انعام ِ خداوندی

خونِ انسا ن کا رنگ سرخ ہوتا ہے جس میں کالے اور گورے کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی گویا کہ اس کرہَ ارض پر موجود ہر عنصر کی اپنی خصوصیت ہوتی ہے اور وہی اس کی پہچان ہوتی ہے اور اس نے ہر بار ایک ہی نتیجہ دینا ہوتا ہے۔(ایچ ٹو او) نے پانی کی شکل اختیار کرنی ہوتی ہے ۔پانی سو ڈگری سینٹی گریٹ پر کھولتا ہے۔ہر عنصر کے پاس ایک ہی آپشن ہوتا ہے لیکن اانسان کے پاس لا محدود آپشن ہوتے ہیں۔وہ جیسے چاہتا ہے اپنے عمل کا اظہار کرتا ہے حتی کے خالقِ کائنات بھی اس کی آزادیِ عمل میں مداخلت نہیں کرتا ۔درختوں کی شاخوں پر پھل و پھول لگتے ہیں حالانکہ ثمر باری سے قبل اس طرح کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی ۔ شاخوں کے اندر سے ثمرات کا نکل آنا کیا وجہِ حیرت نہیں ہے؟اقبال سوال اٹھا تا ہے کہ (موتیوں سے بھر دی کس نے خوشہِ گندم کی جیب ) کیا یہ مالکِ کون و مکاں کے لا محدود اختیارت کی داستان نہیں ہے ؟یہ کیسی کرشمہ سازی ہے کہ ہر انسان ہر آن اپنی دنیا الگ بسانے کے جتن کرتا ہے لیکن دوسرے ا انسانوں کے ساتھ مل جل کر بھی رہنا چاہتا ہے۔انسان کیلئے یک ہی ڈگر پر چلنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ اس میں تغیر کا مادہ اسے بے کل کئے رکھتا ہے ۔وہ ہر آن مختلف کرنے کی منصوبہ بندی میں جٹا رہتا ہے ۔(ہر آن اس کی نئی شان ہوتی ہے ) فیصلہ کی قوت اس کے علاوہ کسی عنصر کے پاس نہیں ۔بکری ایک ہزار سال پہلے جیسی تھی ایک ہزار سال بعد بھی ویسے ہی ہوگی لیکن انسان کہاں کا کہاں پہنچ چکا ہے۔تسخیرِ کائنات نے انسان کو اوجِ ثریا سے ہمکنار کر دیا ہے۔انسان کی حیوانی جبلت اور اس کے وجودی سانچے کو پیشِ نظر رکھا جائے تو ہر انسان کی ساخت ایک جیسی ہے ۔ہر انسان انہی عناصر سے بنا ہے جس سے دوسرے انسان بنے ہیں لیکن پھر بھی انسان اپنی سوچ اور احساس کی رمق سے دوسروں سے انتہائی مختلف قرار پاتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ انسانوں کی اکثریت عناصر کی بنائی گئی ترتیب، رحجان اور اثرات کے مطابق عمل پیرا ہوتی ہے،ایک لگے بندھے راستے پر محوِ سفر رہتی ہے۔مشکلات اور مہمات سے اجتناب کرتے ہوئے سہل انگیزی کی راہ اپناتی ہے ۔ لیکن کچھ لوگ اس رحجان کے خلاف عمل کرتے ہیں ۔یہ ایک ایسا گروہ ہے جو امکانی اظہاریہ کی بجائے اپنا علیحدہ بیانیہ تشکیل دیتا ہے لہذا اسی وجہ سے ا نھیں پتھر مارے جاتے ہیں،ان کے جسم آروں سے چیرے جاتے ہیں،انھیں کال کوٹھریوں میں ڈالا جاتا ے،انھیں سرِ دار لٹکا دیا جاتا ہے لیکن وہ پھر بھی قلعوں کی بلند فصیلیوں اور تاریک تہہ خانوں سے بالکل خوف زدہ دہ نہیں ہوتے بلکہ ہنسی خوشی آزمائش کی ان گھڑ یوں سے نبر آزما ہوکر انسان کا فخر بن جاتے ہیں ۔عقوبت خانے اور انتہائی اذیت ناک مقامات جہاں سانس لینا ممکن نہیں ہوتا وہاں یہ بے خوف اور جری انسان حریت وجانبازی کی شمعیں روشن کرتے ہیں اور ناقابلِ برداشت آزمائشوں سے گزر کر انسانیت کو سر بلند کر جاتے ہیں۔یقین نہیں آتاکہ ایک جیسے عناصر سے بنایا گیا انسان اتنا مختلف بھی ہو سکتا ہے ؟ خدا ایسے ہی لوگوں کواو للباب کہہ کر پکارتا ہے۔،۔

