نور کی بھیگ مانگتے ہیں ہم اپنی اِک اِک کِرن بیچ کر

(سودی نظام معیشت کی تباہ کاریاں آشکار کرتی ایک تحریر)


راجہ محمد عتیق افسر
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات قرطبہ یونیورسٹی پشاور
03005930098, [email protected]

کچھ دیر کے لیے خود کو عہد جاہلیت میں محسوس کریں ۔ ابھی نبی کریم ﷺ نے نبوت کا اعلان نہیں کیا ہے ۔ سردارانِ قریش جمع ہیں اور کعبۃ اللہ کی تعمیر نو پر بات چیت ہورہی ہے ۔ طے یہ پاتا ہے کہ کعبہ کو منہدم کر کے اس کی از سر نو تعمیر کی جائے ۔ اس کی تعمیر کے لیے اجتماعی چندے پر اتفاق ہوتا ہے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ طے پاتا ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر میں صرف وہی مال لگایا جائے گا جو حلال طریقے سے کمایا گیا ہو ۔ حرام مال کو تعمیر ِ کعبہ کے لیے ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ جاہلیت کے دور میں حرام اور حلال کا کیا معیار ہوا ہوگا۔ حرام مال سے مراد تین قسم کا مال تھا۔ اول وہ جو چوری و ڈاکے کے ذریعے کمایا گیا ہو، دوم وہ مال جو زنا کے ذریعے کمایا گیا ہو اور سوم وہ مال جو سود کے ذریعے کمایا گیا ہو۔ حلال آمدنی پہ مشتمل جمع شدہ مال کم تھا اور اس سے کعبے کی پوری عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی تھی مجبوراً حطیم کے حصے کو چھوڑ کر کعبہ کی تعمیر کی گئی ۔ سود ایک ایسا جرم ہے جسے عہد جاہلیت میں بھی بُرا سمجھا جاتا تھا یہاں تک کہ سودی مال کو تعمیر کعبہ کے لیے قبول نہ کیا گیا ۔کعبے کے ایک حصے پہ تعمیر ترک کر دی گئی لیکن حرام مال قبول نہ کیا گیا ۔ یاد رہے یہ وہی کعبہ ہے جسے تعمیر کرتے ساتھ ہی تین سو ساٹھ بتوں سے بھر دیا گیا تھا ۔
جب نور نبوت عام ہوا اور اس کی کرنوں نے دنیا کے اندھیروں کو مٹا کر روشنی بکھیرنا شروع کر دی تب بھی سود کو لعنت قرار دے دیا گیا۔اسلامی تعلیمات سود اور اس کی ہر شکل کو حرام قرار دیتی ہیں ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَاَحَلَّ اللّٰہ ُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(سورہٴ البقرہ ۲۷۵) اللہ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۶) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ جب سود کی حرمت کاحکم نازل ہوا تو لوگوں کا دوسروں پر جو کچھ بھی سود کا بقایا تھا، اس کو بھی لینے سے منع فرمادیاگیا: وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مْوٴمِنِیْنَ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸) یعنی سود کا بقایا بھی چھوڑدو اگر تم ایمان والے ہو۔ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَاْكُلُوْا الرِّبَآ اَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (سورۃ آل عمران 130 )اے ایمان والو! سود دونے پر دونا (کئی گنا) نہ کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارا چھٹکارا ہو۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْنَ۔ فَاِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَاْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸ ۔ ۲۷۹) اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاوٴ! سود کھانے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ، مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے اور دینے والے، سودی حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔ سود لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کے الفاظ حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں موجود ہیں۔ (مسلم، ترمذی، ابوداود، نسائی)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سود کے ۷۰ سے زیادہ درجے ہیں اور ادنی درجہ ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے زناکرے(رواہ حاکم، البیہقی، طبرانی، مالک)۔
اب ماضی سے نکل کر حال میں آجائیں اور اپنی جیبوں کوٹٹول کر دیکھیں تو ہر کرنسی نوٹ پر ایک عبارت لکھی ہوئی پائیں گے ۔عبارت کے الفاظ (بینک دولت پاکستان ۔۔۔۔۔۔ روپیہ حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا) کے ساتھ گورنر سٹیٹ بنک کے دستخط بھی ثبت ہوتے ہیں ۔ اس عبارت کا مطلب ہے کہ آپ سٹیٹ بنک کو یہ نوٹ دے کر اتنی ہی مالیت کا سونا حاصل کر سکتے ہیں ۔لیکن کیا عملی طور پہ ایسا ہے ؟ کیا سٹیٹ بنک آپ کو اتنی مالیت کا زر عطا کرے گا ؟ ہرگز نہیں ۔ اور اگر ایسا ہونے بھی لگے تو پاکستان کی صرف 20 فیصد آبادی سونا حاصل کر پائے گی باقی 80 فیصد کے ہاتھ میں موجود نوٹ کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ حیثیت نہیں پائیں گے ۔ جسے ہم مال و زر سمجھ کر بیٹھے ہیں اور جسکے حصول کی خاطر ہم زندگی لٹا رہے ہیں وہ واقعتاً ایک فریب ہے۔یہ ہے سودی نظام معیشت جسکی عمارت جھوٹے اعداد و شمار کی بنیادوں پہ کھڑی ہے۔چند مٹھی بھر لوگ تمام تر وسائل پہ قابض ہیں اور سواد اعظم کا لہو چوس رہے ہیں ۔
محنت و سرمایہ دنیا میں صف آراء ہو گئے
دیکھئیے ہوتا ہے کس کس کی تمناؤں کا خون
انتہائی سادہ الفاظ میں سود یا ربا وہ اضافی طے شدہ رقم یا جنس ہے جو مقروض سے قرض واپس لیتے وقت اصل مال کے علاوہ وصول کی جاتی ہے البتہ اگرمقروض شخص بلا طے کیے اگر اپنی خوشی سے کوئی اضافی مال ساتھ دے دے تو یہ سود نہیں کہلائے گا۔سود کی اس تعریف کو معاشرے کا ہر فرد با آسانی سمجھ سکتا ہے اور یہ سود کی سب سے سادہ قسم ہے ۔ادبی زبان میں سود کی تعریف یہ ہوگی کہ جنس کے بدلے میں اسی جنس کی تجارت کی جائے تو جو منافع حاصل ہو گااسے سود کہا جائے گا۔بھٹہ خشت کے مزدور قرضہ لیتے ہیں اور اس پہ سود کی رقم ان کی نسلیں بھی ادا نہیں کر پاتیں اور وہ بھٹہ مالک کی غلامی کرتی ہیں ، اسی طرح مزارع جاگیردار کے غلام ہوتے ہیں ، تاجر آرھتیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔موجودہ دور میں سود نے ایسی پیچیدہ شکلیں اختیار کی ہیں کہ ایک عام آدمی تو کجا اچھے خاصے دیندار لوگ اور علماء بھی ان کے تعین میں مخمصے کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ عام آدمی کی نظر میں سود کا صرف یہی خاکہ ہے کہ قرض پہ لیا جانے والا منافع سود ہےحالانکہ سود کئی شکلوں میں ہمارے ہاں رائج ہے ۔ ۔ لیکن دراصل یہ اس سے بڑھ کر ایک نظام معیشت ہے ۔ زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے ہمارے ہاں باغات اور فصلوںکی خریدو فروخت پھل لگنے سے پہلے ہو جاتی ہے ۔ تجارت کی یہ قسم بھی سود کی پیچیدہ اقسام میں سے ایک ہے اس لیے یہ بھی حرام ہے۔اسی طرح بعض علاقوں میں جنگلات کی ملکیت رکھنے والے حضرات پرندوں اور جانوروں کی فروخت اس طرح کرتے ہیں کہ اس علاقے میں جتنے پرندے یا جانور ہیں وہ اس قیمت کے عوض آپ کے ہوئے ۔ یہ بھی سود کی ایک قسم ہے اور حرام ہے ۔بالکل اسی طرح بہتے دریا یا بڑے تالاب میں موجود مچھلیوں کی تجارت کرنا جبکہ ان کی تعداد یا وزن معلوم نہ ہو یہ بھی سودی تجارت ہے اور حرام ہے اس کے حرام ہونے کی وجہ غرر ہے یعنی دھوکا کیونکہ آپ کو مال تجارت کی مقدار کا علم نہیں ہے اور آپ اسے فروخت کر رہے ہیں اس طرح کی تجارت میں مشتری (Costumer)یا بائع(Vender) میں سے کوئی ایک فریق نقصان اٹھاتا ہے ۔جدید دور میں بینکنگ ،پرائز بانڈ کا کاروبار، کرنسی ایکسچینج ، بیمہ و انشورنس پالیسیاں ، قسطوں پہ اشیاء ضروریہ کی تجارت کے نام پہ سود کے نئے طریقے آزما کر لوگوںکو جال میں پھنسایا جا رہا ہے ۔بجلی ، گیس ، پانی ، ٹیلی فون وغیرہ کے بلات پہ ایک نظر دوڑائیے مقررہ تاریخ تک جمع نہ کرانے کی صورت میں جو اضافی بل آپکو دینا پڑتا ہے وہ سود ہی تو ہے ۔یہ محض حکومتی بلات تک محدود نہیں ہے سکول کی فیس ، زمین و جائیداد کی قسطوں میں تاخیر پہ بھی جرمانہ وصول کرنے کا رواج ہے یہ سب سودی نظام کا شاخسانہ ہے ۔ علاوہ ازیں ٹیلی فون اور موبائل کی کمپنیاں انتہائی چھوٹے پیمانے پر ایڈوانس کے نام پر بیلنس فراہم کرتی ہیں اور واپسی پہ سود وصول کرتی ہیں ان کا جمع شدہ سود کروڑوں اور اربوں میں ہوتا ہے ۔ اب تو صحت کارڈ کے نام پر آپ کی صحت کو بھی سود ی اداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔ ہر شخص کے نام پر سٹیٹ لائف میں بیمہ کرایا گیا ہے جس کی مد میں یہ کمپنی سودی منافع کمائے گی اور عوام اس خوش فہمی میں ہے کہ انہیں صحت کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں ۔
یہود کی دو ہزار سال کی طوائف الملوکی اور در در کی ٹھوکریں کھانے کے پیچھے اصل کہانی بھی ان کی سود خوری ہے ۔ یہ ایک ملک سے نکالے جاتے تو پناہ گزین بن کر دوسرے ملک میں چلے جاتے وہاں انہیں کوئی کام نہ کرنے دیا جاتا ۔ یہ لوگ اپنی دولت کو سودی قرضے کی صورت لگا دیتے اور نصف صدی گزرنے کے بعد اس ملک کے باشندوں کو احساس ہوتا کہ ان کی تمام تر معیشت پہ یہود قابض ہو چکے ہیں وہ خواب سے بیدار ہوتے تو یہود کا قتل عام کرتے اور انہیں کسی اور ملک میں پناہ لینا پڑتی اور پھر وہی کہانی دہرائی جاتی ۔ یو ں دو ہزار برس گزر گئے ۔بیسویں صدی کے آغاز پہ یہود منظم منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں آئے انہوں نے مغرب کی بڑی طاقتوں کو اپنے شیطانی جال میں پھنسایا دو عالمی جنگیں برپا ہوئیں اور مغرب کی معیشت پنچہ یہود میں آگئی ۔ اسی پنجہ استبداد کی بدولت انہوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سودی اداروں کی بنیاد رکھی اور نیکی کی آڑ میں تمام دنیا کی معیشت کو جکڑ لیا ۔آج سے سو سال قبل کوئی ملک دوسرے ملک پر فوج کشی کر کے اسے غلام بناتا تھا اس کے وسائل پہ قابض ہوتا تھا لیکن آج کل فوجی حملے کی ضرورت نہیں ۔ امداد پھر قرض دیا جا تا ہے پھر اس کے اوپر عائد سود کو بڑھایا جاتا ہے یوں مقروض قوم کے سارے وسائل پکے ہوئے پھل کی مانند قارض کی جھولی میں آ پڑتے ہیں ۔
