سستا ، شفاف اور فوری انصاف ہر معاشرے کی اولین خواہش
ہوتی ہے ، اگر چہ ہمارا نظام عدل اصلاح طلب ہے مگر ہمیں یہ فراموش نہیں
کرنا چاہیے کہ یہ سرمایہ دار نظام کا ایک جزو ہے ، اور اس لیے ہمارے یہاں
دیگر اجناس اور ضروریات ِ زندگی کی مانند عدل و انصاف حاصل کرنے پر بھی کچھ
نہ کچھ خرچا ضرور اٹھتا ہے۔ انصاف کے حصول کے لیے سوال کسی خاص صنف سے بھی
وابستہ نہیں بلکہ سوال امیر اور غریب کا ہے۔صنفی امتیاز کے معاشرے میں
عمومی طور پر عورت کو محتاج اور غریب سمجھا جاتا ہے ،اس لیے دروازہ عدل سے
گذرنا اُس کے لیے دشوار اور گراں ہوتا ہے۔ اصل بنیادی مسئلہ ہی معاشی اور
معاشرتی تحفظ کا ہے۔ یعنی کھائے کہاں سے اور جائے کہاں ۔ منجملہ دیگر وجوہ
کے ہماری خواتین کی مشکلات اور پریشانی کا باعث ایک ، اُن کی قانون سے عدم
واقفیت بھی ہے۔
عدل و انصاف گراں اور سخت یاب ہے ۔ عائلی مشکلات اور خواتین کی مظلومیت کو
دور کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کیا ہیں اس سے خواتین کی کثیر تعداد لاعلم
ہے۔ کورٹ فیس اور قانونی معاونت کے لیے ایسی خواتین کیا کریں جو عائلی نظام
کے حصار میں ہوں۔ خاندانی نظام میں عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے سب سے
پہلے خاندان کی اُن روایات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جو خاندان نے ’’معاشرہ
کیا کہے گا‘‘ کے نام سے مسلط کیا ہوا ہے۔ اس کے بعد علاقہ ہو یا معاشرہ ،
عورت کے لیے قدم قدم پر کانٹوں سے سجے ایسے راستے ہیں کہ جہاں قدم رکھے ،
وہاںزخم ملے۔ دوسری جانب تعلیم سے دوری اور جدید سہولیات سے ناواقفیت اور
قیود نے عورت کو ایک کونے میں دھکیل دیا ہے۔ عائلی عدالتوں میں دیوانی
عدالتوں کی طرح انصاف دیریاب ضرور ہے ، اگر پامردی ، ضرورت ایمانی اور خلوص
ِ نیت سے عورت کے تمام جائز حقوق دلوانے کے لیے عالیہ عدالتوں کی توجہ
مبذول ہو تو اس سے ایسی خواتین کو انصاف جلد مل سکتا ہے جنہیں ، طبقاتی
نظام کے تحت انا اور خود غرضی کی چکی میں پسا جارہا ہے۔
عورتوں کے مسائل میں ہماری زیادہ تر توجہ حق خلع اور تنسیخ نکاح جیسے
معاملات تک ہی محدود رہتی ہے، یہ تو ایک خاندان میں رہنے والے کسی بھی
ناچاقی کے بڑھ جانے پر حتمی فیصلے کے لیے عائلی عدالتوں کا رخ کرلیتے ہیں ،
جس میں عورت کی اپنی مرضی کا کتنا دخل ہوتا ہے ، اس پر مناسب تحقیق کی جائے
تو یہ امر سامنے آئے گا کہ خاندانی نظام میں سربراہان اور رشتے داروںکے
درمیان چپقلش اور تنازعات میں انا اور ضد کا حائل ہونے کی وجہ سے زوجین کی
علیحدگی کے معاملات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہاں راقم، ذکر دراصل اس معاملے کا
کرنا چاہتا ہے جہاں فرسودہ رسموں کی وجہ سے عورت کو وارثت میں ملنے والے
جائز حق سے محروم کئے جانے کے لیے مختلف طریقے اختیار کئے جاتے ہیں ،
ناقابل برداشت حالات میں کمزور عورت کی بے بسی کا تماشا بالعموم دیکھنے کو
ملتا ہے۔
عورت کے مسائل میں ایک مبینہ ناقابل برداشت حالات میں مجبور ہوجانا اور
لاچاری بھی قانونی غلط فہمی کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ
زیادہ تر مخالفت مردوں کی جانب سے ہی آتی ہے ، ہمارے معاشرے میں مردوں کی
