ہر دوراس عہدکے شہنشاہوں ،فوجی آمروں اورمنتخب
حکمرانوں کے اچھے یا برے اقدامات سے یاد رکھاجاتا ہے۔جس کے نتیجے میں
شہریوں کو ریلیف یا بے سکونی ملتی ہے، بزرگ کہتے ہیں کہ کئی زمانے قبل گھر
کاسربراہ کماتا اور پوری فیملی کو پالتا تھا،اس کے بچے تعلیم بھی حاصل کرتے
اور وہ اپنی آمدن میں سے اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خیرات بھی کرتا۔ہمسایوں کا
خیال رکھا جاتا اور اگر گاؤں میں کوئی غریب یا کم آمدن والے لوگ رہتے تو ان
کی ضروریات کو مل جل کر حل کیا جاتا۔ وقت گزرتا گیا، اقتدار کی رسی
حکمرانوں کے ہاتھوں سے دوسروں میں منتقل ہوتی گئی، وقت پر بہتر فیصلے نہ
کرنے کی وجہ سے مہنگائی پیدا ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ عفریت کا روپ دھار
گئی، اور پھر سارے گھر والے کمائیں تب بھی گھر کا چولہا جلانا مشکل ہو گیا
ہے۔ چند دہائیوں سے کنزیومر فنانسنگ سے پیسے کی ریل پیل ہوئی اور لوگوں کی
حالت زندگی میں بدلاؤ آنے سے اخلاقی اقدار دور کہیں پیچھے رہ گئیں اورپیسے
کی دوڑ میں سب ایک دوسرے سے آگے نکلنے لگے۔وقت گزرنے کے ساتھ موبائل ہماری
زندگی میں مہمان کی طرح داخل ہوا اور پھر ہمیں اتنا مصروف کر گیا کہ کسی
غریب کی آہ ، سڑک پر ہوتاایکسیڈنٹ ،،، ہم موبائل کے ذریعے ہی اس کی مزاج
پرسی کرتے ہیں۔ یہی دورچلتے چلتے سوشل میڈیا تک آپہنچا ہے۔ معاشرے کی
برائیاں اور اچھائیاں سب کچھ سوشل میڈیا پر پہلی انفارمیشن کے طور پر اپ
لوڈ کر دی جاتی ہیں۔ جس پر لوگ اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں، گوکہ ایک دوسرے
کے ساتھ جڑے رہنے کا ذریعہ سوشل میڈیا ہی ہے لیکن اس سے انسانوں کے درمیان
پیدا ہونے والی دوریاں شائد کئی برسوں تک کم نہ ہو سکیں۔انسانوں کی
کھوپڑیوں کی قیمت پر سائنس ترقی کر رہی ہے،،، کئی صدیاں قبل سائنس انسانی
کی بہتری کیلئے ترقی کرتی تھی لیکن پھر حالات بدل گئے اور دولت کی حرص نے
انسانوں کو ترنوالہ بنانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔یہی وجہ ہے دنیا کے
زیادہ تر ملکوں میں غربت اپنے عروج پر ہے، لوگ روٹی کی خاطر اپنی عزت تک
نیلام کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔
بقو ل شاعر!!!
جس بستی میں ہم بستے ہیں
روٹی مہنگی، غم سستے ہیں
ساغر صدیقی صاحب کا یہ شعر اس قدر متاثر کرتا ہے کہ کوئی بھی شخص اس پر
سوچنے پر مجبور ہوجائے اس معاشرے میں ہر طرف غریب طبقہ ہمیں غموں میں پسا
نظر آئے گا۔خداداد مملکت پاکستان میں بھی مہنگائی کے حالات اس قدر برے ہو
چکے ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو پڑھا نے کی بجائے غیرنصابی سر گرمیوں میں حصہ
لینے سے بھی روکتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب گھر میں کھانے کو دو وقت کی
روٹی میسر نہیں تو وہ اپنے بچوں کی غیرنصابی سرگرمیوں کو کیسے سپورٹ کریں۔
ایسے مشکل وقت میں حکومت وقت کو چاہیئے کہ نوجوان نسل کو بے راہ روی،منشیات
کے عادی یا جرائم سے دور رکھنے کیلئے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرے تاکہ وہ
باعزت روزگار کماکر اپنے خاندان کو پال سکیں۔ ویسے تو ہر دور ہی مشکل دور
رہا ہے لیکن موجودہ دور شائد تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا کیونکہ
جو اقتدار مہنگائی کے نام پر حاصل کیا گیا اس اقتدار کو ملتے ہی مہنگائی کا
پارہ عروج پر پہنچا دیا گیا، اگر حالات ایسے ہی رہے تو معاشرے میں سدھار کی
بجائے مزید بگاڑ پیداہوگا جس کوہماری آئندہ نسلیں بھگتیں گی۔
|