فوڈ ٹریڈ تحفظ پسندی

فوڈ ٹریڈ تحفظ پسندی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے حال ہی میں ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں خوراک کی سلامتی کے موجودہ بحران کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔قرارداد میں بین الاقوامی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر مربوط اقدامات کے ذریعے بحران سے متاثرہ ممالک کی مدد کرے اور اس ضمن میں ہنگامی خوراک کی فراہمی، خوراک کے منصوبوں، مالی امداد، زرعی پیداوار میں اضافہ اور دیگر اقدامات پر توجہ دی جائے۔

وسیع تناظر میں یہ اقدام ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تحت ایک عالمگیر، قواعد پر مبنی، کھلے، غیر امتیازی اور مساوی کثیر الجہتی تجارتی نظام کو فروغ دینے کا مطالبہ کرتا ہے جس میں گروپ آف 07 اور گروپ آف 20 سمیت عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ عالمی غذائی تحفظ کو اپنے ایجنڈوں میں سرفہرست رکھیں اور فوڈ سیکیورٹی بحران کا پائیدار حل تلاش کرنے میں کثیر الجہتی کوششوں کی حمایت کریں۔

وبائی صورتحال کے باعث معاشی ابتری اور بعد ازاں یوکرین بحران کے بعد ویسے بھی اس چیز کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اور تحفظ خوراک کے اہم اسٹیک ہولڈرز خوراک اور زراعت کی سپلائی چینز کو فعال رکھیں تاکہ کسانوں، بشمول چھوٹے کاشتکاروں کو اپنی فصلوں کی بہتر پیداوار اور مویشیوں کی بہتر افزائش کے لیے ضروری مالیاتی و تکنیکی مدد فراہم کی جا سکے۔اس سے جہاں فوڈ سیکیورٹی میں مدد ملے گی وہاں اشیائے خوراک اور زرعی اجناس کی ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی بھی ممکن ہے۔ویسے بھی موجودہ صورتحال کا تقاضہ ہے کہ خوراک، ایندھن، کھاد اور دیگر زرعی وسائل اور پیداوار کی نقل و حرکت کے لیے تجارتی راستے اور منڈیوں کو کھلا رکھا جائے، اور ہر قسم کی تحفظ پسندی کو ختم کرنے کے لیے مل کر کام کیا جائے کیونکہ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جو اپنی گندم سمیت دیگر زرعی اجناس کی برآمد پر پابندی عائد کر رہے ہیں جس سے دنیا کو سنگین غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

فوڈ ٹریڈ تحفظ پسندی کے عروج نے فوڈ سیکیورٹی کی فوری ضرورت کو مزید اجاگر کیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق رواں سال اب تک تقریباً 23 اناج برآمد کرنے والے ممالک نے اناج کی برآمدات کو معطل یا روک دیا ہے۔یہ تحفظ پسندی نہ صرف عالمی اناج کی فراہمی کے ڈھانچے کو متاثر کرے گی بلکہ اناج کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے مارکیٹ اور صارفین کی بے چینی کو بھی بڑھاوا دے گی۔یہ امر تشویشناک ہے کہ اناج کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ویسے بھی اکثر ممالک میں خوراک کی قلت پیدا کر دی ہے اور ایسے خطے جیسے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک جو خوراک کے لیے درآمدات پر انحصار کرتے ہیں،وہاں اگر صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو لاکھوں افراد بھوک کا شکار ہو جائیں گے۔

تحفظ خوراک کے اسی بحران کے پیش نظر جنرل اسمبلی نے رکن ممالک، اقوام متحدہ، انسانی اور ترقیاتی تنظیموں اور دیگر متعلقہ فریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اور مؤثر طریقے سے عالمی خوراک کے حوالے سے بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کو دور کرئے کیونکہ اس سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگ شدید طور پر متاثر ہوں گے اور ایک سنگین انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔اس وقت دنیا کے کئی ممالک مسلح تنازعات، خشک سالی، بھوک اور قحط کا سامنا کر رہے ہیں جن کی ہنگامی امداد اور فوری فنڈنگ لازمی ہے۔

اسی طرح یہاں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کے لیے فوری، سستا اور بروقت حل تلاش کریں اور ایسے ممالک پر خصوصی توجہ دی جائے جو بہت زیادہ مقروض ہیں، انہیں رعایتی فنانس اور گرانٹس کی مدد سے سہارا فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن، ورلڈ فوڈ پروگرام اور انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ کو بھی عالمی خوراک کے نظام کو مزید لچکدار بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ ان تنظیموں کو فوڈ سیکیورٹی گورننس ماڈل کی تلاش کے لیے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر دونوں ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے اور جدید زرعی ٹیکنالوجیز کو مقبول بنانے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے عالمی کوششوں کو دیکھا جائے تو سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کی سالانہ کانفرنس 2022 میں فوڈ سیکیورٹی ایک اہم موضوع رہا ہے۔ماہرین سمجھتے ہیں کہ رواں سال گندم کا سکڑتا ہوا رقبہ پیداوار کو براہ راست کم کرے گا اور کیمیائی کھادوں اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے خوراک کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں دنیا کے لیے خوراک کے عالمی بحران سے محفوظ رہنا قدرے مشکل ہے۔صرف ہاتھ ملانے اور مل کر کام کرنے کی صورت میں ہی اس بحران سے نمٹا جا سکتا ہے۔

اس ضمن میں ایک بڑے زرعی ملک کے طور پر چین کی کوشش ہے کہ اناج کی کاشت کے علاقے مستحکم رہیں اور سالانہ پیداوار 650 ارب کلوگرام سے زائد رہے جو عالمی سطح پر تحفظ خوراک میں اہم ترین شراکت ہے۔علاوہ ازیں چین تنازعات سے دوچار ممالک کو اشیائے خوراک کی فراہمی بھی جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ مصائب سے دوچار عوام کو بھوک سے بچایا جا سکے۔

چین نے عالمی سطح پر خوراک کے ضیاع کو روکنے پر بھی ہمیشہ زور دیا ہے۔ چین کے صوبہ شان دونگ کے جی نان شہر میں گزشتہ برس خوراک کے ضیاع کو روکنے سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا ،جس کی بنیاد پر ملک بھر میں عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔یہ امر افسوسناک ہے کہ دنیا میں اناج کی پیداوار کا 14 فیصد فصل کی کٹائی سے لے کر خوردہ فروشی تک ضائع ہو جاتا ہے، اور مزید 17 فیصد خوردہ، کیٹرنگ اور استعمال میں ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ ضائع شدہ خوراک 1.26 بلین لوگوں کی سالانہ خوراک کے برابر ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین اقوام متحدہ سمیت تمام ممالک پر زور دے رہا ہے کہ جی نان انیشیٹو کی روشنی میں خوراک کے ضیاع کو روکنے کے اقدامات کی مزید تشہیر اور اس پر عمل درآمد کیا جائے۔یہ اقدام تمام ممالک سے خوراک کے ضیاع سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اہداف طے کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔علاوہ ازیں چین جدید ٹیکنالوجیز کے اشتراک سے ترقی پذیر ممالک کو جدید زرعی اصولوں سے بھی روشناس کروانے میں پیش پیش ہے جو فوڈ سیکیورٹی کا ایک انتہائی اہم عنصر ہے اور عالمی شراکت داری کا عمدہ مظہر ہے۔

 
Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 617321 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More