بلوچستان بلحاظ رقبہ پاکستان کا
سب سے بڑا صوبہ تو ہے ہی اسکی زمین سب سے زیادہ معدنی خزانے سموئے ہوئے ہے
اور بلحاظ حساسیت بھی اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے۔ اس صوبے کے جغرافیائی
حالات کچھ ایسے ہیں کہ کچھ مخصوص علاقوں کے علاوہ آبادی خال خال نظر آتی ہے
اور لق و دق صحرا دور دور تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ اِن علاقوں کو قدرت نے
معدنیات سے تو بے تحاشا نوازا ہوا ہے لیکن زندگی کی بنیادی ضرورت پانی دور
دور تک موجود نہیں ہاں جہاں پانی موجود ہے وہاں باغات زندگی کا بھر پور
ثبوت دیتے ہیں۔ اس کے شہر بھی ملک کے دیگر شہروں سے چھوٹے اور کم ترقی
یافتہ ہیں، آبادی بکھری ہوئی ہے، سرداری نظام انتہائی مضبوط ہے، خواندگی کی
شرح بوجوہ کم ہے اور زراعت انتہائی مشکل ہے ۔یہ وہ حالات ہیں جو قدرت کی
طرف سے اس صوبے میں پائے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف اسی صوبے کو قدرت نے
معدنیات کی دولت سے بھی بڑی فیاضی سے نوازا ہوا ہے۔ یہاں معدنی ذخائر کی
اتنی بہتات ہے کہ بلا مبالغہ ان کی آمدنی سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک
کے دن پھر سکتے ہیں۔ کوئلے سے لیکر سونے، تانبے ، سنگ مرمر، اونیکس،
کرومائیٹ اور بے شمار دوسری دولت اس زمین میں مدفون ہے ۔ سینڈک، رکوڈک اور
سوئی ،اِن سب دشتوں میں خدا تعالیٰ نے بیش بہا خزانے ہمارے لیے سنبھال رکھے
ہیں لیکن ہو کیا رہا ہے؟ ہو یہ رہا ہے کہ بلوچستان بے شمار مسائل سے دوچار
ہے اور یہ مسائل کسی ایک کے پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ اس جرم میں سب برابر
کے شریک ہیں حکومت بلوچستان کے حالات سے کسی بھی عام شہری سے زیادہ باخبر
ہے لیکن اسکے رویے میں سنجیدگی نظر نہیں آرہی۔ وہاں ٹارگٹ کلنگ جاری ہے اور
اس کی ایک ہی آسان وجہ بیان کردی جاتی ہے ’’یہ سب ایجنسیاں کروا رہی ہے‘‘
آخر کیوں کیا اس ملک کی ایجنسیاں اس ملک کی دشمن ہیں کہ حالات کو خراب سے
خراب تر کر دیں گی۔ صاف طور پر فرقہ واریت نظر آنے کے باوجود بھی اس حقیقت
سے نظریں چرالی جاتی ہیں۔ اپنے عاقبت نا اندیشوں کی انہی باتوں سے غیروں کو
بھی ایسا کرنے کی شہہ مل جاتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے ایسی ہی ایک گمراہ کن
رپورٹ شائع کی جس میں بلوچستان میں قانون نافذ کر نے والے اداروں کو انسانی
حقوق کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ٹھہر ایا ہے اور لاپتہ ہونے والے ہر شخص کی
گمشدگی میں اننٹیلیجنس ایجنسیوں کو ملوث قرار دیا ہے ۔کچھ اشخاص کے
انٹرویوز ان کے فرضی ناموں سے شائع کئے گئے ہیں اور اِن سب کو بلوچ قوم
پرست اور علیحدگی پسند قرار دیا گیا ہے اور اسی وجہ کی بنیاد پر ان کی
گمشدگی کو پاک فوج اور اس کے اداروں سے منسوب کر دیا گیا ہے جبکہ عینی
شاہدین کے تمام تر بیانات اندازوں پر مبنی ہیں اور اگر اِن واقعات کو چیک
