جوئے نغمہ خواں

اس بات کا ادراک تو سب کو ہے کہ وقت کے ایوانوں میں گونجتی آوا زیں اپنی اصل،اپنی روح اور اپنی افادیت کے لحاظ سے ایک ہی ہوتی ہیں لیکن انھیں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ان سب کی روح تو ایک ہوتی ہے لیکن وہ جس پیکرِ خاکی میں جلوہ نمائی کرتی ہیں وہ ضرور مختلف ہوتا ہے ۔یعنی کہ ان کے ظاہری خدو خال علیحدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے زمانے اور ادوار بھی علیحدہ ہوتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی حقیقی پہچان اس کے ظاہری خدوخال نہیں ہوا کرتے بلکہ ہ وہ اظہاریہ ہوتا ہے جس کا وہ داعی بنتا ہے۔انسانی روح کے اندر جب دھمال اور رقص ہلچل مچاتا ہے تو پھر انسان کسی انتہائی بلند مسند کا سزا وار بنتا ہے ۔ انسانی روح کی سرشاری ہی کسی بھی انسان کی اصلی پہچان ہو اکرتی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ روح کی آواز پر لبیک کہنے والے ہی انسانی کارواں کے سرخیل قرار پاتے ہیں۔دشوار گزار راہو ں سے گزرنا انتہائی کٹھن ہو تا ہے لیکن یہ سر فروش اس سے یوں گزر جاتے ہیں جیسے یہ انتہائی آسان راہ ہو۔(گزر جا بن کے سیل ِ تند رو کوہ و بیا باں سے۔،۔گلستاں ر اہ میں آئے توجوئے نغمہ خواں ہو جا)۔یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو کسی بھی اعلی شخصیت کا تعارف بنتی ہے۔کمال یہ ہے کہ ایک آواز کا پرستار اسی طرح کی دوسری آواز کا بھی پرستار ہو تا ہے اور وہ ان میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا۔اگر چہ ہرآواز کا وطن علیحدہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود علاقائی اور جغرافیا ئی حد بندیاں محبت کی شدت کو کم نہیں کر پاتیں۔ایتھنز کا فلسفی ہو یا بغداد کا صوفی ہو، دہلی کامجذوب ہو یا پھر لاڑکانہ کا شہزادہ ہو سب کی روح ایک ہی ساز پر متحرک ہوتی ہے ۔ ہر ایک کی پہچان الگ الگ ہوتی ہے،ہر ایک کا سحر مختلف ہوتاہے ، ہر ایک کا انداز مختلف ہوتا ہے، ہر ایک کا پیغام مختلف ہوتا ہے اور ہر ایک کی آواز مختلف ہوتی ہے لیکن ان سب کی آواز وں کے اندر جو روح محوِ رقص ہوتی ہے وہ لاحوتی ہوتی ہے ۔ (کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن۔،۔ خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے)یعنی کہ خوف سے بالا تر اور دنیاوی جا ہ و جلال سے بے پرواہ۔ کسی نے زہر کا پیالہ پیا تو کسی کو سرِ دارکھینچ دیا گیا،کسی نے سجدہِ ؑشق کا وضو اپنے لہو سے کیا تو کسی کی رباعیات نے شہنشاہِ وقت کی نیندیں حرام کر ڈالیں ،کوئی سرِ دار خود اپنے قدموں پر چل کر گیا تا کہ اہلِ جہاں کو یہ جلودہ دکھا سکے کہ سر فروش یوں بھی سرِ دار جھولتے اورپھانسی کے پھندوں کو جراتِ رندانہ سے چومتے ہیں۔کیسا ہو گا وہ منظر جب ایسا ہو رہا ہو گا؟ناقابلِ یقین مناظر جھنیں انسانی آنکھ صدیوں بعد دوبارہ دیکھنے کی سعادت حاصل کرتی ہے ۔زندگی جیسی عزیز ترین متاع انسانیت کی خاطر قربان کرنا اور وہ بھی الزامات اور ملامت کی بارش میں۔ایک ایسی میزانِ عدل کے سائے میں جو سرا سر ظلم و جبر کی علامت ہوتی ہے۔ظلم اپنا وار کر تاجاتا ہے ۔ملامت کا غازہ چہروں پر مل دیا جاتا ہے۔کسی کو مجرم بنا کر اس کی لاش کو خاموشی سے زیرِ زمین دبا دیا جاتا ہے اور اسے وطن دشمن اوردشمنِ دین کہہ کر اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔،کسی کی راکھ کو دجلہ میں بہا دیا جاتا ہے اور پھر اسے قابلِ نفرت انسان بنا کردم لیا جاتا ہے۔دنیا جہاں کی برائیاں اس کی ذا ت سے منسوب کی جاتی ہیں لیکن قدرت کا کمال دیکھئے کہ جسے مجرم اور غداری کا استعارہ بنایا گیاہوتا ہے خلقِ خدا اسی کے نام سے طاقت اور توانائی ھاسل کرنے لگ جاتی ہیں۔ خود تراشیدہ جھوٹ کی چوکھٹ پر سچ کا سورج صدیوں بعد حقیقت کا چہرہ دکھاتا ہے۔سارے داغ دھل جاتے ہں اور مجرم محسن کی مسند پر جلوہ افروز ہو جاتے ہیں ۔،۔

