پشاور میں جرائم کی شرح بڑھ جانے کی وجہ پاکستان تحریک
انصاف کی صوبائی حکومت ہے۔ ایک کرپٹ سی سی پی او کو ہٹا کر دوسرا کرپٹ
اَفسر تعینات کر دیا گیا ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق پشاور میں آئے روز جرائم
کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ اَقلیتی برادریوں پر حملے، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں
اور منشیات کی اسمگلنگ، ٹارگٹ کلینگ، جواء بازی، فحاشی اور منشیات فروشی کے
اڈوں، کار چوریوں اور ڈکیتیوں میں مسلسل اِضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے ایک
ایم پی اے نے وزیراعلیٰ محمود خان کو سفارش کرواکر اُن کے کزن کو سی سی پی
اوپشاور تعینات کیا ہے جو جرائم کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔
ڈی آئی جی اعجاز خان وزیراعلی محمود اور اُن کے سیکرٹری امجد علی خان کے
قریبی ساتھی جانے جاتے ہیں۔ جن کی وجہ سے وہ پی ٹی آئی کی ہی حکومت میں
گریڈ اُنیس میں ملاکنڈ رینج میں ڈی آئی جی تعینات ہوئے تو اُس وقت کے آئی
جی پی ڈاکٹر محمد نعیم خان نے وزیراعلی خیبرپختونخواہ محمود خان سے گلہ کیا
کہ سینئر اُفسران کے ہوتے ہوئے اعجاز خان کی ملاکنڈ میں تعیناتی غیرقانونی
ہے جس پر وزیراعلی اور آئی جی پی میں ناراضگی ہوئی اور ڈاکٹر نعیم خان کا
تختہ الٹ دیا گیا۔ اعجاز خان کی وجہ سے ملاکنڈ سمیت اسپیشل برانچ پولیس کی
کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ اِسپیشل برانچ میں تعیناتی کے دوران
وہ ہر وقت وزیراعلی کو اپنا تبادلہ بطور سی سی پی او پشاور تعینات کروانے
کے لیئے مجبور کرتے رہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پشاور میں سی سی پی او تعیناتی
کے بعد اُنہوں نے پہلا حکم جاری کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کو آفس سپرینڈنٹ
تعینات کیا جس کی کرپشن کا کیس نیب میں زیر التواء ہے اور اُس کو تین بار
نوکری سے برطرف کرکے جیل بھیجا گیا تھا مگر ڈی آئی جی اعجاز خان نے ایسے
شخص کو اپنا آفس سپرینڈنٹ اس لیئے تعینات کیاکیونکہ اُس کے اُن کی ساتھ
سازباز ہو گئی تھی۔ اِسی طرح اعجاز خان نے کرپشن کے گر سیکھانے والے اپنے
پی اے نیاز علی کو بھی اپنے ساتھ تعینات رکھا تاکہ کرپشن کرنے میں آسانی
ہو۔ اعجاز خان نے اپنے آبائی ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو مختلف
تھانوں پر ایس ایچ اوز تعینات کیا جن کے ریکارڈ کرپشن سے بھرے پڑے ہیں۔ جب
اُن کرپٹ افراد کی تعیناتی کے متعلق سی سی پی او اعجاز سے پوچھا گیا تو ان
کا یہ مؤقف ہے کہ میں خود کرپٹ نہیں تو میرے ماتحت اُفسران بھی کرپٹ نہیں
ہو سکتے باقی ان کی تعیناتی کے احکامات سنٹرل پولیس آفس پشاور اور وزیراعلی
سیکرٹریٹ سے آتے ہیں یعنی کہ اب پشاور میں پٹواریوں کے بعد سرکل ڈی ایس پیز
اور ایس ایچ اوز کی تعیناتی بھی وزیراعلی سیکرٹریٹ کے حکم پر ہوتی ہے۔
پشاور کے چمکنی اور یونیورسٹی ٹاؤن سرکلوں میں ایسے کرپٹ پولیس اَفسران کو
ڈی ایس پیز تعینات کیا گیا جو نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور منشیات کی اِسمگلنگ
کروانے کے ماہر ماسٹر مائنڈسمجھے جاتے ہیں۔ وہ منشیات اور نان کسٹم پیڈ
گاڑیاں جو پولیس بھاری رقم لے کر چھوڑ دیتی ہے انہیں کسٹم، اے این ایف اور
اِیکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی فورس گرفتار کرلیتی ہے۔ یعنی وسائل کی کمی کے
باوجود اسمگلروں کو پکڑنے میں کسٹم، اے این ایف اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن
فورس کی کارکردگی پشاور پولیس سے سو درجے بہتر ہے۔ ڈی آئی جی اعجاز خان پر
ایف آئی اے میں بھی کرپشن کے الزامات لگتے رہے۔ پی ٹی آئی کا سیاسی بیک
گراؤنڈ، وزیراعلی محمود خان اوراُن کے سیکرٹری امجد علی خان سے قربت کی وجہ
سے وہ دس سالہ روٹیشن پالیسی سے بھی بچ گئے تھے۔ اب پشاور کے موجودہ حالات
یہ ہیں کہ اگر کوئی جرم ہو جائے تو ایف آئی آر درج کروانے کے لیئے عدالتوں
کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ مٹھی گرم کیئے بغیر کسی شہری کی درخواست پر
مقدمہ درج نہیں ہوتا۔ پشاور کے عوامی و سماجی حلقے، تاجر برادری اور
اَقلیتی برادری بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ سے ہر وقت احتجاج کرتی رہتی ہے۔
مگر صوبائی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ صوبائی حکومت سارے وسائل اور ذرائع
عمران خان کے جلسوں پر استعمال کر رہی ہے مگر ان کو عوام کے چین و سکون کی
کوئی پرواہ نہیں۔پتہ نہیں پشاور میں اَمن قائم کرنے اور پولیس کی کرپشن ختم
کرنے کون کا مسیحا آئے گا۔
|