اگر معاشرے کے تلخ پہلوؤں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا ہرگز غلط نہ
ہوگا کہ احساس کی چکی میں آج بھی ایسا طبقہ مسلسل پس رہا ہے جس پر صرف اور
صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ ذریعہ معاش کی فکر اکثر و بیشتر ان تمام
احساسات سے محروم کر دیتی ہے جس کی توجہ کی ضرورت معاشرے میں بسنے والے ان
تمام تر افراد کو ضرور ہوتی ہے جو قدرتی طور پر خدا کی نوازی ہوئی مختلف
نعمتوں سے محروم ہیں۔
معاشرے کی ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کسی لڑکی کو اگر طلاق ہو جائے تو وہ
دنیا پر بوجھ تصور کی جانے لگتی ہے اس کے کانوں میں گونجنے والے طعنے اس
قدر سنگین صورتحال اختیار کر لیتے ہیں کہ وہ اپنی نئی زندگی میں رنگ بھرنے
سے قبل ہی خود کو بوجھ سمجھ کر دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جاتی ہے
انہی طعنوں کے خوف سے آج بھی حوا کی کئی بیٹیاں اپنی ساری زندگی ظلم و تشدد
برداشت کرنے کو ترجیح دیتی ہیں زمینی آقاؤں کی جانب سے کسی کے مقدر میں بے
اولادی کے طعنے لکھ دیے جاتے ہیں تو کسی کی نئے گھر آمد سے قبل ہی اس کے
قدموں کو نحوست قرار دے دیا جاتا ہے، ایسے میں جسمانی طور معذور اور بصارت
سے محروم افراد اس سماج پر کسی قدر بوجھ ہونگے اس کا اندازہ آپ بخوبی لگا
سکتے ہیں۔
عمومی طور پر جسمانی معذور افراد پھر بھی سرکاری کوٹے کے تحت مختص کی گئی
چند آسامیوں پر ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ بعض نجی
ادارے بھی انہیں ملازمت دینے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن”ریاست پاکستان میں
بینائی سے محروم افراد آج بھی انصاف کے منتظر دکھائی دیتے ہیں جنہیں نہ تو
کوئی ملازمت دیتا نہ ان کی منفرد صلاحیتوں کو کوئی سراہتا ہے نہ کوئی کندھا
دیکر دلاسہ دیتا ہے نہ ہی کوئی مستقبل میں اچھی ملازمت دینے کی امید دلاتا
ہے یہ کبھی عدالت کے دھکے کھاتے ہیں تو کبھی اقتدار کے ایوانوں میں آنے
والے ہر نئے حکمران سے امید لگاتے ہیں مگر ان کے حقوق سے متعلق عدلیہ کے
فیصلے بھی 21 لاکھ مقدمات کی طرح التوا کا شکار رہتے ہیں جبکہ اس طبقے کو
ریلیف دینے کے وعدے اور سبز باغ دکھا کر حکومت میں آنے والے جمہوریت کے
علمبردار بھی اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کر کے گھر کو لوٹ جاتے ہیں“.فریبی
سیاستدانوں کے کھوکلے دعوؤں سے گزشتہ 40 سالوں سے یہ تمام تر افراد نبرد
آزما ہوتے آ رہے ہیں یہ آج بھی کسی ایسے مسیحا کے منتظر دکھائی دیتے ہیں جو
انکے دکھوں کا مداوا کر سکے۔
معاشرے کی ستم ظریفی اور حکومت کی عدم توجہ کے باعث اس اندھیری دنیا کو
روشن کرنے کے لیے حالیہ دنوں کراچی کا ایک ایسا ادارہ ابھر کر سامنے آچکا
ہے جس نے ان تمام تر افراد کو زندگی بسر کرنے کے لیے امید کی نئی کرن
دکھائی ہے۔میں بات کر رہا ہوں یہاں ''بینائی ایجوکیشن فاؤنڈیشن'' کی جو کہ
نہ صرف ان تمام تر افراد کو باصلاحیت بنانے کے لیے بلا کسی معاوضہ کمپیوٹر
کے جدید کورسز کروا رہا ہے بلکہ انہیں ملازمت دلوانے میں بھی اپنا کلیدی
کردار ادا کر رہا ہے۔ اس ادارے کی سربراہی ثروت نسیم شاہ کر رہی ہیں جو
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، محترمہ بینظیر بھٹو،عاصمہ جہانگیر،ڈاکٹر رتھ
فاؤ اور بلقیس ایدھی جیسی بہادر خاتون کی طرح اپنا پوری زندگی پاکستانی قوم
کی خدمت کے لیے وقف کرنا چاہتی ہیں اور بینائی سے محروم افراد کو معاشرے
میں ان کے اصل حقوق دلانے کا عزم رکھتی ہیں۔ جب ان سے ملاقات کا شرف حاصل
ہوا تو اس دوران گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بینائی ایجوکیشن
فاؤنڈیشن کی کاوشوں سے اب تک بینائی سے محروم لاتعداد خواتین اور مرد حضرات
کمپیوٹر و دیگر جدید کورسز مکمل کر چکے ہیں جن کی تقسیم اسناد کی تقریب بھی
