چینی صدر شی جن پھنگ نے 2013 میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی
آر آئی) پیش کیا تھا جسے گزرتے وقت کے ساتھ دنیا بھر میں انتہائی مقبولیت
حاصل ہو رہی ہے اور اسے موجودہ صدی میں رابطہ سازی کا سب سے بڑا منصوبہ
قرار دیا جا رہا ہے۔دنیا کی اس منصوبے میں دلچسپی کی بات کی جائے تو تا حال،
پاکستان سمیت 149 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیمیں باہمی سودمند تعاون کے
جذبے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کے تصور کے تحت اس منصوبے
میں شامل ہو چکی ہیں۔یہاں یہ تذکرہ بھی لازم ہے کہ چین نے 1978 میں اصلاحات
اور کھلے پن کی پالیسی اپنانے کے بعد سے تمام بڑے شعبوں میں زبردست ترقی کی
ہے۔اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسی کے ایک حصے کے طور پر، چین نے دنیا میں
بنیادی ڈھانچے اور نقل و حمل کے شعبے کو ایک نئی جہت اور طاقت فراہم کی جس
کی ایک بہترین مثال چین پاکستان اقتصادی راہداری بھی ہے۔
برقی طاقت اور جدید نقل و حمل کے نظام میں سڑک اور ریل دونوں صورتوں میں
جدید انفراسٹرکچر کو آگے بڑھانے کی بنیادی ضرورت اس باعث بھی پیش آئی کہ
دنیا کے متعدد ترقی پذیر ممالک تخفیف غربت سمیت مجموعی ترقی و خوشحالی میں
بنیادی ڈھانچے کی عدم دستیابی کے باعث خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکے
ہیں، لہذا یہ وہ "رکاوٹیں" ہیں جن کا ترقی پذیر ممالک سے دور کیا جانا لازم
ہے۔دوسری جانب یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ مغرب کی زیرسرپرستی روایتی بین
الاقوامی مالیاتی ادارے،ایشیا ، افریقہ، لاطینی امریکہ اور دنیا کے دیگر
حصوں میں ترقی پذیر ممالک میں ضروری بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری فراہم
کرنے میں ناکام رہے ہیں۔اس تناظر میں بی آر آئی عالمی ترقی اور غربت کے
خاتمے کی بنیاد ہے۔ بی آر آئی کے آغاز کے بعد سے، بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے
لیے بین الاقوامی اداروں کی نئی صورتیں سامنے آئی ہیں، جیسے کہ ایشیائی
انفراسٹرکچر ترقیاتی بینک، سلک روڈ فنڈ اور برکس نیا ترقیاتی بینک وغیرہ۔
وسیع تناظر میں انہیں مروجہ عالمی نظام میں حالیہ ناکافی فنانسنگ کا اہم
متبادل قرار دیا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالمی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ
بی آر آئی ایک ایسا راستہ ہے جو بنی نوع انسان کے روشن مستقبل کی نمائندگی
کرتا ہے۔
عالمی سطح پر اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دنیا ایک
ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں مختلف تنازعات ،عالمگیر وبا اور دیگر مسائل
کے باعث ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔دنیا کو بدستور جیو پولیٹیکل
گیمز کے پرانے فارمولے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ایسے میں چین کی یہ خواہش ہے
کہ بی آر آئی کے تحت امن اور ترقی کے مشترکہ مقاصد کے لیے مل کر کام کیا
جائے اور تمام ممالک اور اقوام کو بنی نوع انسان کی ترقی کا ایک نیا باب
بننا چاہیے۔ یہ وہی سمت ہے جس کی ترجمانی بی آر آئی کرتا ہے اورمشرق اور
مغرب کے درمیان تعاون کے حوالے سے ایک بالکل نئی جہت کی وکالت کرتا ہے۔اس
ضمن میں چین کی جانب سے عالمی ترقی کی کوششوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے صدر
شی جن پھنگ نے گزشتہ برس گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو بھی پیش کیا جو عوام کے
بہترین مفاد میں بی آر آئی کے مقاصد کی مزید تکمیل کرتا ہے۔اس میں مزید
واضح کر دیا گیا ہے کہ چین اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے
کے اہداف کے حصول کے لیے تمام ممالک کے ساتھ انتھک محنت کرے گا۔
بی آر آئی منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ جہاں متعلقہ ممالک کے لیے بے شمار
معاشی ثمرات سامنے آتے جا رہے ہیں وہاں چینی اور دیگر عالمی تہذیبوں کے
درمیان ثقافتی تعاون اور افرادی تبادلےبھی بھرپور فروغ پا رہے ہیں جو
انسانی معاشرے کی ترقی کے لیے لازم ہے۔بلاشبہ بی آر آئی نے عالمی تعاون کا
ایک ایسا نادر موقع پیش کیا ہے جو ملکوں اور عوام کے درمیان گہرے اشتراک سے
بنی نوع انسان کو اقتصادی سماجی ترقی کے ایک نئے دور کی جانب لے جائے گا
اور سبھی بیلٹ اینڈ روڈ شراکت داروں سمیت دنیا کے بھی بہترین مفاد میں
ہوگا۔
|