قارئن! انسانی جان بچانے کی نیت اور کوشش بہت بڑی سعادت
ہے ۔اسی لئے قراردیا گیا کہ’’جس نے ایک جان بچائی گویا اُس نے سارے جہانوں
کو بچایا‘‘لہذا جان بچانے کی نیت سے مختلف جہت سے کوششیں کی جاتی ہیں ۔کوئی
بیماروں کے علاج و معالجہ سے اُنھیں تندرستی کی جانب لیجانے کا خواہاں ہے ۔کوئی
بھوکے کو کھانا کھلاکراُسے زندگی کی طرف راغبت دلاتا ہے ۔اور کوئی کسی
قدرتی آزمائش و حادثہ سے متاثرہونے والوں کی جانیں بچانے کیلئے بھاگ دوڑ
کررہاہوتا ہے ۔تو کوئی جان لیوا ’’وبائی امراض‘‘سے انسانی زندگیاں بچانے کی
کوشش کررہا ہوتا ہے ۔ان سب انداز و اطوارسے ’’جانیں بچانے‘‘کی سعی ہوتی ہے
۔اور اسکا اجرتو اﷲ کے پاس ہے ۔یہاں المصطفیٰ ٹرسٹ /المجتبیٰ ٹرسٹ کی
بنیاداور ترجیحات اور طے کئے گئے سفرکا تذکرہ مقصودہے۔تاکہ دھرتی پرنیکی
اور بھلائی کے کاموں کی حوصلہ افزائی ہو،ترغیب ملے ۔اب آتے ہیں المصطفیٰ
ٹرسٹ کے بانی پاک فوج کے سابق جنرل غلام محمد ملک اورجنرل محمد مصطفیٰ خان
کی طرف ۔انکا شمار بامقصد زندگی پریقین رکھنے والوں میں ہوتاہے ۔ چونکہ
ہماری مسلح افواج کا کردار’’دفاعی‘‘ہے ۔اس لئے عسکری زندگی میں ملک وقوم کے
دفاع کیلئے برسرپیکار رہنے والے فوجی ،وردی اُتارنے کے بعد بھی ’’انسانی
زندگی ‘‘کو معمول پرآگے بڑھنے میں مدددینے پریقین رکھتے ہیں ۔جنرل غلام
محمد ملک ماضی میں 10کورکمانڈر بھی رہے ہیں ۔اِنھوں نے فوجی زندگی کے بعد
بھی ’’ہم وطنوں ‘‘کی زندگیاں آسان بنانے کی دفاعی سوچ پرپیش قدمی جاری رکھی
۔ اور اس سوچ کا اظہار1998میں المصطفیٰ میڈیکل ٹرسٹ قائم کیا ۔جسکا مقصد
سفید پوش ہم وطنوں کی صحت و زندگی کادفاع کرنا تھا ۔ 1998سے 2015تک جنرل
غلام محمدملک صاحب نے اپنے عزم و ارادے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے
’’المصطفیٰ میڈیکل ٹرسٹ کے تحت انتھک کوششیں و کاوشیں جاری رکھیں ۔جسکے بعد
یہ عظیم ذمہ داری جنرل محمد مصطفیٰ خان کے حوالے کردی گئی۔البتہ جنرل غلام
محمدملک المصطفیٰ ٹرسٹ کے چیف پیٹرن ہیں ۔اس طرح ’’ستاروں سے آگے جہان اور
بھی ہیں ‘‘کے مصداق ۔جنرل غلام محمد ملک صاحب نے میڈیکل شعبہ میں کام کرنے
پراکتفا نہیں کیا ۔بلکہ المصطفیٰ ٹرسٹ کو جنرل محمدمصطفیٰ خان کے انتظام و
انصرام میں دینے کے بعد ’’المجتبیٰ ایجوکیشنل ٹرسٹ ‘‘قائم کردیا ۔جسکے تحت
مڈل سے ہائیرایجوکیشن تک تعلیم حاصل کرنیوالے بچوں کو سکالرشپ دی جارہی ہے
۔ادارہ کی سب سے بڑی ترجیح یتیم بچوں کی تعلیم میں مدددینا ہے۔جبکہ المجتبیٰ
ایجوکیشنل ٹرسٹ کے تحت کمپیوٹرکلسزکا اجراء بھی جلد متوقع ہے ۔یہی نہیں
بلکہ اسوقت خواتین کو ہنرمند بنانے کے پروگرام کے تحت’’ المجتبیٰ ووکیشنل