دیگر جامعات کی طرح باقاعدہ طور پر منعقد کروائی گئی تھی اور انہیں اسکل
ڈیولپمنٹ کونسل کراچی کی جانب سے سند دی گئی تھی.ہم بلا تفریق مختلف شہروں
میں بینائی سے محروم افراد کومعاوضے کے بغیر نہ صرف جدید کورسز کروا رہے
ہیں بلکہ انہیں کورس مکمل ہونے تک ہمارے آفس پہنچنے کے لیے فری پک اینڈ
ڈراپ کی سہولت بھی دے رہے ہیں یہ ادارہ بینائی سے محروم خواتین کو قرآن پاک
کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ سلائی،کڑھائی،کھانا پکانا،کٹنگ و دیگر کورسز
کروانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بینائی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی
کاشوں سے پورے پاکستان میں موجود بینائی سے محروم افراد کو آ ن لائن کلاسوں
کے ذریعے کے بھی با صلاحیت بنایا جا رہا ہے جبکہ نابینا افراد سے متعلق
خدمات کو دیکھتے ہوئے سندھ ٹیکنیکل ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ نے ہمارے کورسز اور
انسٹیٹیوٹ کورجسٹرڈ کر لیا ہے۔ یہ ادار ہ بینائی سے محروم بچوں کے لیے کھیل
کی سرگرمیوں کو بھی فروغ دے رہا ہے جس کے تحت یہاں مختلف کھیلوں کے مقابلوں
کا انعقاد باقاعدگی سے کروایا جاتا ہے میری پوری کوشش ہوتی ہے ملک کے مختلف
شہروں میں بینائی سے محروم افراد کو اچھی ملازمتیں ملنے کے ساتھ ساتھ
معاشرے میں ان کا اصل حق مل سکے تاکہ وہ با عزت روزگار کما کر اپنی اور
اپنی فیملی کی کفالت کر سکیں۔
اس ادارے کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس کے سی ای او سلمان الہیٰ ہیں جو
خود بینائی سے محروم ہیں اور وہ بینائی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تمام تر
انتظامات کو نہایت احسن طریقے سے سنبھال رہے ہیں۔اس وقت چاروں صوبوں کے مدِ
مقابل سندھ میں بڑے پیمانے پر بینائی سے محروم افراد کے لیے کام ہو رہا ہے
جس کابڑا کریڈٹ وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی صادق علی میمن کو جاتا ہے
حالیہ دنوں ان کی سربراہی میں بینائی سے محروم افراد کے لیے ڈی ای پی ڈی
ڈیپارٹمنٹ(DEPD)بھی کام کر رہا ہے جو ان تمام تر افراد کوبا صلاحیت بنانے
کی کوششوں میں مصروف ہے جنہیں معاشرے کے دہرے معیارنے تنہا زندگی بسر کرنے
پر مجبور کیا ہے۔
بینائی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سی ای او سلمان الہیٰ سے جب ملاقات ہوئی اور
ہم نے ذکر کیا کہ یہ نیک کام کرنے کا خیال انکے ذہن میں کیسے آیا تو انکے
چہرے پر ہلکی مسکراہٹ اور'' 2 منٹ'' سے منسوب ایک واقعے نے ہمارے سوال کا
جواب با آسانی دے دیا واقعہ کچھ یوں تھا”وہ فائنل امتحان کی تیاری میں
مشغول تھے اس دوران انہوں نے ساتھی طالبعلم کو سبق تیز آواز میں پڑھنے پر
زور دیا تاکہ وہ یاد کر سکیں جس پر اس نے انہیں دو منٹ انتظار کرنے اور کسی
کام سے واپس آنے سے آگاہ کیا مگر وہ دو منٹ آج تک مکمل نہیں ہوئے ہیں“ اس
واقعہ نے ان کی زندگی کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور پھراس دن انہوں نے یہ
عہدکیا ہے کہ وہ زندگی میں جو کرینگے خود اپنی مدد آپ کرینگے۔ بینائی سے
محروم سینکڑوں افراد ان کی نگرانی میں آئی ٹی کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ
ساتھ مختلف کورسز سیکھ کر نہ صرف اچھی ملازمتیں حاصل کر رہے ہیں بلکہ
بینک،اسکول،کال سینٹر و دیگر شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے
ہیں۔
بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ بینائی سے محروم افراد کی تعداد بھی تیزی سے
بڑھتی جا رہی ہے ایسے میں حکومت کو ضرورت اس بات کی ہے چاروں صوبوں میں ان
تمام تر افراد کے لیے سرکاری ملازمتوں کے کوٹے باقاعدہ طور پر مختص کیے
جائیں بلکہ ایسے جدید ٹریننگ سینٹر زکا جلد از جلد قیام عمل میں لایاجائے
جہاں ان تمام تر افراد کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کیا جاسکے۔
|