کرہ ارض کی ساری رونقیں حیاتیاتی تنوع کے دم سے ہی ہیں
اور اسی نے انسانیت کی ترقی کی بنیاد بھی فراہم کی ہے۔ حیاتیاتی تنوع کا
تحفظ کرہ ارض کے تحفظ میں مدد گار ہے اور بنی نوع انسان کی پائیدار ترقی کا
ضامن بھی ہے۔ حیاتیاتی تہذیب انسانی تہذیب کی ترقی کا تاریخی رجحان ہے اور
فطرت کے وسیع ثمرات سے اُسی صورت میں مزید فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب
انسان اس کا تحفظ کرے گا ، بصورت دیگر انسانی بقا کو بھی چیلنجز درپیش آ
سکتے ہیں۔یہ امر خوش آئند ہے کہ ہر گزرتے لمحے دنیا میں انسانی ترقی اور
فطرت کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔اس ضمن
میں قدرتی وسائل کے تحفظ اور ترقی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
چین میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں نہ صرف حکومت بلکہ عوام بھی
قدرتی وسائل کے تحفظ میں اُسی قدر سنجیدہ ہیں اور اپنی حکومت کے شانہ بشانہ
فطرت سے ہم آہنگ ترقی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ چینی صدر شی جن پھنگ کا یہ تصور
کہ سر سبز پہاڑ سونے کے پہاڑ اور شفاف دریا چاندی کے دریا ہیں ، فطرت کے
تحفظ کی بنیاد پر انسانیت کی مستحکم معاشی اور سماجی ترقی کا عمدہ سبق ہے۔
اسی تصور کی روشنی میں ماحول دوست اقدامات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ابھی
حال ہی میں چین کے گوانگ چو شہر میں ساؤتھ چائنا نیشنل بوٹینیکل گارڈن کا
افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ بیجنگ کے قومی نباتاتی باغ کے بعد چین میں قائم ہونے
والا دوسرا قومی نباتاتی باغ ہے۔یہ امر غور طلب ہے کہ ساؤتھ چائنا نیشنل
بوٹینیکل گارڈن اس وقت دنیا کا سب سے بڑا جنوبی سب ٹراپیکل بوٹینیکل گارڈن
ہے اور چین میں نباتاتی تحقیق اور پودوں کے تحفظ کے قدیم ترین اداروں میں
سے ایک ہے۔ اس کا کل رقبہ 319 ہیکٹر ہے اور یہ بنیادی طور پر جنوبی چین میں
پائے جانے والے پودوں نیز دنیا کےٹراپیکل اور سب ٹراپیکل خطوں میں پائے
جانے والے پودوں کے تحفظ، سائنسی تحقیق اور ان سے متعلق معلومات کی ترسیل
کا کام کرتا ہے۔ٹراپیکل رین فارسٹ سے لے کر الپائن پودوں تک، مخصوص اور
نایاب پودوں سے لے کر صحرائی پودوں تک، ساؤتھ چائنا نیشنل بوٹینیکل گارڈن
میں پودوں کی 17,000 سے زیادہ انواع موجود ہیں۔ یہاں محفوظ کیے گئے پودوں
میں، نایاب اور معدومیت کے خطرے سے دوچار پودوں کی 643 اقسام اور اہم قومی
جنگلی نباتات کی 337 اقسام موجود ہیں۔
یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ چین دنیا کے ان ممالک میں سے ایک
ہےجو حیاتیاتی تنوع سے مالا مال ہیں۔ حیاتیاتی تنوع کے کنونشن پر دستخط
کرنے اور اس کی توثیق کرنے والے اولین فریقوں میں سے ایک کے طور پر ، چین
نے ہمیشہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو نمایاں اہمیت دی ہے اور چینی خصوصیات کے
حامل حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کا راستہ اختیار کیا ہے۔چین نے ہمیشہ کوشش کی
ہے کہ مادی ترقی اور فطرت کے تحفظ کو یکساں طور پر آگے بڑھایا جائے ، جس کا
