یہ معلوم شدہ بات ہے کہ تمام امت
اسلامیہ کے اوپر رمضان المبارک کامبارک و متبرک فریضہ روزہ فرض ہے۔قصدااس
کا ضائع کرنے والاآثم وگنہگار ہے۔عنداللہ مغضوب ومقہور ہے۔اللہ کی شدت
کودعوت دینے والاہے۔اور بقول نبی محترم صلیٰ اللہ علیہ وسلم بحسن وخوبی اس
فریضہ کو اداکرنے والوں کےلئے اللہ کے یہاںخاص اجرہے ۔چونکہ روزہ اللہ
کےلئے ہے۔
اب جبکہ اس کی فرضیت مسلم ہے اس کی قددرومنزلت کابھی اعتراف ہے ،روزہ کی
حکمتوں اس کے فوائد ،سنن وآداب کو اجمالا ذکر کیا جارہاہے ۔
حکمتیں :
(۱)روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کے ذریعہ بندہ اپنے رب کا تقرب حاصل کرتاہے ۔کھانے
،پینے اور نکاح جیسی محبوب ومرغوب شئی کو اللہ رب العالمین کی محبت پر
قربان کر دیتاہے ،تاکہ وہ رب کی خوشنودی اور آخرت کی فوزوفلاح سے ہمکنار
ہوسکے ۔اس ایثا ر وقربانی اور کسر نفی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بندہ
اپنی ذات کے اوپر رب کی ارادت وچاہت کو اور دنیا پر اخروی زندگی کو ترجیح
دیتاہے ۔(فصول فی الصیام والتراویح والزکاة ،لابن عثیمین)
(۲)روزہ ضبط نفس اور اس پہ قدرت پا نے کا اہم وسیلہ ہے ،بلکہ یہ کہاجائے تو
بےجا نہ ہوگا کہ شہوت نفسانی کو دائرے میں رکھنے کی بہترین مشاقی ہے،جس کے
ذریعہ ایک مومن جلد اور دیر آنے والی دونوں قسم کی خیر وسعادت اور صلاح
وفلاح سے مالا مال ہوجاتاہے ۔یہاں تک کہ وہ طاعت وفرمانبرداری کے فعل
کوانجام دے کر اور شہوات کو ترک کرکے اپنے نفس پہ قابو پانے والااور اس کی
اصلاح کرنے والا بن جاتاہے۔(تذکرةالصوام للقصیر)
(۳)روزہ کی حکمتوںمیں سے اہم تقویٰ اور پر ہیزگاری ہے ،جبکہ روزہ دار روزہ
کو اس کے واجبات کے ساتھ اداکرے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے ﴾اے ایمان والوںتم پر
روزے اسی طرح فرض کئے گئے جس طرح تم سے پچھلی امتوںپر فرض کئے گئے تاکہ تم
پر ہیزگار بن جاﺅ﴿(بقرة : ۳۸۱)ایسی صورت میں بندہ اپنے تقویٰ اور پرہیزگاری
سے اللہ کے حکم کا پابند ہوجاتاہے۔اوریہی اس کے حکم کی غایت درجہ بجاآوری
اور منہیات سے اجتناب ہے۔اور روزے کامقصد حقیقی بھی یہی ہے ۔اور اس کا مقصو
د ہرگزیہ نہیں کہ انسان خوردونوش اور بیوی سے میل ملاپ کو ترک کرکے اپنے
نفس کو عذاب دے۔محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ﴾جس نے جھوٹ بولنااس
پہ عمل کر نااور نادانی کو نہ چھوڑنا،تو اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں کہ
اس کےلئے کھاناپیناچھوڑاجائے﴿ (رواہ البخاری)
(۴)روزہ بندے اور رب کے درمیان ایک راز ہے ،جسے اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا
نہیںجانتا ،چو نکہ اس کا تعلق باطنی نیت سے ہے ،جس پہ اللہ کے علاوہ کوئی
اور باخبر نہیں ہو سکتا۔
(۵)روزے کی یہ حکمت ہی ہے کہ مالدار جودوسخا کے ذریعہ اللہ کی نعمت کا قدر
داں ہوتاہے۔اللہ نے ماکولات ومشروبات میںسے بندے کےلئے جوکچھ مباح قرار دیا
ہے اور اس کے حصول پر قدرت دی ہے،وہ ان نعمتوں پر اپنے رب کا شکر گزار اور
ممنون ہوتاہے،اور اپنے ان بھائیوں کی خبر گیری کرتاہے جن کےلئے روزی روٹی
کا حصول آسان نہیں،وہ تنگدست ہیں ،فقروفاقہ کی زندگی بسر کررہے ہیں۔
یہ بھی ایک بڑی حکمت ہے کہ روزہ رکھنے سے خوردو نوش میں کمی ہوتی ہے ،جس کا
