ملک”شام“تبدیلی کے خوشگوار موڑ پر

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

بنی اسرائیل چارصدیوں سے طویل مدت پر محیط غلامی میں جکڑے رہے،حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اولالعزم پیغمبر کی قیادت میں آزادی حاصل کرنے کے باوجود جب بنی اسرائیل کو قتال کے میدان میں بلایا گیاتو انہوں نے لڑنے سے انکار کر دیا۔غلامی کے اثرات بدجواقوام کی نفسیات پر مرتب ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قومیں قربانی دینے سے کتراتی ہیں اور غلامی زدہ اقوام کااجتماعی مزاج یہ ہوتاہے کہ دوسرے قربانی دیں اور ہم فائدہ حاصل کرلیں ۔چنانچہ بنی اسرائیل نے بھی اپنے نبی کو یہی جواب دیاتھا کہ ”تواور تیرارب جاکر لڑو،ہم تو یہیں بیٹھے ہیں“۔اس کے برعکس جب قوموں کے اجتماعی ضمیرجاگ اٹھیںتوسب سے پہلے ان میں قربانی کاجذبہ پروان چڑھتاہے اور یہی جذبہ ہی انسانی گروہوں کوقوم کی صورت میں اجاگر کرتاہے۔غلامی سے آزادی کا سفراگرچہ کٹھن ہوتاہے لیکن ثمرآورہوتاہے ،یہی سفرآج امت مسلمہ کودرپیش ہے۔خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعدسے یہ امت مسلسل انقلابات اور جوابی انقلابات کی زد میں رہی ہے،لیکن ہرانقلاب کی ابتدایا انتہاسازشوں پر منتج ہوتی اورثمرات محلات کی بھینٹ چڑھ جاتے جبکہ عوام کی غلامی بدیسی استعمار سے مقامی استبداد کو منتقل کردی جاتی۔

اٹھارویں صدی کل امت پر غلامی کی صدی تھی،انیسویں صدی میں امت کی کوکھ سے بیدارمغزقیادت نے جنم لیااور مشرق تا مغرب ٓزادی کی تحریکات پھوٹ پڑیں،بیسویں صدی کے وسط تک کم و بیش کل امت نے غلامی کی سیاسی زنجیریں اتار پھینکیں تھیں جبکہ تہذیبی و معاشی غلامی کی منحوس باقیات ہنوزعبدااﷲ بن ابی کی نسل کے باعث موجود رہیں۔گزشتہ صدی کے آخر میں تجدیدجہاد سے ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے آنے لگے اوروقت کابہت بڑا ”ہبل“منہ کے بل زمین پر گرااور پاش پاش ہوگیا۔ ہیل ہٹلر،تاج برطانیہ اور روسی ریچھ کے بعد بچ جانے والے آخری طاغوت نے اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی امت مسلمہ کو براہ راست للکارا۔یہ طاغوت بھی ہرلمحے پہلے سے کئی گنا زیادہ رفتار کے ساتھ منزل معدوم کی طرف جیسے جیسے بڑھ رہاہے اسی طرح امت مسلمہ پر اسکے گماشتوں کی گرفت بھی ڈھیلی پڑتی چلی جارہی ہے اور عوام کا بپھرتا ہوا سیلاب اس مصنوعی وبدعنوان وغلامی زدہ نام نہادقیادت کوخس و خاشاک کی طرح بہاتاہوا لے جارہاہے۔ملک شام کے موجودہ حالات بھی اسی کے عکاس ہیں کہ اس ملک کے عوام بھی بلآخربیدار ہوئے اور ان کے ہاتھ بھی اپنے استحصالی طبقے کے آلودہ گریبان تک آن پہنچے۔

