دردوکرب کے عالم میں عید کیسے منائیں؟

غریب ماں اپنے بچوں کو پیار سے یوں مناتی ہے*پھر بنا لیں گے نئے کپڑے یہ عید تو ہرسال آتی ہے
اسلام امن وسلامتی کامذہب ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ماننے والوں کے درمیان اتفاق واتحاد،میل ومحبت ہو،اسلام چاہتاہے کہ مسلمانون کامعاشرہ سدابہارہوجس کی آبیاری وہ ایک دوسرے کے لئے ایثاراورقربانی سے کریں کہ کوئی کسی پربرتری کامظاہرہ نہ کرے، کوئی کسی کوحقیرنہ جانے، کوئی کسی کے حسدوعناداوربغض وکینہ میں مبتلانہ ہو۔سب ایک دوسرے کے ہمدردہوں،ایک دوسرے کی عزت وآبرواورجان ومال کے محافظ ہوں ۔کیونکہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں چاہے وہ کسی رنگ کے ہوں یاان کاتعلق کسی نسل سےہو، وہ کسی بھی شہریاملک کے بسنے والے ہوں ان کی بولیاں کتنی ہی مختلف ہوں کہ وہ ایک دوسرے کی بات تک نہ سمجھ پاتے ہوں اس کے باوجودبھی وہ بھائی بھائی ہیں کہ وہ ایک ہی درخت کے پھل ہیں، ان کی جڑاوربنیادایک ہی ہے، وہ سب ایک ہی رسی پکڑے ہوئے ہیں۔اسی بھائی چارے کی اہمیت کواجاگرکرتے ہوئے میرے آقا ﷺنے فرمایا:’’مسلمانوں کودیکھوگے آپس میں مہربانی کرنے میں،محبت رکھنے اورشفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح ہیں،جب ایک عضوتکلیف میں ہوتاہے توباقی تمام اعضاء بیداری اوربخارمیں مبتلاہوجاتے ہیں‘‘۔اگرپیرکی چھنگلی کے ناخن میں بھی تکلیف ہوتوسرتک ساراجسم درداوربخارمیں مبتلاہوجاتاہےانسان تڑپنے لگتاہے،اس کی نینداس کاسکون بربادہوجاتاہے اسی طرح ایک مسلمان بھی کسی تکلیف میں مبتلاہوکسی کے ظلم وستم کاشکارہوتوپوری دنیاکے مسلمانوں میں ہیجان اوربے چینی پیداہونایقینی ہے کہ جس طرح جسم کے تمام اعضاء میں خونی تعلق ہے اسی طرح دنیاکے تمام مسلمانوں میں مذہبی تعلق ہے یہ مصیبت زدہ ومظلوم مسلمان کسی بھی جگہ کے ہوں ان کی امدادکے لئے دنیابھرکے مسلمان تڑپنے لگتےہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’مسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے نہ وہ خوداپنے بھائی پرظلم کرتاہے اورنہ ہی وہ اسے ظالم کے سپردکردیتاہے‘‘۔اورآپ کاارشادہے’’اللہ اپنے بندے کی اس وقت تک مددفرماتارہتاہے جب تک وہ بندہ اپنے بھائی کی مددکرتارہتاہے‘‘۔میرے آقاﷺ کایہ بھی فرمان ہے’’ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لئے دیوارکی مانندہے جس کی ہراینٹ دوسری اینٹ کاسہارادیتی ہے‘‘۔یعنی مسلمان جب تک متحدومنظم رہتے ہیں ایک دوسرے کواپنابھائی یقین کرتے ہیں وہ دشمن کے مقابلہ پرایک مضبوط دیوارکی طرح ڈٹے رہتے ہیں اوراگروہ خودایک دوسرے کے دشمن بن جاتے اورمنتشرومتفرق ہوجاتے ہیں تودشمن کوکچھ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی جووہ کرناچاہتاتھاخودہی مسلمانوں نے کرلیااب دشمن صرف تماشائی بن کردیکھتاہے اورخوش ہوتاہے اوران کوبندروں کی طرح اپنی انگلیوں پرنچاتارہتاہے ۔ (یاایھاالذین آمنوا،ج:۲)