انسانی تخلیق کے عظیم ترین لمحوں میں انسان کو چند فوق الفطرت قوتوں سے نوازا گیاتھا۔ان خوابیدہ قوتوں کا اادراک ہر انسان کو ہو جائے یہ ممکن نہیں ہوتا لیکن باعثِ حیرت ہے کہ ایک ہی طرح کے عناصر سے گھڑے گے کچھ لوگ عمومی رحجان کی پیروی کرنے کی بجائے الوہی ہدا ئت پر چلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ماحول،معاشرہ، دوست،عزہ و اقارب،تعلیم و تربیت،تہذیب و تمدن، رسم و رواج ، خاندان اور روایت کے بندھنوں میں جکڑاہوا انسان اس سے بلند سوچ کا حامل نہیں ہو پاتا اور اپنی ساری حیاتی ایک دائرئے میں گزار کر اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔ اکثر انسان تو کھانے پینے کے چکر سے ہی نہیں نکل پاتے ۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان کی زندگی کا واھدمقصد کھانا پینا اور سونا ہوتا ہے تو بے جا نہیں ہو گا۔ان کی نظر میں خدا ئی حاکمیت اور اس کی عظمت کاسارا تصور جنت و دوزخ کے حصول میں جا کر دم توڑ جاتا ہے ۔ان کے ساتھ (مست رکھو فکرِ صبح گاہی میں اسے )والا معاملہ ہوتا ہے۔ان کی نظر میں انسانیت کی عظمت اور اس کی بڑائی کا کوئی جامع تصور نہیں ہوتا ۔وہ اپنی تخلیق کردہ محدود دنیا میں مستغرق رہتے ہیں جہاں انھیں اپنی ذات کے علاوہ کسی دوسرے انسان کی فکر دامن گیر نہیں ہوتی ۔ ایسے لوگ در حقیقت انسان کی حقیقی پہچان سے محروم ہوتے ہیں۔وہ سودِ خو د بین سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ ان کی سوئی اپنی ذات کے مدارج کی بلندی میں اٹک کر رہ جاتی ہے اور وہ دنیاو ما فیہا سے کٹ کر اپنی علیحدہ دنیا بسا لیتے ہیں۔ایک ایسی دنیا جس میں ان کی ذات کی بلندی کا پیمانہ اپنے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا ۔وہ خود ہی ایک ایسی مسند پر جلوہ افروز ہو جاتے ہیں جہاں پر ان کے مقلدین انھیں خدائی صفات کا حامل قرار دے دیتے ہیں۔ذاتی بلند پروازی کا ایک ایسا سلسہ شروع ہو جاتا ہے جو کبھی ختم ہو نے کا نام نہیں لیتا۔ظلِ سبحانی، ولائیت اور آستانوں کا ایک ایسا جوہری نظام تشکیل پا جاتا ہے جس میں کسی دوسرے کو دم مارنے کی اجازت نہیں ہو تی۔سبھی کو اسی چھوکھٹ پر جھکنا ضروری ہوتا ہے جسے پیرِ طریقت نے مقرر کررکھا ہو تا ہے۔،۔

انسانی سوچ،اس کی آزادی اور اس کی حریتِ فکر پر اس سے بڑا تازیانہ اور کیا ہو گا کہ انسان کو آزاد انہ فیصلے کی قوت سے محروم کر دیا جائے۔توہمات کی دنیا میں جائیں تو ایک الگ دنیا سے واسطہ پڑتا ہے جہاں رجعت پسندی انسان سے اس کا حقیقی حسن چھین کر اسے عضوِ معطل بنا دیتی ہے ۔مقلدین کا ایک ایسا گروہ پیدا ہو جاتا ہے جھنیں سوچنے کی اجا زت نہیں ہوتی بلکہ انھیں تقلید کی وادیوں کا مسافر بنایا جاتا ہے ۔ انسان کی وہ خوبی جس کی بدولت وہ اشرف المخلوقات کی مسند پرسجایا گیا تھا اسے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر اس سے آزادانہ فیصلوں کی تیغِ جہاں دار چھین لی جاتی ہے۔سائنسی ایجادات ،اور کائناتی علوم کے سارے دروازے اس پر بند کر دئے جاتے ہیں۔علمِ طب،علمِ اسماء ،علمِ فلکیات اور علمِ ارضیات پر پہرے بٹھادئے جاتے ہیں اور یوں سائنس کی دنیا کو عضوِ معطل بنا کر انسان کو اسی دور میں واپس دھکیلنے کی کی جسارت کی جاتی ہے جو شائد اب ممکن نہیں رہا۔سائنسی دنیا مغرب والوں کی اور روحا نی دنیا مسلمانوں کا اثاثہ قرار پاتی ہے۔حیرت انگیز ایجادات جو انسانی زندگیوں میں آسانیوں اور راحتو ں کی پیام بر ہیں یورپ والوں سے موسوم ہیں اور مسلمان محض ایک تماشائی کی حیثیت سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔جبرو قضا کی بحت بہت پرانی ہے ،نظریہ جبریت کے حامیوں کا خیال ہے کہ سب کچھ پہلے سے لکھا ہوا ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا لیکن ترقی پسند اور جدیدسوچ کے حامیوں کا موقف ہے کہ علم و حکمت اور جدو جہد سے حالات کو اپنی منشاء کے مطابق بدلا جا سکتا ہے ۔ (لیس للانسان الا ماسعی ) کے بعد بھی کیا اس بحث کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ سب کچھ پہلے ہی لوحِ محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے؟۔یہ دنیا جس میں ہم زندہ ہیں انسانی کاوشوں ،جدو جہد،علم و حکمت،بصیرت،ذہانت اور اس کی عقل و دانش کا بہترین انعام ہے ۔ دعا ،عطا ، احسان ،عنائت ، برکت ،نوازشیں، اور رحمت ایک علیحدہ کالم کے متقاضی ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ انسانی کاوشوں کے بغیر دنیا کی موجودہ ترقی کا ہر تصور برتر از وہم و گمان ہے لہذا ہمیں سائنسی ایجادات اور انسانی کاوشوں کے ساتھ مل کر اس کرہِ ارض کی نئی صورت گری میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔اقبال کا انداز دیکھئے اور وجد میں آ جائے۔(تیری نگاہ میں ہے معجزات کی دنیا ۔،۔ میری نگاہ میں ہے حادثات کی دنیا )۔،۔

 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515368 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.