '
امرتا پریتم کے اسی گھر کے دورازے پر اس کی یہی سطر امروز نے اپنے فن مصوری
اور نقش نگار سے بنائي ہوئی تھی:'پرچھاواں پکڑن والیو چھاتی وچ بلدی اگ دا
پرچھاواں نہیں ہوندا'۔
سریندر سول مجھے بتا رہے تھے امرتا پریتم کے فروخت ہوئےگھر سے اس کا بیٹا
بہرحال وہ دروازہ نکال کر لے گیا جس پر وہ سطر لکھی تھی۔میں سوچ رہا تھا آج
پھر سے کوئی 'اج اکھاں وارث شاہ نوں' لکھے۔
دیکھ امرتا پریتم! کون کہتا ہے کہ اندر میں جلتی آگ کی پرچھائيں نہیں ہوتی!
میں نے سوچا کیا انڈین حکومت اور اداروں نے امرتا پریتم کا یہ تاریخی گھر
خریدنے کی کوشش اس لیے نہیں کی ہوگی کہ وہ سکھ تھیں ! سکھ، جو اورنگزیب سے
لیکر اندرا گاندھی اور ان کے بعد کے ادوار تک آگ کے دریاؤں سے گزرگئے ہوئے
ہیں۔ |