کل سپریم کورٹ نوپور شرما کی حماقتوں کو لیکر کورٹ کے
فاصل جج نے نوپورشرماکو خوب کھراری سنائی۔سپریم کورٹ نے جوتبصرہ کیاہےاُس
تبصرے کو لیکر سوشیل میڈیااور خصوصاً مسلمانوں میں بڑےہی جوش و خروش کے
ساتھ بحث جاری ہے۔مسلمان سپریم کورٹ کے اس تبصرے کو لیکر بہت زیادہ خوش
ہوگئے ہیں ہمیشہ کی طرح۔کیونکہ ہمیشہ سے ہی مسلمان جڑ تک پہنچنے کے
بجائےپھول اور پتیوں کو دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں۔ملک کے بیشتر مسلم موافق
معاملات میں عدالتوں نے تبصرے بہت ہی خوبصورت کئے ہیں،دلیلوں اور حوالوں کو
بڑے ہی اچھے اندازمیں پیش کیاہے۔مثال کے طورپر بابری مسجد کا معاملہ لے لیں
جس میں عدالت نے کہاتھا کہ یقیناً اُس جگہ پر مسجدتھی اور یہ مسلمانوں کے
حق کی زمین ہے،لیکن یہ بھارت کے ہندوئوں کے عقیدے کا معاملہ ہے اس لئے اس
زمین کو ہم ہندوئوں کے حوالے کرتے ہیں،اسی طرح حال ہی میں کرناٹکا ہائی
کورٹ نے حجاب کےتعلق سےبھی ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ دلیلیں دی اور حجاب کی
فضیلت بھی بیان کردی،لیکن جب فیصلہ کرنے کا وقت آیاتو عدالت اپنی دلیلوں
سے مکر گئی۔اب اسی طرح سے نوپورشرماکے معاملے کو لیکر بھی عدالت نے
پھٹکارتو خوب لگائی ہے اور انہیں تمام معاملات کیلئے موردِ الزام
ٹھہرایاہے،لیکن عدالت نے دہلی پولیس کو سختی سے یہ نہیں کہاکہ نوپورشرما
کوجلدازجلد گرفتارکرتے ہوئے عدالتی تحویل میں بھیجاجائے۔صرف یہ کہاہے کہ
آپ نے ملزمہ کو کیوں نہیں گرفتارکیا۔اس سے یہ بات ظاہرہوئی ہے کہ پھر ایک
مرتبہ عدالت نے مسلمانوں کو مونگیری لال کے حسین سپنے دکھانےکی کوشش کی
ہے۔ایک طرف عدالت نے مسلمانوں کو خوش کردیاتو دوسری طرف مسلمان فُل خوش
ہوگئےاور جذبات آکر عدالت کے تبصرے کو سوشیل میڈیامیں ثواب جاریہ کے طو
رپر مسلسل شیئر کررہے ہیں۔درحقیقت مسلمانوں میںحق کیلئے آواز اٹھانے،لڑنے
اور جدوجہد کا معدہ بائلر مرغی کی طرح کمزور ہوچکاہے اور حکمت وصبرکے نام
پر آوازاٹھانے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ہاں کچھ لوگ احتجاج ضرور کررہے
ہیں،لیکن ان کااحتجاج بھی اب آن لائن ہوچکاہے جس میں ہزاروں کی بھیڑ جمنے
کا دعویٰ کیاجارہاہے۔کورونانے حق و باطل کی لڑائی لڑنے کا درس دیاتھا،لیکن
یہاں تو آن لائن کلاسس کی طرح آن لائن احتجاجات ہورہے ہیں اور وہ بھی
بلند واعلیٰ مرتبہ علماء کی جانب سے(سوری۔Sorry۔علماء کی
تنقیدکیلئے)۔مسلمانوں کو جذباتی ہونے کے بجائے کسی بھی معاملے کو دوراندیشی
کودیکھنے کی ضرورت ہے اور دوراندیشی کے سہارے ہی عمل کرنے کی اشد ضرورت
ہے۔اگر ایسا نہیں ہوتاہے تو ہر معاملہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائیگااور
مسلمان بعدمیں مذمت ہی مذمت کرتے رہے جائینگے۔
|