کیا ہو رہا ہے، کوئی سمجھ نہیں پا رہا ۔ کیا ہو گا کوئی
نہیں جانتا۔ حالات کہتے ہیں کہ ملک کی بقا خطرے میں ہے۔ حالات بد سے بد تر
ہوتے جا رہے ہیں۔حال ہی میں ایک پڑھی لکھی تیس سالہ ،جدید علوم سے واقف
خاتون کا کراچی بم دھماکے میں ملوث ہونا انتہائی تشویش ناک ہی نہیں بہت
الارمنگ ہے۔ایک خاتون جو ایم فل زوالوجی ہے، ایم ایڈ کیا ہوا ہے۔ اس کے دو
بچے ہیں خاوند ڈینٹسٹ ہے، یہ کام کرتی ہے ۔سوچیں کس قدر نفرت اس نے اپنے
اندر پال رکھی تھی کہ نہ تو علم کا اس پر اثر ہوا اور نہ ہی اسے اپنے خاوند
اوربچوں کا خیال آیا۔ اس نفرت کے محرکات جاننے کی ضرورت ہے۔مگر کوئی محسوس
کرے تو تب۔ عام آدمی کو تو حالات کی سنگینی کا کچھ علم ہی نہیں۔ وہ تو شاید
پیدا ہی کسی لیڈر کے حق میں نعرے لگانے کے لئے ہوا ہے۔پچھلے ستر سے زیادہ
سالوں میں کسی سیاست دان نے کسی عام شخص کے لئے کچھ نہیں کیا۔ مہذب ملکوں
میں جنہیں ویلفئر سٹیٹ کا نام دیا جاتا ہے ، غریبی کس طرح ختم ہوئی ہے اور
وہاں کے سیاستدانوں کا اس میں کیا کردار ہے۔ ہم نے صرف سنا ہے ،کیا عمل تھا
اور کیا کوششیں ہوئیں جو انہوں نے کیں کہ وہاں حالات بدلے ،اس کا حقیقی علم
ہم میں یہاں کسی کو نہیں۔برداشت کسے کہتے ہیں، جمہوریت کیا ہوتی ہے اور
آئین کی سر بلندی کسے کہتے ہیں، ہم اس سے بھی مکمل لا علم ہیں ۔ ہم صرف چند
جھوٹے بولوں کے محتاج ہیں۔ کسی نے کوئی دل کی بات کہہ دی ہم اس پر سب کچھ
لٹانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اس کے لئے اپنوں سے بھی بھڑ جاتے ہیں۔کس قدر
سادہ لوح ہیں۔ ہمیشہ دھوکہ کھاتے ہیں اور دھوکا دینے والوں کے گن گاتے
ہیں۔حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا۔ بس اک ذہنی تسکین ہے جو بے معنی ہے۔
سنا ہے کہ اس ملک میں بھی ایک آئین ہے ، ایک مقدس دستاویزجس کے تحت اس ملک
کو چلایا جا رہا ہے۔ملک کا ہر ادارہ جس کے تابع ہے۔ جس کی ہر شق پر عمل
کرنا اس ملک کے ہر ادارے اور ہر شہری کا فرض ہے۔ مگر وہ کیسا آئین ہے کیسی
مقدس دستاویز ہے کہ جس میں کوئی چیز بھی واضع نہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کے
لئے تو آئین کا ہر صفحہ ٹھوکروں سے بھرا ہوا ہے ، وہ سنبھل ہی نہیں پا رہے۔
جس کا جو جی چاہتا ہے ویسی تشریح آسانی سے کر لیتا ہے اور اسی تشریح کو حق
جانتا ہے۔ عام آمی کس کا اعتبار کرے ۔یا تو آئین میں خرابی ہے یا ہمارے سب
سیاستدانوں کی نیتوں میں فتور۔ شاید ہم ہر چیز کو اپنی ذات کے پس منظر میں
دیکھتے ہیں اور جب ذاتی دلچسپی کسی چیز میں شامل ہو جائے تو وہ چیز اپنی
شناخت کھو دیتی ہے۔میرا آئین بھی اسی دھینگا مشتی میں کہیں کھو گیا ہے۔کہتے
ہیں اس ملک میں قانون کا راج ہے ، کہنے کو ہم ایک اسلامی ملک کے شہری ہیں
جہاں قانون کی نظر میں سب کو برابر ہونا چائیے۔ مگر ہمارا قانون تو کچھ
بھینگا ہے اس کی دونوں آنکھیں ایک سا نہیں دیکھ سکتیں۔ یہاں کا قانون
امیروں کے لئے کچھ اور ہے غریبوں کے لئے کچھ اور۔ خالصتاً طبقاتی نظام
انصاف۔ ا میر اور با اثر آدمی کے لئے وہ موم کی طرح نرم و نازک ہے ۔امیر
اسے اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کر سکتا ہے، ڈھال سکتا ہے۔ بلکہ لگتا ہے
