یہ سچ ہے کہ بھارت کی جنگ آزادی
میں مسلمانوں کا کردار سب سے نمایا رہا ہے؛اور اس ملک کے لیے ان کی قربانی
بے مثال ہے؛یعنی یہ مثال کہیں اور نظر نہیں آسکتی ؛یہ وہ ملک ہے جہاں ہمارے
اسلاف نے وہ قربانی پیش کی تھی جس سے قرنِ اول کے معرکہ کفر اسلام کی یاد
تازہ کردی تھی؛کہیں انکو آگ میں ڈالا گیا؛کہیں ؛کھولتے ہو تیل میںپھینکا
گیا؛کہیں انہیں قید کر کے رونگٹے کھڑے کرنے والی جسمانی اذییتیں دی گئی اور
بہتوں کوسولی پر لٹکایا گیا؛جسے لکھتے لکھتے قلم بھی رک جاتا ہے؛ ساری
باتوں کا نچوڑ یہ ہے کہ اس سر زمیں کو ہمارے اسلاف نے اپنے خون سے سینچا ہے
؛ در اصل ہندستان کی جنگ آزادی کی شروعات حضرت ٹیپو سلطانؒ شہید نے سترویں
صدی عیسوی کے وسط میں ہی کی تھی ؛اور اس کے لیے اپنی خداداد سلطنت کو داؤ
پر لگا دیا تھا؛او ر یہ مرد مجاہد ۴ مئی ۹۹۷۱ءکو اپنے دل میں اس ملک کی
آزادی کی آرزولیے انگریزوں کے ساتھ لڑتے ہوئے آزادی کے خواب کو ادھورا چھوڑ
کر شہید ہوگیے؛حقیقت میں ان کی موت یانقصان پورے ملک کا نقصان تھا یعنی اس
مرد مجاہد کا اچانک اس دنیا سے اُٹھ جاتے ہی ہندستان کی آزادی خطرہ
یاکھٹائی میں پڑ گئی اور قوم پھر سے غلامی کی زنجیروں میں اس قدر جکڑ دی
گئے؛ جسے اتار پھینکنے کے لیے مزید دو( ۲) صدیاں لگتی ہے؛ لیکن ہم اس واقعے
کو نہیں بھول سکتے؛ یعنی تقریباّ ڈیڑھ صدی بعد پھر اسی کے لیے ایک نئی
اُمنگ یا امید کی کرن لے کر ایک اور مرد قلندر بہادر شاہ ظفر کی شکل میں
ہندستانی قوم کی ٓاواز یا قومی نشان بن کر سامنے ا ٓتا ہے اور اپنا سب کچھ
داؤ پر لگا دیتا ہے ؛اور انجام کار کے طور مغلیہ سلطنت کے اس اخری تاجدار
کو ہمیشہ کیلیے ملک بدر ہونا پڑتا ہے ؛اور اس بزرگ اوردین دار بادشاہ کو
اپبے عمر کے انتہائی دور میں بھی قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑی؛اوروہ
جلا وطنی میں ہی اپنے زندگی کے آخری لمحات پورا کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت
ہوا؛جہان) رنگوںBURMA/ ( میں آج بھی اس ہندستانی جنگِ ازادی کے اس جانباز
کی قبر اپنے وطن کی مٹی کا انتظار کر رہی ہے؛ کاش کے ہندستانی حکومت اپنے
اس مایہ ناز فرزند کو کبھی یاد کرتی کہ شاید ملک کی آزادی کا خواب دیکھنے
والے قوم کے اس سپوت کی روح کو کچھ تسکین پہنچ پاتی۔۔
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے؛دو گز زمیں بھی نہ مل سکی کوئے یار میں،
؛یہ کتنا جری غیور اور مظبوط دل گردے کا مالک تھا ؛ اس کا اندازہ ہمیں صرف
اس ایک واقعہ سے ہو جاتاہے؛ جب انگریز افسر نے ان کے چار جواں بیٹوں کا سر
قلم کرکے ان سامنے تھال میں سجا کر تحفے کی شکل میں پیش کرتا ہے تو اس وقت
یہ اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کواپنے ہاتھوں میں لے کربڑے ہی کربناک لہجے
میں دعا کرتے ہوئے کہا تھاکہ تیمور کی اولاد ایسے ہی سر خرو ہو کر باپ کے
سامنے اپنا فرض ادا کرتے ہیں؛ بحر حال ہندستانی قوم ان حالات سے گزرنے کے
بعد اپنی آزادی سے اس قدر مایوس ہو چکی تھی کہ آزادی کا تصّور ان کے لیے
ایک بھانک خواب لگنے لگا تھا؛ایسے وقت میں ہمارے اسلاف نے اس آزادی کی
بجھتی ہوئی چنگاری کوشعلہ بنا نے میں وہ کردار ادا کیا جس کی مثال پوری
ہندستانی تاریخ میں نہیں مل سکتی اور برادران وطن اس کا عشر عشیر بھی نہیں
پیش کر سکتے، انہوں نے اپنے ولولہ انگیز واعظ یا تقاریر یا خطابات سے
اوراپنی فکر انگیز تحریروں سے مسلمانوں میں جذبہ جہاد اور شوق ِ شہادت کو
بیدار کیا ؛ دوسری طرف برادران ِ وطن کو ایسے جگایا یا جھنجوڑاکے پوری
ہندستانی قوم کا صرف ایک ہی نعرہ بن گیا؛؛آزادی“ اب وہ اس کے لیے کسی حد تک
بھی جانے کو تیار تھے اورایک ایسا انقلاب برپا ہوا یا ایک ایسا لاوا پھوٹ
نکلاتھا جسے دبا نا یاروکنا انگریزوں کے بس نہیں رہا تھا؛اسلیے انہیں اپنے
