پولیس اور عوام کا ساتھ تقریبا24گھنٹے کا ہے یہ ساتھ
اتنا اچھا ہے کہ کسی بھی شہری سے آپ انکے متعلق پوچھ لیں تو حقیقت کھل کر
سامنے آجاتی ہے جن کا ابھی ان سے واسطہ نہیں پڑا وہ خوش نصیب ہیں اور جو ان
کے ساتھ مل چکے ہیں وہ شائد ہی دوبارہ کسی تھانے کا رخ کرینگے حکم کے غلام
یہ لوگ شائد پولیس میں آنے سے پہلے ایسے نہیں ہوتے ہونگے جیسے یہ بعد میں
بن جاتے ہیں اگر کوئی شخص اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ان کے پاس چلا گیا اور
اسکی سفارش نہ ہو اور اوپر سے کچھ دینے کو کوئی پیسہ بھی نہ ہو تو یہ اسے
ایسا تنگ کرتے ہیں کہ وہ بندہ اپنے سارے معاملات اﷲ پر چھوڑ دیتا ہے بے شک
وہی کار ساز اور سب سے بڑی طاقت ہے یہ کٹھ پتلیاں اسے کیا انصاف دلائیں گی
جو خود اپنی تعیناتیوں کے لیے سفارشیں ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں یہ وردی کے پیچھے
چھپے انسان نما درندے کسی کی کیا مدد کرینگے یہ تو خود ہر وقت اپنی نوکری
بچانے کے لیے کسی کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں یہ کیا کسی کی بات
سنیں گے کیونکہ انہوں نے لاہور سے باہر نہ جانے کی قسم کھا رکھی ہے ایک ہی
جگہ پر عرصہ دراز سے تعینات رہنے والے میں کوئی تو خاص خوبی ہوگی ورنہ تو
یہاں حساب کتاب برابر نہ ہو تو دوسرے دن ہی بستر لپیٹ دیا جاتا ہے اس و وقت
لاہور میں 84پولیس اسٹیشن35سرکل اور 6ڈویژن پر مشتمل لاہور پولیس کام کر
رہی ہے پورے لاہور میں منشیات فروخت ہو رہی ہیں سیف سٹی کے کیمروں کے
باوجود موٹر سائیکل چوری ہورہے ہاتھوں سے موبائل چھین لیے جاتے ہیں کاروائی
صرف ان پر ہوتی ہے جنکی سفارش تگڑی ہو عام آدمی تو تھانے میں درخواست دینے
سے پرچہ کٹوانے تک رل جاتا ہے یہ ہے صوبائی دارالحکومت لاہور کا منظر نامہ
اگر ہم لاہور پولیس کا مقابلہ پنجاب پولیس سے کرینگے تو کیا کیا حیرت کے
پہاڑ ٹوٹیں گے شائد کسی کو اندازہ نہیں کیونکہ پنجاب سے باہر تو حالات ہی
خراب ہیں وہاں پر نہ تو حمزہ شہباز ہے اور نہ ہی آئی جی وہاں پر تو ایس ایچ
او ہی آئی جی ہے اور ڈی پی او وزیر اعلی جیسے لاہور میں رہتے ہوئے یہ دونوں
کسی نہیں ملتے اسی طرح دور دراز کے علاقوں میں یہ دونوں بھی عام لوگوں سے
ملنے سے کتراتے ہیں ان کی بات پھر کبھی ابھی تو صرف تخت لاہور کو دیکھیں کہ
یہاں پر سفارشی تعینات ہونے والے کیسے عام آدمی کی عزت نفس مجروع کرتے ہیں
لاہور کا علاقہ جہاں کینٹ کی حدود شروع ہوتی ہے ایک طرف وہ لوگ ہیں جو بلڈی
سولین ہیں تو دوسری طرف صاف ستھرے لوگ رہتے ہیں ان کے درمیان میں تھانہ
شمالی چھاؤنی ہے جہاں عامر مسیح کو تشدد کے بعد مار دیا گیا تھا اسی تھانے
کی ایک درخواست آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کرونگا جہاں سائل کو چکر پہ چکر لگوا