بڑا فائدہ طبی طور پر میدے کو پہنچتاہے۔اور بہت سارے فضلات اور جسم کو
نقصان پہنچانے والی رطوبتیں ازخود خارج ہوجاتی ہیں۔(فصول فی الصیام
والتراویح،لابن عثیمین)
فوائد:
(۱)روزے کا سب سے بڑافائدہ رب کی خوشنودی کے ساتھ یہ ہوتاہے کہ انسان
صبروتحمل اور نفس کشی کاعادی ہوجاتاہے ،اختیاراور طاقت رکھنے کے باوجود
محبوب ومرغوب شئی کوہاتھ تک نہیں لگاتااور نہ ہی ازدواجی تعلقات قائم کرنے
کاآرزومند ہوتاہے ۔یہی وہ اہم بات ہے جو ایک عاصی اور گنہگار شخص کو اس بات
کےلئے مجبور کرتاہے کہ گناہوں اور معاصیوں کے ارتکاب سے بازرہے۔اس کے پاس
پھٹکناتوبہت دور اس کا خیا ل بھی دل میں نہ لائے ۔نفس پر قدرت پانے کی اس
سے بڑی مشاقی اور کچھ نہیں ہوسکتی ۔
(۲)روزہ دل ودماغ کو کائنات میں غوروفکر کرنے اور اللہ کے ذکر کیلئے
ابھارتاہے ۔چونکہ یہ بات متحقق ہے کہ خواہشات کاحصول دل کو سخت اور اندھا
کردیتاہے ،بندے اور رب کی یاد کے درمیان حائل ہوجاتاہے ،پھر غفلت پر
ابھارتاہے۔اورپیٹ کاخالی رہنا قلب کو جلابخشتاہے ۔دل میں رقت پیداہوتی ہے
۔قساوت قلبی دور ہوتی ہے۔اس طور پر دل اللہ کی یاد اور اس کی فکر کیلئے
خالی ہوجاتاہے۔
(۳)خیروبھلائی اور طاعت کے کاموں کےلئے روزہ صائم کو آسانیاں فراہم کرتاہے
۔عام ایام اور اوقات میں ایک مومن نیکی اور خیر خواہی میںسبقت
نہیںکرتا،بلکہ سستی اور کاہلی کا شکار ہوجاتاہے۔بعض اوقات الجھن اور بوجھ
بھی محسوس کرتاہے ۔لیکن جب ماہ رمضان آتاہے ،نیکیوں کی باد بہاراںچلنے لگتی
ہے ۔ہر فرد اپنے دامن میںزیادہ سے زیادہ بھلائیوں کو سمیٹنے لگتاہے ۔آپس
میں تنافس سے کام لیتانظر آتاہے ۔اور یہی چاہتاہے کہ ساری
بھلائیاں،اچھائیاںاور خیر کی باتیںاسی کے حصے آجائے۔
(۴)روزے کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بندہ چاہے جتنابھی سخت گو
اور بد زبان فطرت کا ہو ،لیکن اس کے قلب وجگر میں اللہ کی یاد کی وجہ کر
نرمی آجاتی ہے ،لوگوں کے ساتھ سلوک اور برتاﺅ کچھ حد تک ہی سہی مگر
اچھاہوجاتاہے۔
(۵)غنی اور مالدار شخص اللہ کی نعمتوں کا قدر دان ہوتاہے۔جبکہ کھانے پینے
اور نکاح جیسی نعمتوں سے بہت سارے فقراءومساکین محروم ہوتے ہےں ۔چنانچہ
مخصوص وقت میں ان خواہشات سے رک جانے وراس سے ملنے والی مشقتوں سے بندہ ان
لوگوں سے نصیحت پکڑتاہے ،جو مطلقا ان نعمتوں سے محروم ہیں۔اب اس کے لئے وجب
ہوجاتاہےکہ اللہ کی نعمت مالداری کاشکریہ اداکرے،اور جہاں تک ہوسکے اپنے
محتاج بھائی کی خبر گیری اور اس کے ساتھ مواسات قائم کرے۔
(۶)بسااوقات ایساہوتاہے کہ روزے کی وجہ کر بندہ طاعت کے کاموں سے محبت کرنے
لگتاہے ۔حالانکہ اس سے قبل معاصی اس کی گٹھی میں ہوتی ہے ،جسے اب وہ مبغوض
اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتاہے اور گھن محسوس کرتاہے ۔اس طور پر اسے انسانیت
کاصحیح مفہوم اور حیات انسانی کے ساتھ برتاﺅ کاسلیقہ آجاتاہے ۔(اتحاف اھل
الایمان ،للفوزان)
(۵)مسموم فضاکی تبدیلی کا انوکھا طریقہ ہے ۔روزے سے اچھے ارادے کو تقویت
ملتی ہے ۔بلند اخلاق پر وان چڑھتاہے ۔قلب کو سکون پہنچتاہے۔اخوت وبھائی
چارہ کی فضا قائم ہوتی ہے ۔اس طرح یہ عبادت وحدت امت کا ایک بے نظیر نمونہ
پیش کر تاہے۔