حالت عجیب ہے ، جب ان کے سامنے عورتوں کے حقوق کا ذکر آئے تو ’ عورت ‘ سے
ان کا خیال صرف ’ بیوی ‘ کی طرف جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جو عورت ’ بیوی ‘
کی حیثیت سے مرد کی گرفت میں آچکی ہو ، مرد اس کے لیے حقوق کی تائید کیسے
کرے گا۔ عورت سے ان کا دھیان اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی طرف جاتا نہیں۔ مرد
عورت کے جذبہ کے نشے میں بدمست ہوکر ، کس طرح ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے، اس
کا اندازہ اس سے لگایئے کہ ہمارے ہاں اکثریت ان باپوں کی ہے جن کی بیٹیاں ،
دوسرے گھروں میں ، انہی مشکلات میں گرفتار ہیں اور ان کے غم میں خود باپ
بھی گھلتا رہتا ہے اور ہزار جتن کرتا ہے کہ اس دشوار گذار کیفیت سے چھٹکار
ا کی کوئی صورت پیدا ہوجائے لیکن جب انہی باپوں کے سامنے ، عورت کے عائلی
اور مالی حق سمیت جائیداد میں برابری کی بنیاد پر حصہ دینے کی بات آئے تو
وہ اس کی مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں ، خاندانی بائیکاٹ اور ہمیشہ کے لئے قطع
تعلق ، یہاں تک کہ رائج فرسودہ رسومات میں عورت کی زندگی کو برباد کرنے سے
بھی نہیں چوکتے۔
یہاں ان کا یہ رویہ ہوتا ہے کہ مخالفت اور شدید مخالفت کرتے ہیں لیکن جب
خود پر آئے تو مصیبتوں کا رونا رونے لگ جاتے ہیں۔ اب اس سے بڑی بے وقوفی
کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ خود توکچھ نہ دو ، لیکن لینے کے لیے وہ سب کیا
جائے جو مردحضرات اپنا حق سمجھتے ہیں ، ایسی مخالفت ان مردوں کی جانب سے
زیادہ تر ہوتی ہے جن کی بہنیں اور بیٹیاں خود اسی مصیبت کا شکار ہیں۔
حیرت و تاسف کا مقام اور حقیقت یہ بھی ہے کہ اچھی خاصی پڑھی لکھی خواتین
اتفاق تو کرتی ہیں لیکن اس قسم کے معاملات میں یہ بھی اپنا وزن مرد کے
میزان میں ڈال دیتی ہیں، بڑے بڑے دلسوز واقعات سامنے آتے رہتے ہیں ،
عورتیں صنفی امتیاز اور طبقاتی تفریق کی وجہ سے مصیبتیں بھگت رہی ہیں، لیکن
آج بھی کسی کا اس سلسلہ میں کوئی عملی قدم نہ اٹھانا، معاشرے کی تہذیب اور
اخلاقیات پر سوالیہ نشان ہے۔ ہمارے معاشرہ کی صورت مغربی معاشرہ سے مختلف
ہے ، اس کے پیش نظر دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ مغرب نے سینکڑوں برس عورت کے
حقو ق پر جبر کے سخت قدم رکھے ، لیکن آگاہی کے ساتھ ساتھ بتدریج آزادی
نسواں میں کم ازکم اتنا ضرور ہوا کہ عورت کو یہ شعور حاصل ہوگیا کہ وہ
بنیادی حقوق کے لیے اپنے نظام عدل پر بھروسہ کرسکتی ہیں۔ انصاف کے نظام پر
بھروسہ اور اعتماد صرف اسی صورت میں بحال ہوسکتا ہے جب انصاف ہوتا نظر آئے
۔ عورت کے سامنے جب اس کے اپنے رشتے دار دیوار بننے لگیں تو وہ کس طرح اپنے
لیے انصاف حاصل کرے، اس سے انہیں کم از کم آگاہ ہوناضروری ہے۔ بدقسمتی سے
ہمارے معاشرہ میں عورت کی حیثیت ایک مزدور سے زیادہ نہیں سمجھی جاتی ، وہ
بھی ایسا مزدور جیسے اس کا حق بروقت اور پورا نہیں ملتا۔یہاں عورت کے فرائض
میں محنت کے علاوہ جنسی خدمت بھی شامل ہے اور اُ س کی اجرت اور معاوضہ اُسے
روٹی ، کپڑا ، مکان میں رہائش ملتا ہے ، بڑا ہوا تو اُسے زمرد کا گلوبند لے
دیا ۔
|