کر تنگ کیا جارہا ہے کہ شائد وہ بھاگ جائے مگر پہلے پولیس نظام پر چکھ بات
کرلیں تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے ۔مغلیہ دور میں پولیس کا نظام زمین کی
بنیاد پر ترتیب دیا گیا تھا تاکہ زمیندار عوامی امن کے مجرموں کو پکڑنے اور
پولیس مدد کرنے کا ذمہ دار ہوتا تھا بڑے شہروں میں پولیس ملازم اورکوتوال
نام کے افسران جو قانون نافذ کرنے کمیونٹی ایڈمنسٹریشن اور ریونیو اکٹھا
کرنے کے مشترکہ کام سر انجام دیتے تھے دیہاتوں اور برادریوں میں گاؤں کے
محافظوں یا چوکیداروں کی شکل میں گشتی افسر ہوتے ہیں شہر میں گھوڑوں پر
مشتمل گشت وغیرہ ہوتی تھی جبکہ پرتشدد منظم جرائم کو عام طور پر فوج ہینڈل
کرتی تھی پولیس کا جدید نظام برطانوی دور حکومت میں متعارف کرایا گیا
برطانوی حکومت نے زمیندار کو پولیس سروس کی ذمہ داری سے آزاد کر دیا اور
پولیس کے مقاصد کے لیے جج (مجسٹریٹ) کو داروغوں اور دیگر ماتحتوں سے متعارف
کرایا پنجاب پولیس بھی دو اہم شاخوں کی تقلید کرتی ہے - ملٹری پریونٹیو
پولیس اور سویلین جاسوس پولیس چونکہ یہ انتظامات غیر تسلی بخش تھے برطانوی
ہندوستانی حکومت نے 1860 میں پنجاب حکومت سے صوبے میں رائج پولیس نظام پر
غور کرنے کو کہا کیونکہ یہ معاملہ عوامی تشویش کا باعث بن گیا مرکزی حکومت
نے برطانوی ہندوستان میں پولیس کے تمام معاملات کی تحقیقات کے لیے ایک
کمیشن تشکیل دیا۔1860 میں کلکتہ پولیس کمیشن نے پولیس سے فوجی ہتھیاروں کو
ہٹانے صوبائی پولیس چیف انسپکٹر کی تقرری اور ضلع نگران کے تحت ایک ضلع میں
پولیس کی تعیناتی کی سفارش کی کمیشن نے صرف یہ بھی سفارش کی کہ ضلعی جج (مجسٹریٹ)
پولیس کے فرائض انجام دیں کمیٹی کی سفارش پر حکومت ہند نے ایک قانون متعارف
کرایا جو کہ قانون V کے نام سے 1861ء کا پولیس ایکٹ کا حصہ ہے جسکا مسودہ
آج تک محفوظ ہے۔1933 کے پنجاب پولیس ریگولیشنز نے اس وقت پولیس کے طریقوں
کو دستاویزی شکل دی اور پولیس کی انتظامی اور آپریشنل کارکردگی کو بڑھانے
کے لیے کئی نئے اقدامات متعارف کروائے 1934 تک پنجاب پولیس صوبے میں جرائم
اور مجرموں کے بارے میں وسیع معلومات کے ساتھ ایک مکمل طور پر پیشہ ور
پولیس تنظیم بن چکی تھی اس نے مختلف قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں سے نمٹنے کے
لیے موثر طریقہ کار تیار کیا انتظامی اور تادیبی افعال بھی تیار کیے گئے
ہیں ان ضوابط نے پاکستان کے دیگر صوبوں میں اسی طرح کے قوانین کے نمونے کے
طور پر کام کیا اور آج بھی نافذ العمل ہیں پنجاب پولیس نے 1947 میں مہاجرین
کے بحران سے نمٹنے میں بھی اہم کردار ادا کیا یہ ایک علیحدہ تنظیم کے طور
پر 1955 تک جاری رہی جب اسے دوسرے صوبوں کی پولیس کے ساتھ ملا کر مغربی
