ابھی حال ہی میں دنیا بھر میں گیارہ جولائی "عالمی یوم
آبادی" کے طور پر منایا گیا ہے۔اقوام متحدہ کے تخمینہ کے مطابق رواں سال
نومبر تک عالمی آبادی 8 بلین تک پہنچ جائے گی جبکہ بھارت 2023 میں چین کو
پیچھے چھوڑتے ہوئے سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ اقوام متحدہ کے
سکریٹری جنرل انتونیو گوئتریس نے دنیا کو پیغام دیتے ہوئے باور کروایا کہ
یہ ہمارے سیارے کی دیکھ بھال کی مشترکہ انسانی ذمہ داری کی یاد دہانی ہے
اور اس بات پر غور کرنے کا ایک لمحہ ہے کہ ہم آج بھی ایک دوسرے کے ساتھ کیے
گئے اپنے وعدوں سے کہیں پیچھے ہیں۔
عالمی آبادی کے امکانات 2022 رپورٹ کے مطابق،آبادی کی ترقیاتی شرح 1950 کے
بعد سے کم ترین سطح پر ہے، جو 2020 میں 1 فیصد سے کم پر آ چکی ہے۔ رپورٹ
میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی آبادی 2030 میں تقریباً 8.5 بلین اور 2050 میں
9.7 بلین تک بڑھ سکتی ہے اور 2080 کی دہائی کے دوران یہ تعداد 10.4 بلین تک
پہنچ سکتی ہے، جبکہ صحارا افریقہ کے ممالک 2050 تک اس اضافے میں نصف سے
زیادہ حصہ دار ہوں گے۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2050 تک نصف سے زیادہ متوقع
اضافہ آٹھ ممالک میں مرکوز کیا جائے گا جن میں پاکستان سمیت جمہوریہ کانگو،
مصر، ایتھوپیا، بھارت، نائیجیریا، فلپائن اور تنزانیہ شامل ہیں۔
ماہرین کے نزدیک آبادی میں تیزی سے اضافہ انسداد غربت، بھوک اور غذائی قلت
سے نمٹنے اور صحت اور تعلیم تک رسائی کے نظام کو مزید مشکلات سے دوچار کر
سکتا ہے ۔ اس کے برعکس، پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کی کوششیں بالخصوص
صحت، تعلیم ، صنفی مساوات وغیرہ میں بہتری فریٹلٹی کی شرح کو کم کرنے اور
عالمی آبادی میں اضافے کو سست کرنے میں معاون ثابت ہوں گی۔ شرح اموات میں
مزید کمی کے ساتھ 2050 میں اوسط عالمی طویل عمر تقریباً 77.2 سال ہونے کا
تخمینہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اسی طرح 65 اور اس سے زائد عمر کی عالمی آبادی کا
حصہ 2022 میں 10 فیصد سے بڑھ کر 2050 میں 16 فیصد ہو جائے گا۔اس ضمن میں
عمر رسیدہ آبادی والے ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے عوام دوست منصوبوں کو معمر
افراد کے بڑھتے ہوئے تناسب کے مطابق ڈھالنے کے لیے اقدامات کریں بشمول
سماجی تحفظ اور پنشن کے نظام کی پائیداری کو بہتر بنانا اور عالمی صحت کی
دیکھ بھال اور طویل مدتی نگہداشت کے نظام کو قائم کرنا ، اہم ترجیحات ہونی
چاہیے۔
چین جو اس وقت دنیا میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے یہاں چائنیز
مین لینڈ میں آبادی گزشتہ سال کے آخر تک بڑھ کر 1.4126 بلین ہو چکی ہے۔چین
کے قومی شماریات بیورو کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2020 کے مقابلے
میں آبادی کے تازہ ترین اعداد و شمار میں 480,000 کا اضافہ ہوا ہے۔ اس
آبادی میں ہانگ کانگ، مکاؤ اور تائیوان کے رہائشی اور ایسے غیر ملکی شامل
نہیں ہیں جو چائنیز مین لینڈ کے 31 صوبوں، خود اختیار علاقوں اور بلدیات
میں رہتے ہیں۔ چین میں شہری علاقوں میں رہنے والی آبادی 2021 کے آخر تک
914.25 ملین ہو چکی ہے، جو کہ مجموعی آبادی کا 64.72 فیصد ہے جبکہ دیہی
آبادی 498.35 ملین ہے۔ ملک میں 2021 میں 60 سال اور اس سے زیادہ عمر کی
آبادی 267.36 ملین تک پہنچ چکی ہے جو کہ قومی آبادی کا 18.9 فیصد ہے۔ان میں
سے 200.56 ملین 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد ہیں، جو کہ قومی آبادی
کا 14.2 فیصد بنتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چین میں معمر افراد کی فلاح و بہبود
اور دیکھ بھال پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
عوام کی صحت و سلامتی کے حوالے سے وضع کردہ عمدہ پالیسیوں کی بدولت چین میں
اوسط متوقع عمر 77.93 سال ہو چکی ہے۔ ملک میں صحت کے اہم اشاریے عالمی سطح
پر کئی متوسط اور بلند آمدنی والے ممالک سے بھی بہتر ہیں ، صحت کے فروغ کی
پالیسی کا نظام بنیادی طور پر قائم کیا گیا ہے ، صحت کے لیے خطرات کا باعث
بننے والے عوامل کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا گیا ہے ، ہیلتھ کیئر کی
صلاحیت کے پورے لائف سائیکل کو نمایاں طور پر بہتر کیا گیا ہے ، بڑے امراض
پر مؤثر طریقے سے قابو پایا گیا ہے جبکہ صحت اور تندرستی کی بہتری کے سلسلے
میں تمام لوگوں کی شرکت کی شرح مسلسل بلند ہوتی جارہی ہے ، یوں چین نے
بہبود آبادی کا ایک جامع نظام متعارف کروایا ہے جو نوزائیدہ بچوں سے لے کر
معمر افراد تک سب کا احاطہ کرتا ہے۔
|