ملک شام ایک عرصہ تک یونانیوں اوررومیوں کے زیرتسلط رہاجس کے اثرات وباقیات آج تک بھی کچھ دیہی علاقوں میں موجود ہیں،پھر اسلام سے روشناس ہوا اور632ءمیں خالدبن ولیدؓنے دمشق فتح کیا۔آغاز اسلام کی بہت ہی دلسوز تاریخ ملک شام کے گلیوں اور بازاروں میں رقم ہوتی رہی۔ چار سوسالوں تک یہاں عثمانی ترکوں کی حکومت بھی رہی لیکن اس سارے عرصے میں ملک شام پر عرب ثقافت کی برتری قائم رہی اور قدیم و جدےد مل کر بھی ملک شام کی عربی شناخت کو ختم تو کیا اسے کمزور بھی نہ کر سکے۔عربوں کے علاوہ کردوں کے بھی بہت سے قبائل یہاں آباد ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کرد بھی اب آہستہ آہستہ عربی تمدن کو ہی اختیارکر چکے ہیں ،نسلی پہچان اگرچہ انکی جدا ہی ہے۔قیام اسرائیل کے باعث1948کے بعد اسی ہزار فلسطینی ہجرت کر کے تو ملک شام میں آن آباد ہوئے تھے اور 1967میں جولان کی پہاڑیوں کے مفتوح ہوجانے کے بعد یہاں کی بہت بڑی آبادی ملک کے دوسرے حصوں میں سدھار گئی۔1958میںکیمونزم کے معاشی نظام کو یہاں اپنا لیاگےاجس کے باعث ملکی آبادی کی بہت بڑی تعداددوسرے عرب ممالک میں جانے پر مجبور ہو گئی شاید اس لیے کہ محمد عربی ﷺ کی امت کے ملک پر کوئی دوسرا نظام کیسے پنپ سکتا ہے؟؟تب سے ملک کے بڑے بڑے کاروبار اور صنعتیں جن میں بجلی کی پیداواراور ریلوے بھی شامل ہے حکومت کی ملکیت ہی ہے تاہم بہت چھوٹی سطح پر نجی اداروں کو بھی کاروبار کی اجازت میسرہے۔

1973ءمیں یہاں ایک آئین منظور کیاگیا جس کے مطابق ملک شام عرب کا ایک اہم حصہ ہے،آئین میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی گئی ہے لیکن حافظ الاسد کے زمانے سے ہی بنیادی حقوق معطل چلے آرہے ہیں۔آئین کے مطابق ملک شام کی عرب سوشلسٹ پارٹی کی قیادت ملک کے لیے صدر کا تقرر کرتی ہے اور صدر اپنی معاونت کے لیے وزراکا تعین کرتا ہے۔حافظ الاسدیہاں کے صدر تھے انکی اچانک وفات کے بعدانکے صاحبزادے بشارالاسدآئین کے مطابق ملک کے صدر نہیں بن سکتے تھے کیونکہ انکی عمر کم تھی چنانچہ بیٹے کو باپ کی جگہ تخت نشین کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کی گئی اور اتنی عمر لکھی گئی جتنی عمر میں بشار الاسداس وقت موجود تھے۔یہ ملک شام کی جمہوریت ہے جس کا دارومدار سوشلسٹ فکر پر ہے۔ملک میں دوصوبے بھی ہیں اورانکے گورنرز بھی تعینات کیے جاتے ہیں لیکن اختیارات کا ارتکاز مرکز پر ہی ہوتا ہے اورمرکز سے مرادصدر کی ذات بابرکات ہی ہے،جمہوریت کے نام پر شخصی اقتدارکی اس سے بدتر اور کیامثال ہوگی،کم و بیش یہی صورتحال عراق میں صدر صدام کے وقت میں تھی۔ملک شام کی سوشلسٹ پارٹی کے بالترتیب تین ادارے ہیں ،سب سے بڑا دادارہ نیشنل کمانڈ،پھر ریجنل کمانڈ اور تیسراادارہ پیپلزکونسل،کہنے کو ان اداروں سے منتخب لوگ اوپر جاتے ہیں اور قانون سازی کرتے ہیں لیکن انکی حیثیت کٹھ پتلی کے برابر بھی شاید نہیں ہوتی اور بدترین قسم کاآمرانہ نظام ملک شام کے باسیوں پر مسلط ہے۔عدلیہ کے نظام میں اسلام کے ساتھ ساتھ فرانس کا قانون بھی رائج ہے ۔سوشلسٹ خیالات کے لادین فوجی افسران نے 1967کی عرب اسرائیل جنگ میں بدترین شکست کھائی اور جگہ جگہ بری طرح ہزیمت کاشکارہوئے اور نتیجہ کے طور پر ملک شام اپنے قیمتی علاقے جولان کی پہاڑیوں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔1973کی جھڑپوں میں اس لادین فوجی عنصر نے اپنے ملک کا پہلے سے بھی زیادہ نقصان کیااور پھر1982کی جنگ میں پھر شکست کھائی لیکن حیرانی ہے کہ اس بدترین تجربوں کے باوجود اپنے دین کی طرف پلٹنے کی بجائے پھر بھی روس کے پس ماندہ نظریات سے ہی وابسطہ رہے۔یہ اور بہت سارے دیگرامور اب عوا م کے لیے ناقابل برداشت ہو چکے تھے۔