کیا بھی جانا چاہے تو کیسے کہ نام سارے فرضی ہیں ۔اس رپورٹ کو بریڈ ایڈم نے
مرتب کیا ہے جو یقیناً بلوچستان کے لوگوں کا کسی بھی طرح کسی عام سے
پاکستانی سے زیادہ خیر خواہ نہیں ہے۔ اسکو اپنی نوکری کرنی ہے اور ذریعہ
آمدن ومعاش کوجاری رکھنا ہے۔ لیکن ہم اِن غیر متعلقہ غیر ہمدرد لوگوں کی
رائے کو اپنے اداروں پر ترجیح دینے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ بلوچستان ہر
دوسرے صوبے کی طرح پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہے صرف اس لئے نہیں کہ یہ اُس
معدنی دولت سے مالا مال ہے جو ہمیں مال و دولت کے انبار دے سکتا ہے بلکہ اس
لیے کہ ہم سب مسلمان ہیں اور ہمارے خدا نے ہمارے دل ایک دوسرے کے لیے نرم
کر دیئے ہیں ۔ اس لیے بھی کہ ہم نے مل کر اس ملک کو بنایا۔ اس میں کسی بریڈ
ایڈم کی کوئی جدوجہد شامل نہیں ۔ ہمیں ایک دوسرے سے کوئی لالچ نہیں بلکہ ہم
ایک ہیں ہر طرح سے ،جبکہ دوسری طرف ہم جانتے ہیں بلکہ خود ایسی رپورٹیں
مرتب کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ بلوچستان کی دولت پر اُنکی نظر ہے انہیں
اپنے بھوکے پیٹوں، تباہ ہوتی معیشتوں اور ظلم و جبر کی جنگیں جاری رکھنے کے
لیے توانائی سے لے کر ہر قسم کی دولت چاہیے اور وہ بلوچستان میں حالات خراب
کرکے یہ سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔گوادر کی بندرگاہ ان کے مقاصد کے حصول
میں کتنی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے یہ بھی سب جانتے ہیں اس بندرگاہ کے ذریعے
وہ نزدیک ترین راستے سے تیل کی سب سے بڑی گزر گاہ آبنائے ہر مزتک پہنچ سکتے
ہیں، مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کا خواب پورا کر سکتے
ہیں،وسطی ایشیا تک اور بحیرہ کیسپیئن کے توانائی کے ذخائر ان کی دسترس میں
آسکتے ہیں ۔ انہی ذخائر پر بھارت کی بھی نظر ہے جس کو اپنی بے ہنگم بڑھتی
ہوئی آبادی کے لیے بے تحاشاتوانائی کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اِن ملکوں کو
اپنا شوق ملک گیری پورا کرنے کے لیے بھی ، جنگوں کی آگ میں جھونکے کے لیے
بھی توانائی کی ضرورت ہے ۔ بھارت تو اپنی پاکستان دشمنی میں بھی بلوچستان
میں ہر ایسی تحریک اور شرارت میں شامل ہے جو پاکستان مخالف ہو، وہ اپنے اس
کردار سے انکار کرنا بھی چاہے تو قابل قبول نہیں کیونکہ مشرقی پاکستان میں
اس کاکردار اور مداخلت سب کو یاد ہے اگر وہاں وہ مکتی باہنی کو پال سکتا
تھا توکیا یہاں بی ایل اے طرز کی تنظیموں کی پذیرائی نہ کرے گا اور کیا وہ
کاروائیاں کرنے سے چوکے گا جسے اب ہیومن رائٹس واچ والے پاکستانی ایجنسیوں
کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ یہی ہومن رائٹس اُن ساری کاروائیوں سے کیوں
آنکھیں بند کرلیتے ہیں جو پاکستان دشمن ایجنسیاں پاکستان میں کرتی اور
کرواتی ہیں اور جب کہ اُس کے ثبوت بھی موجود ہوتے ہیں۔ معاملہ دراصل یہ ہے
کہ یہ امریکن فنڈڈادارے کسی بھی طرح پاک فوج کو اور خاص کر آئی ایس آئی کو