(۶)شہوت کی حدت کو مارنے کا بہترین اور نرالاذریعہ ہے ۔نبی کریم صلیٰ اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:﴾ائے نوجوان کی جماعتوں تم سے جو کوئی نان ونفقہ
برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے چاہئے کہ شادی کرلے،اس لئے کہ یہ
نگاہوں کو پست کرنے والااور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والاہے،اور جسے شادی کی
قوت نہیںوہ روزہ رکھے ،یہ شہوات نفسانی کو توڑنے والاہے﴿(متفق علیہ ،الصیام
آداب واحکام لابن جبرین )
(۷)روزہ نظام کی پابندی اور وقت کا صحیح خوگر بناتاہے ۔بندہ اس عبادت کی
مدد سے اس بات کا شعور کر پاتاہے کہ اللہ کابنایا ہوا کائناتی نظام کیا ہے
اس کو کس طرح follow کرناچاہئے ؟اور بدنظمی کا تاوان کیا بھرنا ہوگا؟پھر
انسان ذمہ دار بن جاتاہے۔
آداب وسنن :
(۱)افطار میںجلدی کرنا:جب اس بات کی تحقیق ہوجائے کہ سورج غروب ہوچکاہے تو
فورا افطار کر لیناچاہئے ۔چونکہ اس کے اندر بہت ساری خیرو بھلائیاں پوشیدہ
ہیں ۔سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا ِ:﴾ لوگ ہمیشہ خیر وبھلائی میںرہیں گے جبتک وہ افطار کر نے میں
جلد ی کریں﴿(متفق علیہ)
مالک بن عامر سے مروی ہے وہ کہتے ہیں :﴾میںاور مسروق عائشہ رضی اللہ عنہا
کی خدمت میں حاضر ہوا ،میںنے کہا :”یاام المومنین !آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم
کے اصحاب میںسے 2شخص ہیں ،ان میں کا ایک افطار کرنے اور نماز اداکرنے میں
تاخیر نہیں کر تا،اور دوسرا افطار بھی تاخیر سے کر تا ہے اور نماز میں بھی
تاخیر کر تاہے “۔عائشہ رضی اللہ عنہانے پوچھا: ان میں سے افطار اور نماز
میں جلدی کون کرتاہے ؟(مالک بن عامر )کہتے ہیں :ہم نے کہا :’عبداللہ بن
مسعود ‘،عائشہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں:”آپ ایساہی کیاکرتے تھے“﴿مسلم )
(۲)افطار کھجور اور پانی سے کرنا:﴾انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :آپ ﷺنماز
سے قبل چند رطب کھجوروں سے افطار کرتے ،اگر رطب کھجوریںمیسر نہ ہوتیں تو
تمرہ سے افطار کرتے،اور اگر تمرة کھجوریں نہ ہوتیںتو پانی سے افطار
فرماتے﴿(ترمذی وصححہ الالبانی)
امام ابن القیم ؒفرماتے ہیں:(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم )کھجور سے افطار
کرنے پر ابھارتے تھے،اور کھجورنہ ملنے کی صورت میںپانی سے،اور یہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کے تئیں کمال شفقت وخیر خواہی ہے۔معدہ جبکہ
خالی ہو ایسی صورت میں طبیعت میٹھی چیز کو زیادہ قبول کرتی ہے،اور اس سے
اعصاب کو فائدہ پہنچتاہے۔قوت بصارت کو تقویت ملتی ہے ۔پانی کا فائدہ یہ ہے
کہ روزہ رکھنے کی وجہ کر جگر میں ایک قسم کا سو کھا پن آ جاتاہے ۔ چنانچہ
جگر کا پانی سے تر ہونے کے بعد غذا لینے کا مکمل فائدہ ملتاہے ۔لہٰذا بھوکے
پیا سے کے لئے بہتر یہ ہے کہ کھا نے سے پہلے تھوڑا پانی پی لے پھر
کھائے۔(زادلمعاد )
(۳)افطار کے وقت کی دعا کرنا:روزے دار بھائیوں کو اس بات کی جانکاری ہونی
چاہئے کہ افطار کا وقت دعاکی قبولیت کاوقت ہوتا ہے ۔عبداللہ بن عمر بن
العاص سے مروی ہے کہﷺ نے فر مایا : ﴾بلاشبہ روزہ دار کی افطار کے وقت کی
دعا رد نہیں کی جاتی ﴿(ابن ماجہ والحاکم وصححہ البوصیری )
