جمہوریت، مساوات، حریت وغیرہ ایسی اصلاحات ہیں جن کا
مفہوم مغرب کے علم سیاست نے متعین کر رکھا ہے، جب ہم ان الفاظ کو استعمال
کرتے ہیں تو ذہن فوراََ اسی مفہوم کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ ہم اپنیثقافت کے
مطابق جن جمہوری اصطلاحات کو رائج کرتے چلے آ رہے ہیں، اس کا عشر عشیر بھی
مغربی نظام کا اختیار نہیں کیا۔ اگر اسے یوں کہیں کہ ہمارے یہاں کون سا
نظام نافذ ہے تو شائد عملی طور پر پوری دنیا میں اس کی مثل نہیں ملے۔
موجودہ نظام کو مغرب کے دیئے گئے جمہوری نظام سے ہی پرکھا جائے تو فرق واضح
نظر آئے گا، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں پارلیمان مضبوط ہے، جب کہ یہاں
بدقسمتی سے ربڑ اسٹیمپ، وہاں ادارے اپنی حدود میں چلتے ہیں، ہمارے یہاں تو
دائرہ ہی نہیں اور اختیار کا کسی کو علم بھی نہیں۔
مغرب بنیادی حقوق انسانیت کی حفاظت کی بات کرتا ہے تو ہمیں ان گنت مثالیں
مل بھی جاتی ہیں کہ انسانیت کا تقد س کسی نہ کسی صورت موجود ہے، لیکن یہاں
تو کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ ہمیں اشرف المخلوقات کہلانے کا بھی حق
نہیں۔مغرب میں قانون اور اخلاق ِ عامہ کے تحت مساوات، حیثیت و مواقع قانون
کی نظر میں برابر ہوتے ہیں، لیکن یہاں پیمانہ ہی کچھ اور ہے، غریب کے لئے
ہر دروازے بند، تو اشرافیہ کے لئے رات کی تاریکی میں بھی زنجیرجہانگیری نظر
آتی ہے۔ مغرب میں اقتصادی اور سیاسی عدم خیال، اظہار خیال، عقیدہ، اور
ارتباط کی آزادی کے نظارے دیکھنے کو مل جاتے ہیں کہ رشک ہوتا ہے کہ ہم نے
بھی اپنے لئے انہی مقاصد کے تحت ایک خطہ زمین حاصل کیا تھا جس کا نام
پاکستان رکھا گیا، لیکن ہر نئے قتدار میں نیا پاکستان بنتا چلا گیا اور
پرانے پاکستان کو نہ جانے کس جگہ پھینک دیا گیا کہ اب تلاش کرنے کے باوجود
بھی نہیں ملتا۔
راقم مغرب کے جمہوری نظام کومعقول سمجھتا ہے تو لیکن اسے اسلام کے نام پر
فوقیت نہیں دے سکتا کیونکہ اسلامی نظام میں جتنے حقوق اور مراعات انسانوں
کو دیئے گئے، اس کا تصور سیکڑوں برس پہلے مغرب نے بھی نہیں کیا تھا۔ چونکہ
پاکستان میں اسلامی اور جمہوریہ نظام کو یکجا کرکے یہگردانا جاتا ہے کہ
جمہوریت کا بھی نفاذ ہوگیا اور اسلام کا بھی، تو سوال یہ اٹھ جاتا ہے کہ اب
کون سا اخلاقی معیار ہمارے معاشرے میں قائم ہے تو شاید ہی اس کا تسلی بخش
جواب مل سکے۔ مغرب کے جمہوری نظام کی تعریف کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہم نے
جو،بھی جیسا بھی نظام ان سے لیا، اگر اس کی روح کے مطابق بھی نافذ کردیا
جاتا تو شائد کئی سنگین و حساس معاملات میں دشواریوں کا اتنا سامنا نہ
ہوتا، جتنا آج ہمیں عدم برداشت اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے درپیش ہے۔
اختلاف رائے اور چیز ہے اور اختلاف اور چیز۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ اختلاف
رائے ہر معاملے میں برقرار رکھا جاسکتا ہے تو اس کی تشریح میں بھی اختلاف
