جمعہ نامہ: نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر

ارشادِ ربانی ہے : ’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند فرما دیا‘‘۔ نبیٔ کریم ﷺ کے تذکرے کی بلندی کاکیا کہنا ’’ لا یمکن الثناء کما کان حقہ، بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ یعنی آپ ؐ کی ثنا کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں،قصہ مختصر یہ کہ خدا کے بعد آپ ؐ ہی بزرگ ہیں‘‘۔ بنی اسرائیل نے اپنے انبیاء کی کردار کشی کا جرم عظیم کیا اور نصاریٰ بھی اس معاملے میں پیچھےنہیں رہے ۔ مسیحی دنیا میں حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں جو لکھا اور کہا جاتا ہے مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ دیگر مذاہب کے لوگوں نے اپنے مذہبی پیشواوں کو معبود بناکر ان سے ایسی باتیں منسوب کردیں جو مضحکہ خیز اور ناقابلِ یقین ہیں ۔ اس لیے ان تئیں حساسیت ختم ہوگئی۔ اس کے برعکس نبیٔ کریم ﷺ کا معاملہ بالکل مختلف ہے ۔ اہل ایمان اس بابت بے حد محتاط واقع ہوئے ہیں۔ ناموس رسالت پر جان چھڑکنے والی یہ امت شمہّ برابر اہانت برداشت نہیں کرتی ۔ ناموسِ رسالت پر آنچ آتےہی ساری دنیا کے مسلمان تڑپ جاتے ہیں ۔ نبیٔ اکرم ﷺ کے ذکر کی بلندی کا یہ نمایاں پہلو ہے۔ یوروپ میں کارٹون کی اشاعت اور ہندوستان میں اہانت آمیز تبصرے کے بعد اس کا پرزور مظاہرہ ہوا۔ ان سانحات کے بعد اہل ایمان بے چین ہوجاتے ہیں اور فطری طور پر مذمت و احتجاج کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

آگے والی آیت میں فرمانِ ربانی ہے:’’ سو بیشک ہر دشواری کے ساتھ آسانی ہے، یقیناً دشواری کے ساتھ آسانی (بھی) ہے ‘‘۔ دنیا بھر سے مخالفت کے بعد ہندوستان کے اندر ماحول بدل گیا ۔ ایک برسرِ اقتدار مغرورجماعت اول تو اعلانِ برأت اورپھر صفائی پیش کرنے پر مجبور ہو گئی پھر سرکاری اقلیتی کمیشن کی جانب سے کارروائی یعنی گرفتاری اور سزا کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل خاص تھا جس نے مشکل حالات کو آسا نی میں بدل دیا ورنہ نوپور کے بعد نوین کے ٹویٹ سے یہ اندیشہ لاحق ہوگیا تھا کہ ایسی دلآزار وارادت معمول بن جائیں گی ۔ امت پر مایوسی کے بادل چھانے لگےتو اللہ کی مدد اس ارشادِ قرآنی کی مانند آئی : ’’ یہاں تک کہ جب پیغمبر (نافرمان قوم سے) مایوس ہوگئے اور ان منکر قوموں نے گمان کر لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے (یعنی عذاب نہیں آئے گا) تو رسولوں کو ہماری مدد آپہنچی پھر ہم نے جسے چاہا (اسے) نجات بخش دی، اور ہمارا عذاب مجرم قوم سے پھیرا نہیں جاتا‘‘۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کی نصرت وحمایت ایک ایسے گوشے سے آئی جس کا کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا ۔ عالمی سطح پراگرامت مسلمہ غیر معمولی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ نہیں کرتی تو حالات نہیں بدلتے ۔ فرمانِ ربانی ہے:’’اور اللہ اور اس کے رسُول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی صبر سے کام لو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صبرو ثبات کا بہترین اجر عطا فرما کر ظالموں کو ذلیل و رسوا کردیا۔ ارشادِ حق ہے:’’ تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے ۰۰۰‘‘ ایک دیگر مقام پر یہود کی بابت فرمایا:’’ یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستا سکتے ہیں‘‘۔ یہ بات مشرکین پر بھی صادق آتی ہے کہ جو آئے دن اہل ایمان کی دلآزاری یا جانی و مالی نقصان پہنچا کر انہیں ستاتے رہتے ہیں۔

اس آیت میں آگے فرمایا گیا ہے : ’’ اگر یہ تم سے لڑیں گے تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے، پھر ایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے اِن کو مدد نہ ملے گی یہ جہاں بھی پائے گئے اِن پر ذلت کی مار ہی پڑی، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے۔ یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں، ان پر محتاجی و مغلوبی مسلط کر دی گئی ہے۰۰۰‘‘ اہانت رسول ﷺ کے حوالے سے اس آیت کی تفسیر ساری دنیا کے سامنے ہے ۔خود ان کی صفوں میں سےسبرامنیم سوامی یہ اعتراف کررہا ہے کہ موجودہ سرکار عربوں کے سامنے ٹک نہیں سکتی ، یہ قطر کے سامنے سربسجود ہوگئی۔ کپل مشرا کہتا ہے ’ہندو ساری دنیا میں دوسرے درجہ کے شہری ہیں ‘ اور نرسنگھا نند نے کہہ دیا ایسی حالت میں جینے سے بہتر مرجانا ہے۔ قرآن حکیم اس کاسبب یہ بتاتا ہے کہ : ’’اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے ‘‘۔ پیغمبرِ آخرالزماں ﷺکے بعد کاررسالت کو جاری رکھنے والوں پر زیادتی کا بھی وہی انجام ہے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227792 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.