پاکستان پولیس بنائی گئی اسکے پہلے ڈی آئی جی ویسٹ پاکستان عنایت علی شاہ
تھے ڈی آئی جی ایسٹ پاکستان اور ڈی آئی جی ویسٹ پاکستان ایک آئی جی کو
رپورٹ کرتے تھے جو 1950 کی دہائی تک قربان علی خان آئی جی تھے۔1950 اور 60
کی دہائیوں کے دوران پولیس کی تنظیم اور کارکردگی کا جائزہ لینے اور اس میں
اصلاحات کی کئی کوششیں کی گئیں لیکن ان پر عمل نہیں ہو سکا پاکستان میں
پولیس کے قانونی ڈھانچے میں 2001سے2006 تک پاور پلان کی منتقلی کے نتیجے
میں بڑی تبدیلی آئی اس منصوبے میں صوبائی حکومت کے اختیارات اور افعال کا
ایک بڑا حصہ اضلاع میں منتقل کرنے اور عوام کے تعارف کے لیے فراہم کیا گیا
تھا نئے پولیس قانون پولیس آرڈر نے 2002 میں پولیس ایکٹ 1861 کی جگہ لے لی
اس نے پولیس کی تنظیم میں زبردست تبدیلیاں کیں نئے قانون نے ضلعی، صوبائی
اور قومی سطح پر پبلک سیفٹی کمیشن کی شکل میں عوامی احتساب کو متعارف کرایا
پولیس آرڈر 2002 نے ایک آزاد پولیس شکایات اتھارٹی فراہم کی انسپکٹر جنرل
آف پولیس کی خود مختاری میں اضافہ کیا اور تفتیش کو پولیس کے دیگر کاموں سے
الگ کرکے فنکشنل اسپیشلائزیشن کا آغاز کیابعد میں عوامی نفرت کو کم کرنے کے
لیے پولیس کی کالی وردی کو بھی تبدیل کیا گیا مگر پولیس بدلی اور نہ ہی
انکا رویہ تبدیل ہوا آخر میں بزرگ شہری کی وہ درخواست بھی شامل کررہا ہوں
جو اس نے ایس ایچ او تھانہ شمالی چھاؤنی کے رویہ کے خلاف مجبورا ایس پی کو
دی ہے اب دیکھتے ہیں کہ یہ براہ راست بھرتی ہونے والے نوجوان عوام بلخصوص
بوڑھوں کا کتنا درد اپنے اندر رکھتے ہیں۔ بخدمت جناب ایس پی صاحب کینٹ
لاہور جناب عالی گزارش ہے کہ سائل عمر رسیدہ 85 سال کا بزرگ شہری ہے میری
وراثتی پراپرٹی میں 2 عدد دوکانوں پر کرایہ دار نے جعلی کرایہ نامے سال
2020 کے تیار کرکے ان کی فوٹو کاپیوں کو بطور شہادت تھانہ شمالی چھاونی میں
افسران کے سامنے پیش کر رہا ہے اصل اشٹام پیپر کو چھپا رہا ہے اسی طرح
پولیس افسر سیف اﷲ مسلسل 20 روز سے ملزمان سے ساز باز کرکے سال 2022 کے
کاغذات کی فوٹو کاپیاں ملزمان سے لے کر افسران کو دیکھا کر گمراہ کر رہا ے
جبکہ ملزمان سال 2020 میں جرم کر چکے ہیں میری درخواست میں اشٹام فروش کا
ذکر ہے اشٹام فروش نے سیریل نمبر کے مطابق 2 عدد اشٹام کرایہ دار انور کو
سال 2020 میں جاری کیے بعدازاں ملزمان نے 3 عدد جعلی کرایہ نامے تیار کر کے
لیگل اداروں میں پیش کیے اسی طرح جعلی اشٹام پیپر میں فریق دوم کا جو حوالہ
دیا گیا ہے وہ لوگ 2020سال میں پاکستان میں ہی نہیں تھے اپ سے التماس ہے
اشٹام فروش کا ریکارڈ سال 2020 چیک کرنے کیلیے میرا مقدمہ درج کرنے کا حکم
صادر فرمادیں عین نوازش ہو گی ۔سائل سید غلام محمد ساکن خیبر کالونی لاہور
کینٹ۔
|