چین نے گزشتہ چند سالوں کے دوران مختلف پہلوؤں میں انسانی
حقوق کے احترام اور تحفظ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔انسانی حقوق کے
احترام اور تحفظ کو ریاستی گورننس کے ایجنڈے میں سرفہرست ترجیح حاصل ہے
جبکہ بقا اور ترقی کے حقوق کو بنیادی انسانی حقوق کے طور پر شمار کیا جاتا
ہے اور اس حوالے سے قومی ایکشن پلان مرتب اور نافذ کیا گیا ہے۔چین نے اپنی
ترقیاتی حکمت عملی میں انسانی صحت کے تحفظ کو ترجیح دیتے ہوئے دنیا کا سب
سے بڑا ہیلتھ کیئر سسٹم تشکیل دیا ہے۔اس کی حالیہ بہترین مثال کووڈ۔19 کی
ہے جس میں چینی قیادت نے وبا کا دلیرانہ سامنا کرتے ہوئے ملک بھر میں تمام
وسائل کو متحرک کیا اور طبی علاج معالجہ و دیکھ بھال کے لیے بے مثال کوششیں
کی گئی ہیں۔
اسی طرح جہاں بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی تمام انسانی حقوق کی بنیاد ہے
وہاں غربت انسانی حقوق کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔چین نے اس میدان
میں بھی عظیم کامیابیاں سمیٹتے ہوئے فروری 2021 میں ملک سے مطلق غربت کے
خاتمے کا اعلان کیا، اس دوران گزشتہ آٹھ سالوں میں تقریباً 100 ملین دیہی
افراد کو غربت سے نجات دلائی گئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ چین نے اقوام
متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے میں شامل تخفیف غربت کے ہدف کو طے
شدہ شیڈول سے 10 سال قبل ہی حاصل کر لیا، جو دنیا کے انسانی حقوق کے مقصد
کی ترقی میں ایک عظیم شراکت ہے۔
چین نے منظم جرائم سے نمٹنے اور لوگوں کے محفوظ طریقے سے زندگی گزارنے کے
حقوق کو یقینی بنانے کی خاطر تمام غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کی بھی
بھرپور کوششیں کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی عوام کے تحفظ کے احساس میں مسلسل
اضافہ ہوا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2020 میں 98.4
فیصد آبادی خود کو محفوظ تصور کرتی تھی جبکہ 2021 کی پہلی ششماہی میں یہ
تعداد بڑھ کر 98.56 فیصد ہو گئی۔ گیلپ کی گلوبل لاء اینڈ آرڈر رپورٹ میں
بھی چین 93 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا ہے۔
اسی طرح انسانی ترقی میں بھی چین نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ملک
کی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے معیار زندگی میں نمایاں بہتری آئی
ہے۔حالیہ برسوں میں سالانہ اوسطاً 13 ملین نئی شہری ملازمتیں پیدا کی گئی
ہیں۔ شہریوں کی فی کس ڈسپوزایبل آمدنی 35,000 یوآن (تقریباً 5,229 امریکی
ڈالر) سے تجاوز کر چکی ہے، جو 2012 کی سطح سے تقریباً 80 فیصد زیادہ ہے۔
شہری اور دیہی آمدنی کا فرق نمایاں طور پر کم کیا گیا ہے اور متوسط آمدنی
والے گروپ کی تعداد 400 ملین سے زائد ہو چکی ہے۔ ثقافتی میدان میں لوگوں کے
حقوق کو یقینی بناتے ہوئے شہروں اور دیہاتوں کا احاطہ کرنے والی عوامی
ثقافتی خدمات کے نظام میں بہتری لائی گئی ہے۔
چین میں لازمی تعلیم کی شرح گزشتہ سال تک 95.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ
تعلیم کی مزید مساوی رسائی کے ساتھ ملک میں عالمی سطح پر سب سے بڑا اعلیٰ
تعلیم کا نظام فعال ہے جس کے تحت اس وقت 44.3 ملین طلباء اسکول میں
زیرتعلیم ہیں۔ملک میں ہمہ گیر عوامی طرز جمہوریت مسلسل آگے بڑھ رہی ہے جس
نے شفافیت اور انصاف کو فروغ دینے کے لیے انسانی حقوق کے قانونی تحفظ کو
فروغ دیا ہے۔چین نے عوام کے بہترین مفاد میں ماحولیات کے تحفظ کی کوششوں کو
بھی انتہائی احسن طور پر آگے بڑھایا ہے اور لوگوں کے ماحولیاتی حقوق کی
ضمانت دی گئی ہے۔اس وقت چینی شہری شفاف نیلا آسمان، مزید صاف پانی اور
سرسبز پہاڑ دیکھ رہے ہیں۔گزشتہ برس ملک کے 218 شہر ہوا کے عالمی معیار پر
پورا اترے ہیں، جو 2020 کے مقابلے میں 12 زیادہ ہیں۔اسی طرح ملک بھر کا آبی
ماحولیاتی معیار بھی بہتر ہوا ہے اور آبی وسائل کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا
ہے۔خصوصی افراد کے لیے خدمات کی کوریج کی شرح اور معاون آلات کی موافقت کی
شرح دونوں 80 فیصد سے تجاوز کر چکی ہیں، اور خصوصی افراد کو مجموعی قومی
اقتصادی و سماجی ترقی کے عمل میں ضم کیا گیا ہے۔
چین نے خواتین اور بچوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جامع قانونی
نظام قائم کیا ہے، جس میں 100 سے زائد قوانین اور ضوابط شامل ہیں۔اس طبقے
کی ترقی کے لیے نہ صرف ایک خاص لائحہ عمل وضع کیا گیا ہے بلکہ موئثر عمل
درآمد سے ہراسانی، نابالغوں کے ساتھ بدسلوکی اور انسانی سمگلنگ جیسے جرائم
کی روک تھام کی گئی اور مجرمان کو سخت سزائیں دی گئی ہیں۔
ان تمام کامیابیوں کے باوجود چین یہ سمجھتا ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کی
کوئی انتہا نہیں ہے، کیونکہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔چین پرعزم
ہے کہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر عالمی انسانی حقوق کی موئثر
گورننس کے لیے چینی دانش اور طاقت کا حصہ ڈالا جائے تاکہ انسانی حقوق کو
یقینی بناتے ہوئے پائیدار ترقی کی جانب بڑھا جائے ۔
|