اکثرو بیشتر ٹریفک کے بہاؤ میں ہمیں لال بتی جلائے شور
مچاتی، تیز تیز آگے نکلنے کی کوشش میں ایک گاڑی نظر آتی ہے جسے ہم زیادہ
اہمیت نہیں دیتے، مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ایمبولینس محض ایک لال بتی
والی گاڑی کا نام ہی نہیں بلکہ موت سے لڑتے کسی مریض کو زندگی واپس لوٹانے
کا وسیلہ ہے، یوں مسیحا کا دوجا روپ ہے۔
ایمبولینس میں آج جو مریض ہے اس سے تو ہمارا کوئی رشتہ نہیں مگر کون جانے
کہ کب کوئی ہمارا اپنا اس ایمبولینس میں موجود ہو اور یہ بظاہر سائرن بجاتی
مگر اصل میں مریض کیلئے زندگی کے سانس جوڑتی ہسپتال کا رخ کئے شاہراہ پر
دوسروں سے راستہ مانگ رہی ہو اور تب کوئی اسے راستہ نہ دے تو ایسے میں
ہمارا کیا حال ہو گا۔ اسی لئے خدا تعالی نے پہلے ہی حقوق العباد کی شکل میں
ہم پر خصوصی احکامات صادر فرما دیئے ہیں کہ ہم انجانے میں کسی کے دکھ اور
تکلیف کا سبب بننے سے بچ جائیں، یہ نہ ہو روز حساب صرف حسرت اور بے پناہ
پچھتاوا ہمارا مقدر بن جائے۔
خدمت خلق کا سب سے بڑا محرک لوگوں کے شکستہ دلوں کو حوصلہ دینا ہے، انسانی
حقوق میں سب سے بڑا حق دوسروں کو جینے کا موقع فراہم کرنا ہے۔”جس نے ایک
انسان کی جان لی گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا اور جس نے ایک ذی روح
کو بچایا گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا ” (القران سورۃ المائدہ آیت
نمبر 32)
آیتِ مبارکہ سے اس بات کا تعین تو ہوگا کہ خدا کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل
دوسروں کی زندگی کو تحفظ فراہم کرنا ہے، لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ہم ذاتی
طور پر کس طرح اس پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں، اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا ”
حدیث نبوی” کی روح سے کسی بشر کو خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا صدقہ ہے جبکہ
انسانی جان کو بچانا تو اللہ کے قرب کو حاصل کرنے کا بہترین عمل ہےـ ضروت
اس امر کی ہے کہ خوشنودی الہیٰ کو حاصل کرنے کے لئے ہم کتنی دل جمی کے ساتھ
اس ذمہ داری کا بیڑا اٹھا سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو ٹریفک قوانین کو بہترین بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے
متعقلہ محکمانہ کاوشوں کو بروئے کار لانا ہوگا اگر چند ذمہ دار لوگوں کی
بات کی جائے تو یقینا اس کے پیچھے جو محرک کار فرما ہے یا جس میں بشری
استطاعت کی حد تک انسانی دماغ کی رسائی ممکن ہے۔ ایوانوں میں بیٹھے قانون
سازی کرنے والوں کا کردار بھی خاطر خواہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
مثال کے طور پر پل، سڑکیں، میڑو اور اورنج ٹرین جیسے ٹریک پر مشتمل منصوبے
بنانا نیک شگون ہے، لیکن ان ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ غربت کی چکی میں
پسے ابتری کی حالت میں لاچار مریض کیا کوئی حق نہیں رکھتا کہ جس ایمبولینس
میں وہ جا رہا ہو اس کے لیے مین روڈ سے ایک الگ ٹریک ہونا چاہئے جس پر چلتے
ہوئے ایمبولینس کی رسائی بآسانی شہر کے بڑے ہسپتال تک ممکن ہوـ
اس اخلاقی لحاظ سے زوال پذیرمعاشرے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑھتی ہوئی
بے ہنگم ٹریفک پر کسی طرح قابو پایا جائے اگر تو ہمیں اس ہیجانی کیفیت پر
کنٹرول کرنا ہے تو حکومت اور عوام میں باہمی تعاون بہت ضروری ہے، مثال کے
طور پر سکولز اور کالجز کی سطح پر آگاہی ورکشاپس کا انعقاد کروایا جائے جس
میں ٹریفک کے قوانین پر روشنی ڈالتے ہوئے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا
جائے کہ اگر ایمبولینس سڑک سے گزر رہی ہو تو کون سی سمت میں رہ کر راستہ
دینا چائیے۔
کم از کم پرائمری سطح پر ایک باب ٹریفک قوانین پر مشتمل ہونا چائیے جس میں
ایمبولینس کو کیسے راستہ دینا ہے، اسکی اہمیت کو بھی زیر بحث لایا جائے،
یقینا اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کے انسان جس چیز کو پڑھتا اور سنتا ہے
اس کو اپنی زندگی میں عملی جامہ بھی پہنانے کی تگ و دو کرتا ہے اس کی مثال
کچھ اس طرح ہو گی کہ اگر ڈرائیور حضرات کی اکثریت جو اس پیشے سے وابستہ ہے
