رمضانِ فلسطین: نمازِ عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں

ماہ رمضان میں مسلمانوں کی بڑی تعداد مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کے لیے حاضر ہوتی ہے نیز دنیا بھر سے بھی زائرین آتے ہیں اس لیے مسجد اقصٰی کے متولی اردن اور اسرائیل کے درمیان رمضان سے قبل ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے کے ضابطہ اخلاق میں یہ طے پایا تھا مسلمانوں کے عبادت کی جگہ پر یہودی داخل نہیں ہوں گے اور نمازیوں کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر جگہ وسیع کردی جائے گی۔ اس کے باوجود اسرائیلی پولیس نے نمازیوں کی بڑی تعداد کو روک کر ہر جمعے کے دن اس معاہدے کی خلاف ورزی کی لیکن جانباز فلسطینی باشندوں کا حوصلہ پست نہیں کرسکے۔ اپریل کے مہینے میں مغربی کنارے، مقبوضہ بیت المقدس اوراندرونی علاقوں میں قابض اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کارروائیاں بھی بڑے موثر انداز میں جاری رہیں ۔ اس دوران اسرائیلی جبر سے سینہ سپر 23 ؍ اہل ایمان نے جامِ شہادت نوش کیا مگر ظلم کے آگے نہیں جھکے نیز مزاحمت میں 4؍ اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے۔ اپریل 2022 میں فلسطینیوں کی طرف سے کل 1,510 مزاحمتی کارروائیاں کی گئیں۔

فلسطین کے اندر جھڑپوں میں شدت کی وجہ یہودیوں کا پاس اوور (فسح) اور مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کا ایک ساتھ اختتام پذیر ہونا ہے۔ قبلۂ اول مسجد اقصیٰ اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے لیکن یہودی ٹیمپل ماؤنٹ کو باعثِ تقدس سمجھتے ہیں ۔ گزشتہ سال رمضان میں اسرائیل اور غزہ کے درمیان 11 روز جنگ ہوئی تھی اورحماس کے راکٹ حملوں نے صہیونی حکومت کو جنگ بندی کی تجویز پیش کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس کے مقابلہ اس سال کا رمضان نسبتاً پر امن تھا۔ رمضان کے آغاز سے ہی صیہونی ملیشیا اور آباد کاروں کے مسلسل حملوں کی وجہ سے یروشلم اور مسجد اقصیٰ کے گردوپیش کی فضا پرسوز اور کشیدہ بنادی گئی تھی ۔ ۔ درجنوں فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا اور متعدد افراد زخمی بھی ہوئے ۔ اقوام متحدہ نے اسرائیلی پولیس کی فلسطینی مظاہرین سے جھڑپوں اور بیت المقدس میں پیش آنے والے تشدد کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ۔

اس سرکاری دہشت گردی کے باوجود رمضان المبارک کے تیسرے جمعے کو ڈیڑھ لاکھ فلسطینی نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے بیت المقدس پہنچے۔اس کے بعد لیلتہ القدر آئی تو اہل ایمان نے پھر ایک بار مسجد الاقصی سے اپنے والہانہ تعلق کا اظہار کرتے ہوئے ڈھائی لاکھ کی کثیر تعداد میں حاضری دی۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت تھا اسرائیلی سنگینیں نمازیوں کو اللہ کے گھر میں آنے روکنے میں ناکام ہوگئی ہیں ۔ اس موقع پر فلسطینی عبادت گزاروں اور آباد کاروں کے درمیان ممکنہ جھڑپ سے نمٹنے کے لیے ہزاروں اسرائیلی پولیس فورس یروشلم کے مختلف مقامات پر تعینات کی گئی تھیں ۔ اس دہشت کے ماحول میں بھی مسجد اقصیٰ میں شب ِ قدر کی عبادت کرنے والی فلسطینی دوشیزہ عبادہ سمیرا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ مسجد اقصیٰ کے اندر کا ماحول مکمل طور پر روحانی اور پرسکون تھا اور کوئی پریشانی نہیں تھی۔ مسجد الاقصیٰ کے تمام داخلی راستے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے،اس لیے ذمہ داران نے نمازیوں کے لیے مسجد کے صحن میں بھی اہتمام کیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ جماعت میں شریک ہو سکیں ۔