سنٹر‘‘بھی کام کررہا ہے ۔ووکیشنل سنٹرمیں خواتین کوبنیادی سلائی ،کڑاہی ،ایمبرائیڈی
،سغیرہ سیکھائی جاتی ہیں ۔اس مقصد کیلئے جدیدنیٹنگ مشنوں سے بھی اسفادہ کیا
جارہا ہے۔ووکیشنل سنٹرکی خاص بات یہ ہے کہ یہاں آنیوالی خواتین کو قراان
پاک ،ناظرہ کیساتھ روزمرہ کے دینی مسائل سے متعلق بھی آگاہی دی جاتی ہے ۔اور
اس عظیم کام میں جناب کرنل محمد حیات کی اہلیہ محترمہ جوکہ ایک مسیحا اور
ایک محافظ وطن کی ماں ہیں ۔کی سرکردگی میں ووکیشنل سنٹرکامیابی کی منازل طے
کررہا ہے ۔اور اب تک تین شش ماہی تربیتی دورانیے مکمل کرلئے گئے ۔ جبکہ
موجودہ دورانیہ اختتام پذیرہوچکا ہے جس میں تربیت حاصل کرنیوالی خواتین
کوایک پُروقار تقریب کے دوران 25جون کو اسناددی جائینگی ۔کرنل محمد حیات
صاحب نے کشمیری کڑھائی کیلئے مذید مکانیت کرایہ پرلے رکھی ہے ۔تاکہ خواتین
کو وہ ساری مصنوعات بھی سیکھائی جاسکیں ،جوکہ کشمیری ثقافت کا نمونہ ہیں ۔
آزادکشمیرمیں المصطفیٰ میڈیکل سنٹرکا قیام:
اس حوالے سے جب بھی تذکرہ آئیگاعسکری تاریخ اور ہمارے سماج میں عزت و
احترام کے حامل کرنل محمد حیات کوفراموش نہیں کیا جاسکتا ۔کہ یہ وہ ہستی
ہیں ۔جنہوں نے عسکری زندگی کے بعد اپنے خاندان کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے
اپنے دل و دماغ میں موجود ’’خدمت انسانی‘‘کی خواہش کے زیراثرکچھ کرنے کی
سوچ نے اپنی قیمتی اراضی فلاحی مقصدکے لئے’’میڈیکل سنٹرکی تعمیرکیلئے عطیہ
کردی ۔کرنل صاحب کی اچھی ساکھ اور نیک نامی نے مفادعامہ کے منصوبے کا راستہ
ہموارکیا ۔اس طرح پاک فوج کے غازیان جنرل احسن محمود،برگیڈئیرخلیق
الرشیدکیانی ،کرنل شیرمحمد ( بعد ازاں مرحوم)نے ایک عالیشان تین منزل عمارت
بنانے کا اہتمام کیا ۔جسکے پراجیکٹ ڈائریکٹر /ٹرسٹی کرنل محمدحیات ہیں ۔یہاں
یہ امرقابل ذکر ہے کہ کرنل شیرمحمد مرحوم نے عمارت بنانے میں بہت معاون رہے
۔بلکہ اپنی وفات سے ایک ہفتہ پہلے المصطفیٰ میڈیکل سنٹرکیلئے ہیوی ڈیوٹی
جنریٹربھی عطیہ کیا ۔اِسی طرح کرنل صاحب کے ایک پڑوسی (ر) صوبیدارمیجرمحمد
فیروز خان کرحوم کے بیٹے شبیرفیروزنے اپنے ایصال ثواب کیلئے ڈیٹنل شعبہ کے
استعمال کیلئے’’ڈینٹل چیئر‘‘فراہم کی ۔ ایکسرے کا اولڈسسٹم کو اپ گریڈ کرنے
میں جہلم کے ایک انجینئرجناب گلفام کی جانب سے عطیہ کیاگیاسامان کام آیا
جوکہ میڈیکل سنٹرمیں استعمال نہیں ہورہا تھا ۔اور زیادہ ضرورت ایکسرے مشین
کواَ پ گریڈ کرنے کی تھی ۔ اس طرح گلفام صاحب کا عطیہ کردہ سامان مارکیٹ
میں وئیرہاؤس کو دیکر نیا ڈیجٹل سی آر سسٹم ساڑھے بارہ لاکھ روپے مالیتی