ڈیرے یہاں سے اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا؛ان میںمولاناقاسم
ناتوی؛مولانامحمودالحسن؛مولاناعبیدللہ سندھی؛؛مولاناجعفر تھانسیری؛مولانا
اسعد مدنی؛مولانابرکت اللہ بھوپالی ؛مولاناحسین احمد مدنی ؛مولانامحمد علی
جوہر ؛مولاناابوالکلام ازاد پیش پیش تھے ؛لیکن افسوس جب کبھی ہندستان میں
یو م آزدی منائی جاتی ہے تو شاید کبھی ان اکابرین علماءاسلام کو یاد
کیاجاتا ہو؛ یہ تو ہوئی حق کی بات لیکن یہاں تو مسلمانوں کو دہشت گرد یا
غددار ثابت کرنے کے لیے بہانہ تلاش کیا جاتا ہے؛اس وقت ہم مسلمانوں کو اس
ملک کے اربابِ اقتدار سے پوچھنا ہے کہ کیوں ہمارے اسلاف کے کارناموں یا
قربانیوں کو بھلا دیا گیا ہے ؟کیا یہ ہمارے ساتھ کھلی ہوئی ناانصافی نہیں؟
ہمیں وزیر اعظم سے پوچھناہے کہ آزادی کے 64سال بعد بھی ہمارے ساتھ سوتیلا
سلوک کیوں ہے؟اور وفادارِ قوم وشہیدانِ وطن سے بے وفائی آخر کیوں ؟ ہمیں ان
سے پوچھناہے کہ سچر کمیٹی کا مقصد کیا تھا؛کیا صرف اسلیے کہ مسلمانون کی
شرح ناخواندگی ثابت کر کے انہیں پسپائی کے غار میں دھکیل دیں یا دلت مسلم
کا لیبل چسپاں کریں ؟پھر کیاوجہ ہے اس پر دیانت داری سے عمل نہیں ہو پا رہا
؟اور ممبی کے فسادات پر مبنی جسٹس سری کرشن رپورٹ کہاں گم ہو گئی ؟ کروڑوں
روپیہ خرچ کر کے تیار کی گئی ۷۱ سالہ اور ہزارہا صفحات پر مشتمل لبہرن
کمیشن کانتیجہ کیا ہے ؟گجرات فسادات اور بیسٹ بیکری کامعاملہ کیوں دبا دیا
گیا ؟ کیا صرف اسلیے کے اس کا تعلّق مسلمانوں سے ہے ؟کیا آپ کسی ایسے شخص
کو وزارت ِعظمہ کی کرسی پر دیکھنا چاہتے ہیں جس کے ہاتھ ہزاروں معصوم
مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں؟پھر کیا وجہ ہے کہ ملزم کا جرم ثابت ہونے
باوجود کیوں آزاد اور دندناتے ہوئے پھر رہا ہے ؟ برخلاف اس کے کئی معصوم
نوجواں آج بھی جیل کی اندھیری کوٹھریوں میں بند ہیں اورمسلمانوں کو ہراساں
کرنے کرانے کا سلسلہ جاری ہے ا ور اب بھی کوئی حادثہ یا دھماکہ ہو تا ہے تو
پولیس کیوں مسلمانوں پر سب سے پہلے ہاتھ ڈالتی ہے ؟اور ہندستانی میڈیا ان
بے بنیاد خبروں کو اُچھالنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا؛آخرمیڈیا کو
مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلنے اور نفرت پہلانے کی اتنی کھلی چھوٹ کیوں؟ کیا
یہاں اس کے کچھ اُصول یا ضوابط بھی ہیں؟ مزید کئی ایسے سوالات ہیں جسے سن
کر ایک انصاف پرست انسان کا دل دہل جائیگا اور انکھیں انسوں میں بھر کر
زبان کنگ ہو جائیگی اور اس ملک کا سر اس ناانصافی کی داستان سن کر جھک
جائیگا ہے؛ کیونکہ اس ملک کی آبیاری کیلیے ہمارے اسلاف نے اپنا خون دیا ہے
؛سولی پر چڑھے ہیں دہکتی آگ اورکہولتے ہوے تیل میں کودا ہے؛ لیکن افسوس یہ
نا انصافی کی عجیب روداد آنکھوں سے انسو خشک کر دینے والی ہے؛ اقبالؒ نے سچ
کہا تھا “گلستاں کو جب لہو کی ضرورت پڑی؛ سب سے پہلے یہ گردن ہماری کٹی؛پھر
بھی کہتے ہیں یہ اہل چمن، یہ وطن ہے ہمارا تمہارا نہیں؛؛
حکومت ِہند کوچاہیے کہ مسلمانوں کو انکا مورثی حق دلانے میں اپنا فرض پورا
کرے اور مجرموں کو انصاف کے کٹھیرے میں لا کھڑ اکرنے میں اپنا غیر جانب
دارانہ کردار ادا کرے ورنہ بھارت کا مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہوگاکہ یہاں
سیکولرزم کی موت ہوچکی ہے اور جوکچھ سیکولرزم یا جمہوریت کے نام پر ہو رہا
ہے وہ فسطائیت کے سوا کچھ نہیں اور وہ دن دور نہیں کہ اس ملک کا ہر مسلمان
اپنا حق لینے کے لیے اپنے سر پر کفن باندھے خود میدان میں اترے گا اور
مجبوراًایک نئی تاریخ ثبت کرنے میں جُٹ جائیگا ؛ اور یہ ایک ایسی آواز ہوگی
جس کی گونج سارے عالم میں سنائی دیگی اور شاید یہی غزوہ ہند کا آغاز بھی ہو
؛جو اس ظلم وہ ذیادتی کا خمیزہ یا نتیجہ ہوگا۔۔۔۔۔ |