خدا سے معاہدہ

لاہور شہر کے مشہور معروف مہنگے ترین پرآسائش ہو ٹل کے شاندار شادی ہال میں جب میں داخل ہوا تو برقی قمقموں کی وجہ سے رنگ و نوراور روشنیوں کا سیلاب آیا ہوا تھا‘ہال آدھا بھر چکا تھا رنگین زرق برق آنچل لہرا رہے تھے بچے ادھر سے اُدھر دوڑیں لگاتے نظر آئے مختلف مو بائلوں کے فلیش چمک رہے تھے مووی بنانے والے مختلف جوڑوں کو کھڑا کر کے تصویریں بنا رہے تھے خواتین مختلف بیوٹی پارلروں پر وقت گزار کر اب تحسین طلب نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں مرد حضرات اپنے موبائلوں پر غرق یا پھر اپنے من پسند دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے میں خو ش تھا کہ اِس فنکشن میں میرے جاننے والے نہیں تھے کہ جاننے والوں کے سوالات کی بارش سے آج محفوظ رہوں گا اِس لیے آرام سے کسی آرام دہ صوفے پر بیٹھ کر کولڈ ڈرنک سے لطف اٹھاتے ہوئے مہمانوں کا جائزہ لوں گا اپنی خلوت سے انجمن کا لطف لوں گا اِس لیے میں آرام سے بیٹھ سکوں لیکن ابھی میں نشست پر نہیں پہنچا تھا کہ کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور پر جوش آواز میں بولا پروفیسر صاحب آپ بھی یہاں پر آئے ہیں گریٹ میں آپ کے پاس ہی آنا چاہ رہا تھا اچھا ہوا آپ سے یہاں اچانک ملاقات ہو گئی میری خوشی غارت ہو چکی تھی میں خوشدلی سے اُس کے ساتھ چل کر صوفے پر بیٹھ گیا اچھا شریف انسان تھا دوسال پہلے تک میرے پاس ریگولر آتا تھا پھر اسلام آباد ٹرانسفر ہو گئی تو ملاقاتوں کا سلسلہ بند ہو گیا اِس شادی میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر لاہور آیا تھا بیٹھتے ہی اپنے مسائل اور سوالات شروع ہو گئے تو میں نے ٹالنے کے لیے کہا آپ صبح دفتر تشریف لائیں آپ سے تفصیلاً ملاقات ہو گی تو وہ کچھ نرم ہو گئے پھر بھی چند سوالات کئے پھر جب میرا میزبان قریب سے گزرا تو اُس کو پکڑ لائے کہ پروفیسر صاحب یہاں بیٹھے ہیں تم نے بھی بتایا نہیں کہ تم بھی پروفیسر صاحب کے پاس جاتے ہو تو وہ آکر گرم جوشی سے مُجھ سے بغل گیر ہو گیا پھر تعارف کر اتے ہوئے بولا آج میں جس مقام پر ہوں اِس میں اﷲ کے کرم کے بعد پروفیسر صاحب کی راہنمائی اور دعائیں شامل ہیں پھر وہ دیر تک میری مدح سرائی میں لگا رہا پھر میں نے مداخلت کی اور بات کو ٹال دیا میزبان میرا بہت شکریہ ادا کر رہا تھا کہ میں بیٹی کی شادی پر آیا ہوں ساتھ ہی تشکر آمیز لیجے میں بولا پروفیسر صاحب دس سال پہلے جو معاہدہ آپ نے اﷲ سے کرایا تھا میں پہلے دن سے آج تک مکمل طور پر اُس معاہدے پر کاربند ہوں میری زندگی میں ایک لمحہ میں ایسا نہیں آیا جب میں اُس معاہدے کو بھولا ہوں ‘دس سال پہلے کا وہ دن اور آج کا دن میں نے کبھی پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا اﷲ تعالی نے اُس معاہدے میں اتنی زیادہ برکت ڈالی ہے کہ میں ترقی خوشحالی کے زینے اوپر سے اوپر ،چڑھتا ہوا بہت کامیاب زندگی گزار رہا ہوں اِس کامیابی خوشحالی میں اُس معاہدے کا بنیادی کردار ہے جو آپ نے میرا اﷲ تعالی سے کرایا تھا اُس وقت میں غربت کی چکی میں پس ؂رہا تھا آپ کی راہنمائی سے اندھیروں سے کامیابی کے اجالوں میں کامیاب زندگی گزار رہا ہوں پھر اُس نے گرم جوشی سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور دلگیر لہجے میں بولا میری ہر سانس اﷲ تعالی اور آپ کا شکریہ ادا کر تی ہے میری دس سال پہلے اور آج کی زندگی میں زمین آسمان کا فر ق آگیا ہے دس سال پہلے میں جانوروں