خریدکرانسٹال کیا گیا ہے ۔
المصطفیٰ میڈیکل ٹرسٹ ہویا المجتبیٰ ایجوکیشن ٹرسٹ ،ووکیشنل
سنٹر۔۔۔مفادعامہ کے ان اداروں کیلئے وسائل مہیا کرنیوالے لوگوں کا
کرداردوسروں کے لئے قابل تقلید اور لائق تحسین ہے،بِلاشُبہ ۔یہی لوگ ’’نفسا
نفسی کے دور‘‘میں انسانیت کے باقی ہونے کا اعلان بھی ہیں ۔ایسے لوگ اپنی
خدمات کا کسی قسم کا کوئی صلہ نہیں مانگتے۔نہ ہی خودنمائی کے خواہاں ہوتے
ہیں ۔بلکہ اﷲ کی رضاکے طلبگارہیں ۔یہ عظیم لوگ آج بھی حسب سابق روزانہ کی
بنیاد پر سر گرم رہتے ہیں ۔ملک بھرمیں جہاں بھی کوئی خدمت شروع ہوئی ۔اۃسے
جاری رکھنے کیساتھ ساتھ ’’المصطفیٰ میڈیکل سنٹرریڑہ باغ کی فعالیت میں
کردارادا کررہے ہیں لیکن مقامی سطع پرخدمت انسانی کے عمل میں شریک ہونے کی
گنجائش باقی ہے۔یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ المصطفیٰ ٹرسٹ میں موجود ہرمعاون
/ٹرسٹی والنٹیئرکے طورپرخدمات انجام دیتا ہے ۔البتہ ایک لیڈی ڈاکٹر سمیت
دیگرسٹاف کوتنخواہیں اورادوویات سمیت ماہانہ تقریباََ6لاکھ روپے کے اخراجات
المصطفیٰ ٹرسٹ‘‘دیتاہے ۔جبکہ مذیدایک لیڈی ڈاکٹرکی تنخواہ کراچی سے تعلق
رکھنے والے ایک ٹرسٹی حافظ محمد طارق دوائی والا دیتے ہیں ۔اس حوالے سے ایک
دلچسپ واقعہ یہاں بیان کرنا ناگزریرہے۔کرنل محمد حیات صاحب بتاتے ہیں کہ
ایک دن محمد احمد دوائی والا باغ میں ایک ادارہ آغوش کے وزٹ کیلئے آئے تو
مجھ سے رابطہ کرکے ریڑہ آنے کی خواہش ظاہرکی ۔جسکے بعد وہ آئے اور میڈیکل
سنٹرکا وزٹ کرتے ہوئے علاج و معالجہ سے متعلق بات چیت میں کہنے لگے۔کرنل
صاحب آپ مذیدایک لیڈی ڈاکٹرکی خدمات حاصل کریں جسکی تنخواہ میں دونگا۔اور
وہ واپس چلے گئے۔۔کچھ دنوں بعد اطلاع ملی کے محمد احمد دوائی والا وفات
پاگئے ہیں ۔لہذا میں نے سوچا اب لیڈی ڈاکٹرکا معاملہ رہنے دیتا ہوں ۔تاہم
کچھ وقت کے بعد ایک کال آئی اور مرحوم کے فرزند نے پوچھا کہ میرے والد نے
آپ سے کیا وعدہ کیا تھا ’’کرنل صاحب نے بتایا کہ مرحوم محمد احمد دوائی
والا نے اپنی جانب سے تنخواہ پر مذیدایک لیڈی ڈاکٹرکی خدمات لینے کا کہا
تھا ‘‘مرحوم کے فرزند نے بتایا کہ ابوبول نہیں سکتے تھے ۔اس لئے مرتے وقت
کاٖغذپنسل منواکرآپکا نمبرلکھااور مذید صرف Promise لکھ پائے۔بات سننے کے
بعد حافظ محمد طارق دوائی والانے کہا کہ میں ایک لاکھ روپے بھیج رہا ہوں ۔آپ
لیڈی ڈاکٹرکا انتظام کرلیں ۔تب سے ہرماہ تسلسل سے ایک لاکھ روپے آتے ہیں ۔جوکہ
اضافی بچ جانیوالے پیسوں سے اضافی طورپرکام کرنیوالوں کو تنخواہ دی جاتی
ہے۔کرنل صاحب بتارہے تھے میں نے حافظ محمد طارق صاحب کو کئی بار وزٹ کا کہا