(۴)سحری میں تاخیر کرنا اور اس پر حریص ہونا :اس سلسلے میں ابو ہریرہ اور
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فر
مایا:﴾تسحروا فان فی السحور بر کة﴿(متفق علیہ )سحری کھاﺅ ،چونکہ سحری
میںبرکت ہے ۔عمر بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا
:﴾ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق کر نے والی چیز سحری کھانا ہے
﴿(مسلم )
انس رضی اللہ عنہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے
فرمایا:﴾ہم لوگوں نے نبی ﷺکے ساتھ سحری کھائی ،پھر نماز کے لئے کھڑے
ہوئے۔(راوی انس ؓکہتے ہیں )کہ میں نے پوچھا آذان اور سحری کے درمیان کتنی
دیر کاوقفہ ہوتاتھا؟(زید بن ثابت )نے فرمایا :جتنی دیر میں 50آیات تلاوت
کرلی جائیں﴿(متفق علیہ )
روزے دار بھائیوں کو چاہئے کہ وہ سحری کرنے میںرغبت سے کام لیں،چونکہ اس
میں اہل کتاب کی مخالفت ہوتی ہے ۔پھر اپنی ذات کے لئے برکت اور سنت رسول کی
مکمل پیروی ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا﴾ سحری کھانا برکت کا باعث ہے ، اسے نہ چھوڑو
،اگر کوئی (سحری میں)صرف پانی کا گھونٹ پی لے،تو اللہ تعالیٰ اور اس کے
فرشتے سحری کھانے والوںپر سلامتی نازل فرماتاہے ﴿(مسند امام احمد)
(۵)زبان اور اعضاءوجوارح کو محرمات سے بچانا: یہ بات اسلئے اہم ہے کہ بغیر
اس کی رعایت کے روزہ کاتصور نہیں کیا جاسکتا۔چنانچہ آداب صیام میںیہ بھی ہے
کہ زبان کو جھوٹ ،غیبت اورچغل خوری جیسے کلام سے بازرکھنا چاہئے ۔اس میں
کوئی بھلائی نہیں اور یہ ساری گفتگو عنداللہ مقبوح اور مبغوض بھی ہے ۔اسی
طرح اپنے نفس اور بدن کو ہر قسم کی شہوانی اور حرام چیزوں سے بچانا،یہی
روزے کااصل مقصود اعظم ہے ،جس سے تقوی حاصل ہوتاہے ،شیطان اور اس کے اعوان
ومددگار سے حفاظت ہوتی ہے ۔محمد ﷺ نے فرمایا: ﴾روزہ ڈھال ہے،تم میںجوکوئی
روزہ رکھے اسے چاہئے کہ وہ لایعنی بات نہ کرے،جہالت والے کام انجام نہ دے
،کوئی ا س سے جھگڑے یاگالی دے تو کہے میںروزے سے ہوں﴿(متفق علیہ )
متولی کہتے ہیں :روزے دار کیلئے ضروری ہے کہ اپنی آنکھ کا روزہ رکھے ،جو
حلال نہیں اس کی جانب نگاہ اٹھا ئے ،اپنی کان کاروزہ رکھے ،جوحلال نہیں اسے
نہ سنے ،اپنی زبان کا روزہ رکھے فحش گالی نہ بولے اور نہ ہی غیبت کرے،اور
یہ تمام باتیں جب عام حالتوں میں حرام ہیں تو رمضان المبارک میں اس کی حرمت
اور بھی زیادہ سخت ہوجاتی ہے۔
(۶)روزے داروں کو افطار کرانا:یہ بھی روزہ کے آداب وسنن میںسے ہے کہ روزے
داروں کو افطار کرایاجائے ،اس سے مواخاة وبھائی چارہ قائم ہوتاہے ۔اور
اسلام اسی بات کاحکم دیتاہے۔نبی کریم ﷺ افطار کرانے کی اہمیت و فضیلت بیان
کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:﴾جس نے کسی شخص کو افطار کرایا اس کے لئے روزہ دار
کے اجر کے برابر ثواب ہے ،روزہ داروں کے ثواب میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر﴿
(احمد والترمذی وصححہ )عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کاعمل یہ تھا کہ آپ
فقراءومساکین اور ایتام کے ساتھ ہی افطار کرتے تھے۔
یہ باتیں ایسی ہیں کہ جس پہ عمل کر کے ہی ہم روزے کاصحیح لطف اٹھاسکتے
ہیں۔اللہ ہمیں حسن عمل کی توفیق دے ۔ |