اللہ عزوجل اوراس کے رسول ﷺ کے فرامین سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں،جس کاسیدھاسامطلب یہ نکلتاہے کہ اگرایک مسلمان کسی پریشانی میں مبتلاہوتودوسرااسے دیکھ کرمطمئن نہیں رہ سکتابلکہ اس کاایمانی جذبہ اسے بھی مضطرب کردیتاہےاوروہ اپنے بھائی کی پریشانی کودورکرنے کے لئے ہرممکن کوشش کرتاہے۔آج بھارتی مسلمانوں کے حالات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں کہ پچھلے چندسالوں سےمنظم سازشوں کے تحت مسلمانوں کے خلاف اس قدرنفرتی پروپیگنڈہ تیارکیاگیاکہ جس کانظارہ آج کی دنیاکررہی ہے۔کسی بھی ملک اورقوم کی اصل زینت اس کے نوجوان ہی ہوتے ہیں جب کے اس کے اندرانسانیت کادردرکھنے والادل اورامن ومحبت ،اخوت وبھائی چارہ کےلئے مضطرب ہونے والاجگرموجودہو۔لیکن عصرحاضرکے کم فہم ،ناعاقبت اندیش نوجوانوں کے اندراقلیتی طبقہ کے متعلق اس قدرنفرت کابیج بویاگیاہے کہ جس کی وجہ سے انہیں اپنی تعلیم اورروزگارکی کوئی بھی فکرنہیں رہتی بلکہ ہروقت امن وآشتی کے علمبرداروں کے خلاف برسرپیکارنظرآتے ہیں۔اورمسلمانوں کے گاؤں،محلے میں مساجدومدارس کے سامنے نفرتی نعروں کااستعمال کرتے ہیں ۔پولیس افسران کی موجودگی میں ہماری عبادت گاہوں پرپتھربازی کرتے اورغریبوں کے دکان ومکان کونقصان پہنچاتے ہیں۔حالیہ دنوں میں پورے بھارت میں جوکچھ ہوااورہورہاہے وہ کسی سے بھی چھپاہوانہیں ہے۔ہمارے ادارے، یونیورسیٹی، مساجد،مدارس،اورمکانات وتجارت گاہوں پربلاکسی اطلاعات کے بلڈوزرچلائے جارہے ہیں۔مسلمانوں کی معیشت کوبربادکیاجارہاہے۔ہمارے غریب ومحتاج بھائیوں کی چھونپڑیوں کوخاک کاملبہ بنادیاگیاہے۔بہت ساری بیوہ عورتیں اوریتیم بچے کھلے آسمان کے نیچے چودہ ،پندرہ گھنٹے روزہ رکھے ہوئے زندگی گزارنے پرمجبورہیں۔ان کے پاس نہ توآمدنی کے ذرائع ہیں اورنہ ہی کوئی پرسان حال ۔اس قدرشدت سے پڑنے والی دھوپ اورگرمی میں انکی خستہ حالت پرکسی کوترس بھی نہیں آتااورآئے بھی کیسے؟ جبکہ وحشی انسانوں کی انسانیت دم توڑچکی ہے۔اورحکومت وقت کے بدن پرجوں تک نہیں رینگتی ۔ایسے عالم میں جب کہ بھارت کے کئی صوبے میں ہمارے بھائیوں کی معیشت کوتباہ کردیاگیاہے ،ان کے پاس رہنے کومکان نہیں ،پہننے کے لئے لباس نہیں،کھانے کودانہ نہیں،غرض یہ کہ ان کی یہ حالت دیکھ کرآج انسانیت بھی شرمسارہے۔ توایسے حالات میں جب کہ ہمارے بھائی دردوکرب کے عالم میں ہیں ہم ہزاروں روپے شاپنگ میں خرچ کرتے ہوئے کیسے عیدمناسکتے ہیں؟ ارے ذرااپنے ضمیرسے پوچھیں کہ ہمارے بچے ،بیوہ عورتیں مضطرب ہیں اورہم ایک ماہ پہلے سے نئے لباس کی تیاریوں میں مصروف ہیں ،کیایہی ایمانی تقاضہ ہے؟عیدسعیدمیں نیا لباس ضروری نہیں بلکہ مستحب ہے، اس لئے اس بار نہایت سادگی کے ساتھ عیدمنائیں اوراپنے مظلوم بھائیوں کی امدادکے لئے انتظامات کریں۔اوراپنے دانشوروں کوساتھ لےکرایسے اقدامات کریں کہ مستقبل میں ظالموں کوظلم کرنے سے روکاجاسکے اورمظلوموں کوآئینی حقوق دلانے کے لئے مکمل کوششیں کی جائیں ۔ذرا سوچیں کہ اس وقت ہماری قوم دردوکرب سے مضطرب ہے توہم کیسے عیدمیں خوشیاں مناسکتے ہیں؟؟؟

 

Mufti Muhammad Shams Tabrez
About the Author: Mufti Muhammad Shams Tabrez Read More Articles by Mufti Muhammad Shams Tabrez: 14 Articles with 9018 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.