لاوا پکنے کاعمل نسلوں سے جاری تھا،26جنوری 2011کو یہ آتش فشاں پھٹ پڑااورشام کی سڑکیں مظاہرین سے بھرگئیںجو غداریاباغی نہیں تھے بلکہ آئین میں لکھاہوااپناقانونی حق مانگ رہے تھے۔مظاہرین کا مطالبہ تھاکہ ملک میں 1963ءسے نافذایمرجنسی کا خاتمہ کیاجائے اور شہریوں کے بنیادی حقوق اور جمہوریت بحال کیے جائیں۔شام کے زخمی عوام یہ حق اس سیکولرحکمران سے مانگ رہے تھے جس کے سیکولرفوجی باپ نے اسرائیل سے بدترین شکست کھاکراپنے ہی ملک کے گاؤں کے گاؤں ہوائی جہازوں سے بمباری کر کے عورتوں ،بچوں،بوڑھوں اور جانوروں سمیت ملیامیٹ کروادیے تھے صرف اس لیے کہ وہاں اخوان المسلمون کے اسلامی ذہن رکھنے والوں کی اکثریت تھی۔سیکولرازم کایہی تواصل چہرہ ہے جو2011ءکے ان مظاہرین کو موجودہ صدر کی شکل میں دیکھنا پڑ رہاہے۔جنوری میں شروع ہونے والے یہ مظاہرے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں وبا کی طرح پھیل گئے۔مظاہرین جب شام کے ایک سرحدی شہر”دیرہ“میں ایک جلوس کی صورت میں اکٹھے ہوئے تو اسرائیل سے شکست خوردہ شامی افواج نے اپنے ہی ہم وطنوں پر اپنی بندوقوں کے دہانے کھول دیے۔کتنے ہی نہتے مظاہرین پل بھر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کتنے ہی زخمی ہو کرہسپتالوں میں بستروں کی زینت بنے،جب کہ صرف گرفتار ہونے والوں کی تعدادتین ہزار ہے۔عوام اگرچہ اس واقعہ پر پریشان تھے لیکن صدربشارالاسد نے اس تجربے کو پورے ملک میں پھیلانے کے احکامات صادر کردیے اور دشمنوں سے ہارجانے والی ”سیکولرافواج“اپنے ہی شہریوں کو فتح کرنے چل پڑیں۔

عرب نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق ان مظاہروں میں معاشرے کے تمام طبقات کی نمائندگی موجود رہتی ہے،مظاہرین میں طلبہ،مزدور،دانشور،صحافی،قانون دانوں سمیت ہرمیدان سے تعلق رکھنے والے افراد جوق در جوق شریک ہوتے ہیں اور بہت زیادہ تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جن کے عزیزرشتے داربرس ہابرس سے قیدخانوں میں بندپڑے سڑرہے ہیں اور ملک میں کوئی ادارہ نہیں جوان کی شنوائی کرے ،عدلیہ ،مقننہ ،انتظامیہ،دفاعی ادارے سب فردواحدکے رحم و کرم پرہیں،کیاخوب کہاگیاکہ کفر سے توحکومت رہ سکتی ہے ظلم سے نہیںپس اب شام کے عوام مزیدظلم سہنے سے عاجزآ چکے ہیں۔ممکن ہے اس تحریک کے مٹ جانے کے امکانات بھی موجود ہوتے لیکن جب کسی قافلے کی آبیاری خون سے ہونے لگے اور ایک صف گرنے کے بعد خلف رو بھاگنے کی بجائے قربانی کے جذبے سے آگے بڑھ کراپنے آپ کو پیش کرنے لگیں تو ایسے قافلے نہ یہ کہ روکے نہیں رکتے بلکہ منزل ان کے قدم جھک کرچومتی ہے۔گزشتہ صدی کے وسط میں سلطان الہندحضرت معین الدین چشتی اجمیری کے جوارسے نکلنے والا قافلہ آزادی سعدی شیرازی کے دیس سے ہوتا ہوامشرق وسطی کی وادیوں میں براجمان ہوچکاہے،یہ وہی شیر ہے جس کے ہوشیار ہونے کی پیشین گوئی شاعر مشرق نے کر دی تھی۔بس اب کچھ ہی دن ہیں کہ غلامی کی ان داستانوںکے اوراق لپیٹ کرماضی کے صحیفوں میںدفن کردیے جائیں گے اور ایشیا سمیت کل دنیامیں رحمة اللعالمین ﷺکا لایاہواانسان دوست نظام جو معرفت الہی اور فلاح اخروی کا ضامن ہے انسانوں پر راج کرے گا،انشاءاﷲ تعالٰی۔
Dr. Sajid Khakwani
About the Author: Dr. Sajid Khakwani Read More Articles by Dr. Sajid Khakwani: 470 Articles with 572124 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.