کہ آپ ہرماہ لاکھ روپیہ بھیج دیتے ہیں مگرخود ابھی تک المصطفیٰ میڈیکل
سنٹرکے وزٹ کیلئے نہیں آئے ۔اس طرح میرے اصرار پراُنھوں نے وزٹ بھی کیا ۔اورادارہ
کی خدمات کوسراہا۔
فکر انگیزبات:کرنل محمد حیات کہتے ہیں ۔عید الفطرپرمیرے بیٹے بیٹیاں سبھی
آئے ہوئے تھے ۔تب میں نے اُنھیں کہا ہے کہ ایک دن ہوگا جب آپکو اطلاع ملے
گی ،ابو فوت ہوگئے ہیں آپ آؤ گے ۔مگریاد رکھنااگلے روز ہسپتال سمیت کوئی
ادارہ بند نہیں ہونا چاہیے ۔کہنے لگے۔میری بچوں کی بہت اچھی تربیت ہوئی ہے
،اِنھیں اپنے رشتوں سے گہرا لگاؤ ہے ۔معاشرہ کیلئے بھی مثبت سوچ رکھتے ہیں
۔لیکن زندگی کی دوڑمیں سبھی کیلئے وقت نکالنا مشکل ہوجاتا ہے ۔مگر ایک بیٹی
سبھی بھائی ،بہن کے حصے کی ذمہ داری نبھائے گی۔
مال اوراولادکو فتنہ سے تعبیرکیا گیا ہے ۔کلام الہی کے اس نکتہ کو سمجھنے
سے حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ مال اور اولاد’’فتنہ‘‘کیسے ہوسکتے ہیں؟؟میری
دانست میں اﷲ رب العزت کی جانب سے حضرت انسان کو مال ملے ،یا اولاد ۔انکے
معاملہ میں بہت احتیاط کی ضرروت ہوتی ہے ۔اگر انسان ’’مال ‘‘کو جائز ذریعے
سے کمائے ،اور وراثت میں مل جائے تو اُسے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھنا
چاہیے ۔کہ مال اُتنا ہی کافی ہے جس سے ’’عزت و آبرو کی زندگی بسرہو۔باقی
ماندہ اﷲ رب العزت سے تجارت کرتے ہوئے ایسے اُمور پرخرچ کیا جائے ۔جنکی
بدولت خلق خدا کی زندگیاں آسان ہوں ،اس طرح ناصرف مال میں برکت ہوگی ،بلکہ
وہ فتنہ نہیں ،رحمت بن کر رضاالہی کا ذریعہ بن جائیگا ۔مثلاَ۔ایک مخیرانسان
،کسی غریب مسکین انسان کی زندگی بچانے کیلئے کوئی سبیل کرے اور جسکی
مددکررہا ہے ،وہ اگرنم آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھ کراپنے دل میں بھی
’’مددگار‘‘بننے والے کے حق میں کوئی دعا کریگا تو ’’رب کریم لازمی قبول
فرماتا ہے ۔آج کے دورمیں عام آدمی کو جینا مشکل اور مرنا آسان
لگتاہے۔کیونکہ دولت مندی کے ناجائزذرائع نے اسکی تقسیم کو ظلم کی حدتک
’’غیرمنصفانہ ‘‘بنادیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سرمایہ والا روزبروز امیرتر ہو
رہا ہے ۔اور غریب ،دووقت کی روٹی کی فکر میں مُبتلاہے ۔اگرریاست، اسلام کے
دئیے ہوئے مالیاتی نظام کیمطابق اُمورکو انجام دے ۔اورسکے تنخواہ
دار/مراعات یافتہ لوگوں کیلئے غیرضروری ’’کروفر‘‘لائف سٹائل ممنوع بنادیا
جائے تو اس طرح بھی غیرترقیاتی اخراجات میں کمی کرکے ریاست کے کم آمدنی
والے طبقہ ،غربا و مساکین پرخرچ کرنے کیساتھ ساتھ صاحب ثروت حضرات کے تعاون
سے غربا ومساکین کی زندگیاں آسان بنانے پرتوجہ دینے کو ترجیحات میں شامل