جمعتہ الوداع کے دن اسرائیلی فورسز نماز جمعہ کے دوران مسجد اقصیٰ میں داخل ہوگئیں‘ نمازیوں پر تشدد کیا جس میں 42؍ افراد زخمی ہوگئے۔ قابض فوج نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کے گولے فائر کیے اور شناخت کے بہانے سے متعدد افراد کو حراست میں لے لیا ۔ ان پابندیوں اور فجر کے وقت نمازیوں کو بموں اور گولیوں سے خوف زدہ کرنے کے باوجود تقریباً ایک لاکھ 60ہزار نمازیوں نے مسجد اقصیٰ میں ماہ رمضان کے آخری جمعے کی نماز ادا کی۔ یہ لوگ یروشلم اور دیگر علاقوں سے آئے تھے۔ نماز کے بعد فلسطینیوں نے اپنی آزادی کے حق میں اور اسرائیلی قبضے کے خلاف نعرے لگائے اور صحن میں فلسطینی پرچم لہرایا حالانکہ اس وقت شہر کے مختلف علاقوں میں بھاری ہتھیاروں سے لیس قابض افواج کے اہلکار تعینات تھے اوروہ آنے لوگوں کوتفتیش کے نام سے پریشان کر رہے تھے۔ بالآخرفلسطینی مزاحمت سے گھبرا کر اسرائیلی فوج مسجد اقصیٰ کے صحن سے نکل گئی ہے اور اس نے مسجد کے تمام دروازوں کو کھول دیا ہے۔ مسجدِ اقصیٰ میں عید کی نماز دولاکھ سے زیادہ فرزانِ توحید نے ادا کی ۔ اس موقع پر وہ اپنے شہداء کو نہیں بھولے بلکہ ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ بھی ادا کی گئی۔

فلسطین کےان جیالوں کو اپنے بہادر رہنما وں کے ایثار و قربانی سے حوصلہ ملتا ہے ۔ان میں سے ایک الشیخ حسن یوسف کی ذاتِ والا صفات ہے۔ وہ اپنے جاہ وجلال کے ساتھ جہاد آزادی فلسطین میں ہر قسم کے تشدد کا مقابلہ کرتے ہوئے سینہ سپر ہیں ۔ دشمن کے تمام مکروہ ہتھکنڈے اور جبروتشدد کے ظالمانہ حربے ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش پیدا نہیں کر سکے۔الشیخ حسن یوسف قانون ساز کونسل میں حماس کے نمائندےہیں۔ اس دلیررہنما کو قیدیوں اور مظلوموں کے حمایت اور مزاحمت کے سبب 20 بار اسرائیلی فوج نے گرفتار کیا اور ان کی زندگی کے 24 سال قید وبند میں گزرے ۔ سنہ 2005 سے لے کراب تک اس رکن قانون ساز کونسل نےایک مرتبہ بھی مسلسل 6 ماہ سے زیادہ جیل سے باہر نہیں گزارے ۔ انہیں بیشتر موقع پر بغیر مقدمہ چلائے انتظامی حراست میں رکھا گیا ۔الشیخ حسن یوسف کی پیدائش 14؍ اپریل 1955 کو رام اللہ کے گاؤں الجانیہ میں ہوئی ۔ ان کے والد شیخ یوسف داؤد گاؤں کی مسجد کے امام، مؤذن اور مبلغ تھے ۔شیخ یوسف کو سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1971 میں پہلی بار 16 سال کی عمر میں گرفتار کیا گیا اور پھر قیدوبند کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔
نوے کی دہائی کے اوائل میں "حماس" سے تعلق کے الزام میں انہیں اسلامی جہاد کے 417 رہنماؤں کے ساتھ ایک سال کے لیے جنوبی لبنان کے مرج الزہور میں جلاوطن کردیا گیا ۔ سنہ 2005 میں شیخ یوسف کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور انہیں 6 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ انہوں نے دورانِ حراست 2006 کے قانون ساز کونسل کے انتخابات میں "تبدیلی اور اصلاحات" کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا جیل میں رہتے ہوئے کونسل کے رکن منتخب ہوگئے۔سنہ 2011 میں ان کی رہائی کے فوراً بعد ان کے خلاف 6 ماہ کے لیے انتظامی حراست کا حکم جاری کیا گیا اور مجموعی طور پر ڈھائی سال انتظامی حراست میں گزارنے کے بعد ان کی رہائی عمل میں لائی گئی۔یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اکتوبر 2020 میں جب گرفتار کیا گیا تو یہ تعداد 20 ہوگئی۔جس قوم کی رہنمائی شیخ یوسف جیسے جانباز لوگ کررہے ہوں وہ بھلا کیسے مایوسی اور پژ مردگی کا شکار ہو سکتی ہے۔ان جیسے مجاہدین اسلام پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
نہ مسجد میں نہ بیت اللہ کی دیوار کے سائے ہیں
نمازِ عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں

فلسطین کا جب بھی ذکر آتا ہے تو وہاں جاری مزاحمت کی بات ہوتی ہے لیکن تہذیب و ثقافت کے میدان میں جو پیش رفت ہورہی ہے اس کا ذکر بہت کم ہوتا ہے۔ گذشتہ برس غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں شہر میں کا مشہور کتب خانہ بھی تباہ و برباد ہوگیا ۔ اس وقت کتاب کی دوکان میں ایک لاکھ سے زائد کتابیں خاک اور راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔ یہ بک سٹور 2000ء سے شہر کی تین بڑی جامعات کے طلباء اور اساتذہ کےساتھ ساتھ کتابوں کے شائقین کی توجہ کا مرکز تھا۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ غزہ کی پٹی کو 2007ء سے اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کا حامی ہونے کے سبب سخت محاصرے کی نذر کردیا گیا ہے ۔ ساری دنیا سے اس کا رابطہ اس طرح منطقع کردیا گیا ہے کہ لوگ اسے کھلی جیل بھی کہتے ہیں ۔اس محاصرے کے باوجود سمیر منصور نے اپنے کتب خانے میں ہر وہ کتاب بہم کرنے کی ذمہ داری نبھائی جو شہر کی دیگر لائبریریوں میں میسر نہیں تھیں۔ اس خاصیت نے اس کتب خانے کو ایک خصوصی امتیاز سے نواز رکھا تھا۔

بمباری کی تباہی کے بعد جب باز آبادکاری کا کام شروع ہوا تو اس کی جانب بھی توجہ دی گئی۔ اس مقصد کی خاطر کثیر تعداد میں عطیات جمع کیے گئے تاکہ اسے دوبارہ شروع کیا جا سکے۔کتب خانہ کے مالک منصور کے مطابق ’’ان عطیات میں ایک بڑا حصہ علم دوست برطانوی رضاکاروں کی طرف سے ملا۔اس میں رقم کےساتھ تقریباً ڈیڑھ لاکھ کتب بھی ہیں‘‘۔ایک ایسے دور میں جبکہ موبائل نے عوام و خواص کو کتابوں سے دور کردیا اہل غزہ کی یہ علم دوستی قابلِ تحسین ہے۔ مجموعی طور پرچالیس لاکھ کتب کا حامل یہ سٹور پہلے سے زیادہ تنوع اور گنجائش کےساتھ دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔ اس وقت یہاں بچوں اور بڑوں کے لیے معلومات، کہانیوں، ناولوں، پیشہ ورانہ علوم اور کئی دوسرے موضوعات پر عرب اور غیر عرب، مقامی اور بین الاقوامی مصنفین کی کتابیں موجود ہیں۔ یہ کتب خانہ اہلیانِ غزہ کی علم دوستی اور زندگی کی علامت ہے۔ اس کے دوبارہ کھل جانے پر اس کے مالک سمیر منصور اور ان کے بہی خواہوں کی بڑی تعداد فرط مسرت کےجذبات سے مغلوب ہیں ۔ اس طرح مختلف جہتوں سے یہ ماہِ مبارک اہل فلسطین کے خوشیوں اور مسرتوں کا پیغام لے کر آیا ہے اور ان شاء اللہ بہت جلد وہ صہیونی چنگل سے آزادی کی خوشی بھی منائیں گے ۔



غزہ کے منفرد بک سٹور سے استفادہ کرنے والی یارا عید کا کہنا ہے کہ ’’انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ جانا ہے اگر یہ سٹور دوبارہ شروع نہ ہوتا تو وہ مشکل میں پڑ جاتیں۔‘‘

خود سمیر منصور سمجھتے ہیں کہ ’’یہ جنگ انہیں خوفزدہ نہیں کر سکتی۔ اس تباہی میں انکی تعمیر مضمر ہے۔‘‘

غزہ کے منصور کا یہ کتب خانہ محض کتابوں کی دکان نہیں ہے۔ یہ غزہ میں امن کی امید پہ طویل محاصرہ کاٹنے والوں کے لیے کے لیے ایک کھڑکی ہے جہاں سے وہ اپنے حصار کے باہر بدلتی اور بھاگتی دوڑتی دنیا کو دیکھتے ہیں اور اپنے لیے ایسی ہی پر امن اور خوبصورت زندگی کے خواب کو زندہ رکھتے ہیں
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449997 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.