پاکستان ایک آزاد و خودمختار ملک ہے لیکن ہماری اشرافیہ نے اپنے کرتوتوں کے سبب اسے معاشی طور پر غلام بنا دیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ سود پہ لیے جانے والے بیرونی قرضے ہیں ۔ ان قرضوں کی وجہ سے ملک کا ہر شہری قرض کے بھاری بوجھ تلے دبا ہوا ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔وطن عزیز کا آئین کہتا ہے کہ ملک میں کوئی قانون خلاف شریعت نہیں بن سکتا لیکن ملکی معیشت سود پہ استوار ہے ۔ اسی معاشی غلامی کو محسوس کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان ، تنظیم اسلامی اور چند دیگر اہل درد رکھنے والوں نے فیڈرل شریعت کورٹ میں سود کے نظام کے خلاف تین دہائیوں پہ محیط طویل جنگ لڑی ہے اور بالآخر وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے ۔ یہ خوش آئیند ہے اور اس کا تقاضہ یہ ہے کہ حکومت وقت بلا تاخیر سودی نظام سے خود کو آزاد کر لے ۔ لیکن ابن الوقت حکمرانوں کے کان پہ جوں تک نہیں رینگ رہی ۔ چند ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کچھ بینک وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو عدالت عظمی ٰ میں چیلنچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔یہ ایک کھلی جنگ ہے جو عدالت میں لڑی جائے گی ۔ اور عدالت عظمی ٰ اس جنگ کا اکھاڑا بن جائے گی۔اس کا مطلب یہی ہوگا کہ ایک طویل مدت کے لیے اس معاملے کو دوبارہ معلق کر دیا جائے اور سودی اداروں کو رقص ابلیس کا کھلا موقع فراہم کر دیا جائے ۔
یہ ایک نازک مرحلہ ہے اس موقع پر عوام کو بیدار ہونا پڑے گا ۔ اپنی گردن کے گرد لپٹا طوق غلامی اتار پھینکنا ہو گا ۔ سود کے اس نظام کا انکار کرنا ہو گا ۔ عوام پہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا وزن سود کے خلاف برسر پیکار قوتوں کے پلڑے میں ڈالیں ۔ سودی اداروں سے لین دین ترک کر دیں ۔ جو بینک بھی سپریم کورٹ میں جائے اس کا مقاطعہ کیا جائے اس میں موجود اپنے اکاؤنٹ ختم کر دیے جائیں ۔ علماء کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو سود کی حرمت اور اس کے مضمرات سے آگاہ کریں اور اسلام کی معاشی تعلیمات سے عوام کو آگاہ کریں ۔ مسلکی نزاع پہ مبنی فتاویٰ کے بجائے سود کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کریں سیاسی اور خاص کر دینی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی سطح پر سود سے چھٹکارے کے لیے تحریک برپا کریں ۔ سیاسی فضاء کو سود کے خاتمے کے لیے ہموار کریں ۔ معاشی غلامی سے نجات کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں ۔ اگر اس موقع پر سود کے خلاف صف بندی نہ کی گئی اور ایک مربوط حکمت عملی نہ ترتیب دی گئی تو ہم اپنی نسلوں کو غلامی کے پنجے سے کبھی آزاد نہیں کرا سکیں گے ۔ ہر شخص یہ سوچے کہ کبوتر کی طرح آنکھیں میچ کر ہم بلی کے شکنجے سے محفوظ نہیں رہ سکتے ۔ ہماری جیب میں موجود کرنسی نوٹ اور سود میں لتھڑا ہمارا انگ انگ ہماری تمام عبادتوں کی قبولیت کو سوالیہ نشان بنا رہا ہے ۔ہماری دعاؤں کی عدم قبولیت کا سبب بن رہا ہے اور ہمارے اخلاقی و سیاسی انحطاط کا باعث بن رہی ہے ۔یہ وقت ہے لوہا گرم ہے ہر شخص اپنے حصے کی ضرب لگائے تو حالات کا دھارا ہمارے حق میں ضرور مڑے گا ۔ اللہ تعالٰی سود کے خلاف برد آزما ہر شخص کو کامیاب فرمائے اور وطن عزیز کو سود کی لعنت اور معاشی غلامی سے آزاد فرمائے آمین۔

Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 83 Articles with 89953 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More