ان میں سے بیشتر کی تعلیم پرائمری ہوتی ہے۔
اگر وہ اس سطح پر ٹریفک کے قوانین اور ایمبولینس کو راستہ دینے کے حوالے سے
اپنی بنیادی ذمہ داریوں کا مطالعہ کر چکا ہو تو ان حقوق کی ادائیگی میں
کوتاہی نہیں برتے گا۔ انسانی دماغ سازش بھی بنتا ہے اور بھلائی کا محوربھی
ہے، ذرا سوچئے! جس خوانچہ فروش کے گھر میں 8 کھانے والے ہیں اور وہ بیچ
چورائے پر گھر کو چلانے کے لئے ریڑھی لگاتا ہے، کہاں دیکھے گا کہ جو
تجاوزات اس نے مچائی ہے، جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے اور اس
کے سبب ایمبولینس بھی رش میں پھنسی پڑی ہے۔ دوسری جانب عین ممکن ہے کہ اس
ایمبولینس میں ایسا انسانی چہرہ موجود ہو جو بیماری کی وجہ سے اپنے آخری
سانسیں لے رہا ہو، آخر وہ ریڑھی بان بھی کیا کرے، شکم سیری کی حاجت نے اسے
اندھا کر رکھا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسے پیجز بنائے جائیں جو عوام کو آگاہی مہیا کریں، میڈیا
پر ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جس نے ایمبو لینس کو راستہ دینے اور
دلوانے میں ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیا ہو اور کسی ذی روح کی جان کو
تحفظ فراہم کیا ہوـ
جرمنی میں لوگ ایمبو لینس کا سائرن سنتے ہی اپنی گاڑیاں سڑک کے دائیں بائیں
لگا لیتے ہیں، سنگا پور کی سڑکوں پر بڑی مشکل سے ایمبولینس کو دوسری مرتبہ
سائرن چلانے کی ضرورت پیش آتی ہے جبکہ پیرس میں باقاعدہ طور پر بانک
اسکوارٹ کے نام سے ایک سروس ہے جس کا کام ایمبولینس کے لئے رستہ کلئیر
کروانا ہے، انگلینڈ میں ایمبولینس کے لیے بھی الگ راستہ تیار کیا گیا ہےـ
اجتجاج کرنا کسی بھی ملک کے عوام کا جمہوری حق ہے لیکن یہاں تب تک احتجاج
پر نوٹس نہیں لیا جاتا ہے جب تک سڑکیں بند نہ کر دی جائیں، حالانکہ ہماری
یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ جو ایمبولینس اس بھیڑ میں کھڑی ہے اس کو تو راستہ
دیا جائے لیکن اس نازک صورت حال پر بھی احتیاط نہیں برتی جاتی، ایک مرتبہ
سوئٹزر لینڈ میں بھی احتجاج کے دوران سڑکوں پر عوام کا جمِ غفیر تھا لیکن
بیچ میں سڑک خالی چھوڑی گئی تاکہ ایمبولینس کو با آسانی راستہ میسر ہو۔
ہمارے ہاں سگنلز پر کثیر تعداد میں بے ہنگم ٹریفک جمع ہو جاتی ہے جس میں
ڈرائیور حضرات لائنوں کی ترتیب کو بھول جاتے ہیں حالانکہ اس میں ایمبو لینس
بھی جکڑ جاتی ہے اگر ہم ٹریفک کے اشاروں پر ایک ترتیب کے ساتھ کھڑے ہو اور
ایک لائن کو ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کے لئے مختص کر دیں تو عقل ناقص کے
مطابق آسانی سے ایمبولینس کو بلا تاخیر راستہ مہیا کیا جا سکتا ہے۔
چونکہ ہمارا شمار ترقی پزیر ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے، سب سے بڑھ کر بد
قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں صحت اور تعلیم کا بجٹ وزرا اور نوکر شاہی کی شان
و شوکت اور پروٹوکول کے لئے زیادہ رکھا جاتا ہے۔ اسی پروٹوکول کی وجہ سے
کبھی لاہور تو کبھی کراچی میں کئی جانیں وی آئی پی پروٹوکول کی نذر ہو جاتی
ہیں۔
آئی سی آر سی (انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس) سوئٹزر لینڈ سے شروع ہونے
والی این جی او ہے جس کا کام جنگ و دیگر قدرتی آفت کی وجہ سے زخمی ہونے
والوں کو طبی سہولیات مہیا کرنا ہوتا ہے۔ گزشتہ سال آئی سی آر سی کی جانب
سے جاری کردہ پریس ریلیز میں اس حقیقت کو واشگاف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے
کہ ایمبولینس کو رستہ دینے میں کوتاہی برتنے والے کے خلاف دفعات بنا کر
قانونی کارروائی جائے تاکہ با آسانی راستے کی فراہمی اور قانون کا اطلاق نہ
صرف ڈرائیور پر بلکہ عوام الناس پر بھی ہو۔
آخر میں اس احساس ذمہ داری کو اجاگر کرنے کے لیے اس حدیث نبویﷺ پر اپنے
سلسلہ کلام کو اختتام پذیر کرتی ہوں
” کہ تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اسے اس کے ماتحت کے بارے میں جوابدہ
ہونا پڑے گا”۔ یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ سڑک پر جاتی
ہوئی ایمبولینس کو راستہ فراہم کرنے میں ہر ممکن تعاون کریں
|