سی زندگی گزار رہا تھا خدا رسول ﷺ سے دور اپنی ہی دھن میں مگن لیکن اُس معاہدے نے مجھے اندر باہر سے مکمل بد ل کر رکھ دیا ہے وہ مسلسل شکر گزاری کا اظہار کر رہا تھا اُس معاہدے کا ذکر کر رہا تھا جو اُس نے دس سال پہلے خدائے بزرگ و برتر سے کیا تھا تو مجھے بھی دس سال پہلے کا واقعہ یا دآگیا یہ میرا دوست زندگی کی گاڑی مشکل سے گھسیٹ رہا تھا مختلف دفتروں میں کام کر کے بچوں کا پیٹ پال رہا تھا والدین وفات پا چکے تھے اِس بھری دنیا میں یہ اور اِس کی دو بہنیں پہلے بہن کی شادی پھر اپنی شادی کر نا چاہتا تھا کرائے کا مکان اور والدین کا نہ ہو نا جہاں بھی رشتے کی بات چلتی لوگوں کو جب پتہ چلتا یہ کرائے کے مکان پر اور لڑکی یتیم ہے تو دوبارہ مُڑ کر کبھی نہ آئے اِس مشکل میں یہ میرے پاس آیا چندہی ملاقاتوں کے بعد میری محبت شفقت کے دائرے کا قیدی بن کر رہ گیا میں حوصلہ دیتا ساتھ میں ذکر اذکار بھی بڑی بہن جس کی شادی اور بچے تھے وہ اپنے خاوند کے ساتھ کامیاب زندگی گزار رہی تھی اب بڑی بہن ہی دونوں کی ماں تھی جس کی یہ بہت زیادہ عزت کرتا تھا دعاؤں نے اثر دکھایا جلد ہی بہن کا رشتہ آیا اور پھر شادی بھی ہو گئی اُس کے چند مہینے بعد ہی اِس نے اپنی شادی بھی کر لی اِس کے دونوں کام ہو گئے تھے اب یہ آنا کم ہو گیا میں بھی اپنی زندگی میں مصروف ہو گیا لیکن پھر ایک دن روتا بلکتا دھاڑیں مارتا ہوا میرے پاس آگیا میں نے پوچھا کیا ہوا تو ہچکیوں کے درمیان بو لا سر بڑی بہن کا میاں حادثے میں انتقال کر گیا آپ تو جانتے ہیں اِس دنیا میں ہم تین بھائی بہن ہیں اُس بہن نے ہم دونوں کو ماں بن کر پالا ہے ہماری زندگی کا گلشن اجڑ گیا ہم بر باد ہو گئے میں اپنے خاندان کو بڑی مشکل سے پال رہا ہوں بیوہ بہن اور اُس کے بچوں کا سہارا کیسے بنوں گا بیچارہ بہت پریشان روزانہ میرے پاس آتا اپنی بے بسی کا اظہار کر تا اچانک میرے دل میں ایک خیال آیا تو میں نے اِس سے کہا ایک طریقہ ہے جو تم آسانی سے اپنی بہن کے بچوں کو بھی پال سکتے ہو وہ طریقہ یہ ہے کہ آج سے تم خدا کے ساتھ معاہدہ اور عہد کر و کہ میں جو اپنے بچوں کو کھلاؤں گا وہی اپنی بیوہ بہن کے یتیم بچوں کو بھی دوں گا اﷲ تعالی کا فرمان ہے کہ جو بھی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھے گا وہ بہت ثواب پائے گا کیونکہ اﷲ تعالی نے سب کو پالنا ہے اسطرح اﷲ تعالی کی ذات بہن کی فیملی کا رزق بھی تم کو ضرور دے گا میری بات سن کر اِس کی آنکھوں میں چمک آئی ساتھ ہی میں نے اپنے دوست جو پراپرٹی کا کام کرتا تھا اُس کے دفتر بھیج دیا خدا سے معاہدے نے رنگ لانا شروع کر دیا ایک سال کے اندر یہ اچھا کمانا شروع ہو گیا پانچ سال میں اپنی دوکان اگلے تین سال میں اپنا گھر اور دو دوکانیں اور لے لی خدا کے معاہدے میں برکت آتی گئی پھر ایک ماہ پہلے میرے پاس آیا کہ اﷲ تعالی نے گھر اور دوکانیں دے دی ہیں میں نے آج تک جو اپنے بچوں لے لیے سوچھا وہی بہن کے بچوں کے لیے اُس بہن کی بڑی بیٹی کی شادی دھوم دھام سے کر رہا ہوں آپ نے آنا ہے آج اُس بیٹی کی شادی میں ہی شریک تھا سٹیج پر بہن اور اُس کی بیٹی دلہن کے روپ میں بیٹھی تھی اور میں سوچ رہا تھا جو شخص یتیم کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے خدا اُس کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا ہے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735819 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.