قرن ہا قرن کے سفر کے باوجود تاریخ کے ان محسنوں کی محبوبیت اور مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ وہ لوگ جو ہم عصر ہونے کی وجہ سے ان کے مخالف ہوا کرتے ہیں بے سرو پا دلائل کی وجہ سے ان کا نام و نشان مٹ چکا ہوتاہے۔شیریں کی محبت میں دودھ کی نہر بہانے والے کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟۔غالب نے اسی لئے کہا تھا (ہر اک مکاں کو مکیں سے ہے شرف اسد ؔ۔،۔ مجنوں جو مر گیا تو جنگل اداس ہے ) تاریخ کے پنوں سے اس صداقت کا کھوج ملتا ہے کہ کیسے ایتھنز کی سر زمین پر ایک فلسفی کا ظہور ہوا جس نے اپنی شعلہ نوائی سے شرافیہ کو للکار اور حق و صداقت، انصاف اور سچائی کا علم بلند کیا ۔ایسی سچی،بے دھڑک اور غیرلچک انگیز سوچ کا مقدر زہر کا پیالہ ہی ہو سکتا تھااور ایسا ہی ہوا۔لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ اس پیکرِ عزم و ہمت نے اس زہر کو انتہائی جرات، متانت اور عزم و حوصلہ سے پیا اور سکون سے ابدی نیند سو گیا۔اسے جلا وطنی پر قائل کرنے کی بڑی کوششیں ہوئیں لیکن اس نے کسی کی نہ سنی ۔اس کا استدلال تھا کہ جس سچائی کا درس وہ ساری حیاتی دیتا رہا وہ اس سے نظریں بچا کر جلا وطن نہیں ہو سکتا ۔سچائی کے ناطق کیلئے ضروری ہوتا ہے وہ سچائی کا چراغ اپنے لہو سے روشن کرے تا کہ اس کی فکری سچائی ساری دنیا پر روشن ہو جائے۔ اگر ہم اس بات کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں یہ جان کر حیرانگی ہو گی کہ ایسی نابغہ روزگار شخصیات طویل وقفے کے بعد ظہو پذیر ہوتی ہیں ۔سقراط چار سو سال قبل مسیح ،منصور حلا ج آٹھویں صدی عیسوی،سرمد شہید سولہویں صدی عیسوی اور ذولفقار علی بھٹو نے ۴ اپریل ۱۹۷۹؁ کو تختہ دار کو فخرو ناز سے متصف کیا ۔ایک طویل وقفہ ضروری ہو تا ہے تا کہ نذرانہ دینے والے انسان کی عظمت کی چھاپ اہلِ جہاں پر مکمل طور پر آشکار ہو جائے۔اگر میں یہ کہوں کہ (اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا) تو شائد ا زیادہ صحیح ہو گا ۔ابھی تو ہم نے کل پھانسی گھاٹ سے ذولفقار علی بھٹو کی لاش کو اتارا تھا لہذا ضروری ہے کہ اہلِ جہاں کو اس کی شان و شوکت ،جرات اور للکار سے روشناس کروانے کیلئے طویل وقفہ کا سہارا لیا جائے۔تاریخ کے پنے کسی کا انتظار نہیں کرتے اور نہ ہی وہ غیر حقیقی فکر کے سامنے سجدہ ریز ہو تے ہیں ۔سچ کا سورج پوری آب وتاب سے نکلتا ہے تو پھر ہر سو نور کاہا الہ پھیل جاتا ہے۔انسانیت عشاق کی ذات کو فخرو نازکے ایسے دلکش رنگوں سے سجاتی ہے کہ دنیا کی ہر دلکشی ان کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے۔عشق کے پھول کھلتے ہیں تو پھر ان کی جاودانی مسلم ہو جاتی ہے۔بقولِ اقبال۔ (عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولین عشق۔،۔ عشق نہ ہو تو شرع و دین بت کدہ ِ تصورات)۔ہر دور کے اندر مقامی سطح پر حریت و جانبازی کی جاندار آوازیں ضرور اٹھتی ہیں لیکن وہ عا لمگیر صورت اختیارنہیں کر پاتیں شائد ان کی نگاہ میں سچائی مکمل طور پر واضح نہیں ہو پاتی اور وہ زندگی اور موت کے درمیان لٹک کر رہ جاتے ہیں۔جن کی نگاہ میں سچ مکمل طور پر آشکار نہیں ہوتا وہ اپنی اہمیت منوانے میں تو کامیاب و کامران ہو جاتے ہیں لیکن ان کی آواز ایک خاص مقام اور حد سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ ان کے اندر انسانی عظمت کا دیپ تو جلتا ہے لیکن اس کی لو اتنی تیز نہیں ہوتی کہ وہ زمان ومکان کی حد بندیوں کو توڑ کر ہر شہ کو روشن کر سکے۔غالب نے کہا تھا (ظلمت کدہ میں میرے شبِ غم کا جوش ہے ۔،۔ اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خاموش ہے) فیض احمد فیض کا عاشقوں کی مدح سرائی میں یہ کہنا کہ (یہ بازی عشق کی بازی ہے یہ بازی تم ہی ہارو گے) اس بات کا علان تھا کہ جان کی بازی لگانے والوں سے کوئی جیت نہیں سکتا۔لہو سے لکھے گے الفاظ کو کوئی مٹا نہیں سکتا کیونکہ ان کی خو شبو سے جہاںِ رنگ و بوکو جو رعنائی عطا ہوتی ہے دنیا کی کوئی طاقت انسانیت کو اس سے محروم نہیں کرکھ سکتی ۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 448803 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.