ٹارگٹ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور یہی کچھ وہ اب کر رہے
ہیں اور کیا ہیومن رائٹس والے مداخلت کار ملکوں کے خلاف بھی کوئی رپورٹ
شائع کرتا ہے جو دوسرے ملک کی خلاف بلاوجہ اور یا انتہائی بے بنیاد وجوہات
کی بنا پر کاروائیاں کرتے ہیں ۔کیاعراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے
بارے میں غلط رپورٹ پر عراق پر حملے پر امریکی حکومت کو مجرم گردانا گیا
اور کیا بھارت سے پوچھا گیا کہ اُس نے علیحدگی پسندوں کو پھولوں کے ہار
کیوں نہ پہنائے۔ بہرحال یہ سب ایک سازش کے تحت کیا جارہا ہے اور وہ ہے
پاکستان، آئی ایس آئی، پاک فوج اور پاک فوج سے متعلق اداروں کے خلاف منافرت
پھیلانے کی کوشش کرنا کیونکہ یہی وہ طاقت ہے جس نے اب تک اس ملک کے خلاف
ہونے والی کوششوں کو ناکام کیا ہے چاہے اسکے لیے انہیں کتنی ہی قربانیاں
دینی پڑی ہیں۔ غیر تو ظاہر ہے اپنے مقاصد کے لیے اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال
کرتے ہیں اور رہیں گے لیکن خود ہمیں اس بارے میں بہت محتاط ہونا ہوگا اور
بغیر کسی ثبوت اور وجہ کے صرف اور صرف ایک آسان تو جیہہ تلاش کرنے کی خاطر
اپنے ملک کے نگہبانوں اور اس کی سا لمیت کے ذمہ داروں کے خلاف اس قسم کے
الزامات سے احتراز برتنا ہوگا اور ملک دشمن عناصر کی ہر صورت میں حوصلہ
شکنی کرنی ہوگی ۔ بلوچستان واقعی ایک حساس معاملہ ہے لیکن ابھی خدانخواستہ
حالات اُس نہج پر نہیں پہنچے کہ جہاں سے واپسی نا ممکن ہو۔ بلوچ عوام اب
بھی پاکستان سے پیار کرتے ہیں اور علیحدگی پسندوں کو اب بھی عوامی پذیرائی
حاصل نہیں ہے اور عوام ہی بلاشبہ سب سے بڑی قوت ہوتے ہیں لیکن تعلیم کی کمی،
وسائل تک مشکل رسائی ،سہولیات کا فقدان اور سب سے بڑھ کر عوام تک درست
نظریات کا نہ پہنچنا اور غلط نظریات کو زوروشور سے ان تک پہنچانا
خدانخواستہ کسی بھی سانحے کا باعث بن سکتے ہیں۔ حکومت کو بلوچستان کے مسئلے
کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے اور مسائل کے حل پر بھر پور توجہ دینی
چاہیے اور وہاں کے عوام کو اس حقیقت کا احساس بھی دلانا ہوگا کہ اس وقت ہم
بطور قوم مسائل سے دوچار ہیں مہنگائی ، بیروزگاری اور غربت دوسرے صوبوں کا
بھی مسئلہ ہے، وہاں کے عوام بھی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، وہ بھی
دہشت گردی کا شکار ہیں اور اِن سب مسائل سے ہمیں مل کر نمٹنا ہے اور منفی
رحجانات پر بھی قابو پانا ہے اور منفی پروپیگنڈے کا بھی جواب دینا ہے۔ اس
ملک میں موجود وسائل و مسائل ہم سب کے سا نجھے ہیں ۔
ٹارگٹ کلرز کون ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں ان کو تلاش کرنے اور ان کے
مقاصد کو عوام کے سامنے لانے کے لیے حکومت کو ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی اور
جب حقائق سے پردہ اٹھے گا تو پھر کسی کو ہمارے خلاف زہر اگلنے کا موقع نہیں
ملے گا۔ |