مطلب یہ ہے کہ چین ہر گز اندھا دھند ترقی کا قائل نہیں ہے بلکہ ایسی ترقی
چاہتا ہے جس میں فطرت کے سبھی رنگ محفوظ ہوں ۔چین نے قومی پارکس کے قیام
اور ماحولیاتی تحفظ کی سرخ لکیر جیسے اہم اقدامات اپنائے ہیں ۔ اس کے علاوہ
حیاتیاتی ماحول کے معیار کو مسلسل بہتر بنانے اورحیاتیاتی تنوع کےتحفظ اور
سبز ترقی کو آگے بڑھانے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے
کہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے میدان میں چین کی نمایاں کامیابیوں کو عالمی
سطح پر نہ صرف سراہا گیا ہے بلکہ چین کے ماڈل کو قابل تقلید قرار دیا جاتا
ہے۔
یہ پہلو بھی قابل تقلید ہے کہ چین نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو اپنی قومی
حکمت عملی کا اہم جزو قرار دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اسے مختلف علاقوں کی طویل
المدتی منصوبہ بندی میں شامل کیا گیا ہے تاکہ تحفظ کی صلاحیت کو مسلسل بہتر
بنایا جا سکے ۔ گزشتہ دس سالوں سے چین سبز ترقی پر عمل پیرا ہے ، حیاتیاتی
تنوع اور ماحولیاتی تحفظ کے نظام میں روز بروز بہتری آتی جا رہی ہے ،
ریگولیٹری میکانزم کو مسلسل مضبوط کیا گیا ہے ، اور متعلقہ سرمایہ کاری میں
مسلسل اضافہ کیا گیا ہے ، جس سے حیاتیاتی تنوع کا تحفظ ایک نئے مرحلے میں
داخل ہو چکا ہے.تعجب انگیز بات یہ ہے کہ 2000 سے 2017 تک ، دنیا کے تقریباً
25 فیصد نئے سبز علاقے چین کی جانب سے ہی سامنے آئے ہیں ۔ چین میں جنگلات
کے حیاتیاتی نظام کے تحفظ اور بحالی کو فروغ ملا ہے۔ملک میں فارسٹ کاربن
اسٹوریج کا اٹھہتر فیصد قدرتی جنگلات سے ہے ۔جنگلات کے رقبے اور ریزروز میں
مسلسل تیس سال سے اضافہ جاری ہے۔ چین نے اپنے جنگلات کے رقبے کو 1980 کی
دہائی کے اوائل میں 12 فیصد کے مقابلے میں2020 تک 23.04 فیصد بڑھا دیا ہے
۔آج چین کے جنگلات کا ذخیرہ 17.56 بلین مکعب میٹر ہو چکا ہے۔ ویٹ لینڈز کی
بات کی جائے تو یہ بات قابل زکر ہے کہ چین کے پاس بین الاقوامی نوعیت کے کل
64 جبکہ قومی نوعیت کے 29 اور علاقائی نوعیت کے 1,001 ویٹ لینڈز موجود
ہیں۔چین بھر میں 600 سے زائد ویٹ لینڈ نیچر ریزروز اور 1,600 سے زائد ویٹ
لینڈ پارکس بھی قائم کیے گئے ہیں۔
یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ چین حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے شعبے میں بین
الاقوامی تعاون کا خواہاں ہے نیز اس شعبے کی ترقی کے لیے چینی دانش دوسروں
کے ساتھ بانٹنے کا خواہاں ہے تاکہ انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگ ترقی
کے لیے اپنا کردار ادا کیا جا سکے ۔چین کا موقف ہے کہ انسانیت اور فطرت کے
درمیان ہم آہنگ بقائے باہمی کی جستجو اور عالمی ماحولیاتی گورننس کو بہتر
بنانا ضروری ہے، چین اسی تصور کی روشنی میں عملی اقدامات پر عمل پیرا ہے۔
علاوہ ازیں ، چین کثیر الجہتی تعاون کے پلیٹ فارمز جیسے "بیلٹ اینڈ روڈ"
اور "جنوب جنوب تعاون" کے تحت ترقی پذیر ممالک کو حیاتیاتی تنوع کے تحفظ
اور کرہ ارض پر "زندگی کی ایک کمیونٹی" کی تعمیر میں بھی مدد فراہم کر رہا
ہے۔
|