کہ یہ امیروں اور با اثر لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے۔ امیر کا جرم کیسا بھی
ہو یہ قانون اس کا احترام کرتا اور اس کے لئے گنجائش پیدا کر دیتا ہے ۔ چند
فیصد لوگ جس طرح اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں سب کو نظرآتا اور سبھی محسوس کرتے
ہیں مگر بے بس ہوتے ہیں ۔کسی ایسی صورت حال میں یہ بے بسی ان کے چہروں سے
عیاں ہوتی ہے ، وہ بے بسی جو آئندہ کے خوفناک حالات کی پیامبر ہوتی ہے۔
قانون وہی ہوتا ہے مگر قانون نافد کرنے والوں کا رویہ غریب کے لئے بڑا
مختلف ہوتا ہے۔ وہی با اثر لوگوں کے لئے موم جیسا قانون غریب کے لئے
انتہائی سخت ، بے لحاظ اورلوہے سے بڑھ کر سخت ہوتا ہے ۔ قصور ہو یا نہ ہو
غریب قابو آ جائے تو درگت بنے بغیر خلاصی نہیں ہوتی۔ہر تھانے میں غریب کے
حسن سلوک کے لئے اہلکاروں کے ہاتھ ہمیشہ نو نمبر کا چھتر ہوتا ہے ، زور اور
زبر دستی ہوتی ہے۔قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے میں نے غریب کو جس کے پاس
پہلے ہی کچھ نہیں ہوتا ، اپنا بہت کچھ حتیٰ کہ اخلاق ، کردار، شرم ،عزت اور
بہت کچھ بیچتے اور داؤ پر لگاتے دیکھا ہے۔یہ کیسا قانون کا راج ہے۔ سچ تو
یہ ہے کہ میرے جیسے عام آدمی کے لئے یا تو قانون نہیں ہے یا راج کا لفظ ایک
دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ مگر یہ بات یقینی ہے کہ کچھ نا مکمل ہے۔
با اثرلوگوں سے پتہ چلتاہے کہ اس سر زمین پر انصاف کی بڑی دھوم ہے مگر یہ
کہاں ملتا ہے اور کسے ملتا ہے۔شاید صرف با اثر لوگوں کو۔ میں نے وہ لوگ بھی
دیکھے ہیں جو بیس بیس سال سے اپنے حق کے لئے عدالتوں کے دھکے کھاتے پھر رہے
ہیں مگر انہیں مایوسی ، ذلت اور تاریخ کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ مگرکچھ لوگ
ایسے بھی ہیں کہ عدالت کی طرف انگلی اٹھائیں تو عدالتیں ان کے لئے بچھ بچھ
جاتی ہیں۔ چٹ درخواست پٹ فیصلہ۔ یہ کھل جا سم سم والا طریقہ کار عام آدمی
جس کا کیس کوئی سننے کو تیار نہیں ہوتا ،کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے۔یہ
اﷲدین عام آدمی کو گوارا نہیں جو انصاف کو ترستا رہتا ہے۔میرے ذاتی خیال
میں اس ملک کے ان بدترین حالات کی ذمہ دار ی گو بہت سے اداروں اور طبقوں پر
عائد ہوتی ہے ۔ مگر عدلیہ اگر صحیح ہو تو ہر جگہ بہتری آ سکتی ہے۔اس لئے
میں کھلے الفاظ میں کہتا ہوں کہ ملک کے ان دگر گوں حالت کی سب سے بڑی مجرم
ہماری عدلیہ ہے جو توہین عدالت نامی دیوار کے سائے میں نا انصافیوں کو جنم
دینے میں سب سے آگے ہے۔ انقلاب فرانس آیا تھا تو لوگوں نے سب سے پہلے وہاں
کی عدالتوں کو فارغ کیا تھا اور خود عدالتیں لگا کر گن گن کر بدلے لئے تھے۔
اس انقلاب کے دوران حالات میں ملوث ادارے یا ان سے وابستہ لوگ ہی نہیں کئی
سادہ دل بھی کام آئے تھے۔آج ہمارے حالات بھی کسی انقلاب فرانس جیسی تبدیلی
کے متقاضی ہیں۔ ہم لاکھ آنکھیں بند کریں اور سوچیں کہ ایسا نہیں ہو گا مگر
ان حالات میں ہونی ہو کر رہتی ہے۔ انصاف اگر کسی ملک سے رخصت ہو جائے تو
لوگ خود انصاف کرنے لگتے ہیں اور لگتا ہے اس ملک میں وہ وقت قریب ہے کہ
محکوموں کے پاؤں تلے جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی ،سب تاج اچھالے جائیں گے
،سب تخت گرائے جائیں گے۔
|