کرلیا جائے تو اجتماعی سطع پرایک انقلابی نقشہ سامنے آسکتا ہے ۔جہاں عبادات
الہیہ معبود حقیقی کی خوشنودی کا ذریعہ ہیں ۔ وہیں معبودحقیقی ’’اپنی مخلوق
کیساتھ اچھائی کرنیوالوں کاعمل پسند فرماتاہے۔اوریہی عمل ’’خدمت خلق ‘‘ہے
۔جسے افضل ترین عبادت کا درجہ حاصل ہے ۔دُنیا میں اُڑنے والی ،پانیوں میں
تیرنے والی اور زمین پرموجود مخلوقات کے مفادمیں ہررنگ ،نسل ملک و علاقہ
میں لوگ سرگرم رہتے ہیں ۔اور بِلاشُبہ اُن سب کا مقصد نیک ہوتا ہے ۔لیکن
اُنھیں اپنے اچھے کاموں کا بدلہ یہیں دُنیا میں ملنا ہوتا ہے ۔جبکہ مسلمان
کلمہ گوؤں کو اپنے ہرنیک کام کابدلہ مختلف شکلوں میں یہاں دُنیا میں بھی
ملتا ہے ۔اور آخرت میں زیادہ ملے گا۔روایات میں واردہوا ہے ’’اﷲ رب العزت
کے نزدیک سب سے زیادہ مقبول اعمال ’’بھوکے کو کھانا کھلانا اور دوسروں کی
خیرخواہی چاہنا ہے‘‘
قارئن!انسانی زندگی آسان بنانا بہت عظیم عمل ہے ۔جسکی رب العزت کے ہاں
قبولیت یقینی ہے ۔اور وہ بھی اس حوالے سے ۔کہ آپ خیرکے کاموں میں شریک رہیں
۔ مگر نمودو نمائش سے بھی گریز کرتے رہیں ۔بہرحال یہ تو اﷲ کا بھی حکم ہے
کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو،نیکی کے کام کی
اگرتعریف کی جائے تو اسکی آسان سی تعریف یہی بنتی ہے ’’ہروہ کام جو مخلوق
خداکے فائدے کیلئے انجام دیا جائے وہ نیکی یعنی خیرہے ۔فی زمانہ جب ہرطرف
نفع و نقصان ،نیکی اور بدی کے معیارہی بدلتے جا رہے ہیں ۔اور عمومی مزاج سے
یوں لگتا ہے جیسے ’’مرنا کسی نے نہیں ‘‘بلکہ یہیں اس دُنیا میں رہنا ہے جو
دُنیاکیلئے اتنی محنت ہورہی ہے ۔ایسے میں اگرکوئی اجتماعی مفادمیں کوئی
خدمت انجام دینے کی نیت رکھتا ہوتو معلوم ہونے پراُسکی حوصلہ افزائی کرنی
چاہیے ۔اور اگرکوئی انجام دے رہا ہوتو اُسکے عمل کو چھپانے کے بجائے دوسروں
کو ’’ترغیب د ینے کی نیت سے ‘‘اُجاگرکرنا مستحسن عمل ہوگا۔ چنانچہ اِسی سوچ
کیساتھ کوشش ہے کہ اُن کرداروں کو بطور مثال پیش کیا جائے ۔جنہیں رب کریم
نے ناصرف بہت کچھ دیا ہوا ہے ،بلکہ اُنھیں مفادعامہ کے کاموں کیلئے دامے
درمے ،سخنے قدمے خرچ کرنے کی توفیقات بھی حاصل ہے ۔۔ ۔ ۔۔دعاہے کہ جولوگ
رضائے الہیٰ کی خاطردوسروں کی زندگیاں بچانے اور آسان بنانے کیلئے کوشاں
ہیں ۔وُن کو اﷲ رب العزت اجرعظیم عطافرمائے ۔اور ہم میں سے ہرایک کو توفیق
دے کہ دُنیا پانے کی خواہش میں گم ہونے کے بجائے’’کسی امتیاز و تفرق کے
بغیر‘‘انسانوں کے کام آئیں۔اور ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کے لئے سامان
کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|