پیدا ہوسکتا ہے، مذہبی عقائد میں اختلاف اور امور سیاست میں اختلاف، اپنی
اپنی جگہ ایک رائے پر مشتمل ہے جس سے اتفاق بھی کیا جاسکتا اور اختلاف بھی،
لیکن یہ طے ہے کہ کسی بھی رائے کو کسی پر بھی مسلط نہیں کیا جاسکتا، چاہے
وہ مذہب ہو یا سیاست۔ تاہم جب بات امور مملکت کی آتی ہے تو مغرب نے ایک
ایسا تصور بھی دیا جسے سیکولر نظام سیاست کہا جاتا ہے۔ یعنی مذہب و عقائد
کے اختلافات کے باوجود سیکولر نظام سیاست کا وضع کرنا، جس کا دعویٰ ہمارے
پڑوسی ملک بھارت کرتا ہے، لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ بھارت میں ہندو توا اور
آر ایس ایس کے نظریات کے تحت جو مودی سرکار کررہی ہے، اس کو نہ تو جمہوری
کہا جاسکتا ہے نہ سیکولر ازم، بلکہ یہ فاشٹ اور انتہا پسندی کی بدترین
مثالوں میں شمار کئے جانے لگا ہے۔مسلم اکثریتی ممالک میں اسلام بھی اپنی
حقیقی روح کے مطابق نافذ نہیں بلکہ بادشاہت اور مورثیت کے نظام کے تحت قائم
ان کی حکومتیں، انسانی حقوق کی فراہمی کی وہ روح پیش نہیں کرپارہی، جو نظام
اسلام کا خاصہ ہے، اسلام، نسل، رنگ اور نسب کے امتیازت کو تسلیم نہیں کرتا،
انحطاط کے دور میں بھی اسلامی معاشرہ ان تعصبات سے نمایاں طور پر پاک رہا
ہے، جنہوں نے دنیا کے دوسرے حصوں میں انسانوں کے باہم تعلقات کو زہر آلود
کردیا تھا۔ اگر آپ سے کوئی مورخ یہ دریافت کرے کہ وہ ”اسلامی معاشرہ‘ کہاں
تھا جو اپنے دور انحطاط میں نسل، رنگ، نسب کے امتیازت سے پاک اور بلند تھا
تو کیا آپ اس کا کوئی پتہ یا نشان بتا سکتے ہیں!۔ اوروں کی بات تو چھوڑیئے،
کیا آپ خود پاکستان کو بھی اس کی نظر سے پیش کرسکتے ہیں۔؟ تو شائد ہمیں اس
کا جواب بھی وہی ملے جو ہم دوسرے ممالک کے لئے دیتے ہیں۔
ہمارے حکمران مسلمانوں کے تاریخ کی کوئی ابتدائی کتابیں ہی دیکھ لیتے تو ہم
علمی دنیا میں اس طرح سبک نہ ہوتے، ہماری پوری تاریخ چھوڑیئے، تاریخ کا
پورا دور بھی چھوڑیئے۔ عباسیہ خاندان کے صرف ایک مامون الرشید کو لیجئے۔
امام احمد بن حنبل جیسے جلیل القدر بزرگ کو قریب اڑھائی برس تک مختلف
نوعیتوں کا عذاب دیا جاتا رہا، جب وہ کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہوجاتے تو پھر
قید خانہ کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بند کردیا جاتا اور جب ہوش آتا تو پھر
پیٹنا شروع کردیا جاتا، باقی رہا زندہ جلانا تو بصرہ کے گورنر کا نام کون
نہیں جانتا، جنہوں نے اس قدر آدمیوں کو آگ میں جلا کر سزائیں دی تھی کہ ان
کا لقب ہی زید النار مشہور ہوگیا تھا۔
میں ان جگر خراش واقعات کو دھرا کر لذت نہیں لے رہا بلکہ خون کے آنسو رورہا
ہوں کہ ہماری تاریخ کے بیشتر گوشے قطعاََ اس قابل نہیں کہ ہم انہیں دنیا کے
سامنے فخر سے پیش کرسکیں۔ موجودہ دور بھی کچھ ایسا شرمساری والا ہے کہ آنے
والی نئی نسل جب ہمارے حکمرانو ں کے قصے غیر جانبدار مورخین سے سنے اور
پڑھے گی تو ان پر کیا گذرے گی کہ کیا پرانے اور نئے پاکستان میں رہنے والے
کسی جنگل کے قانون سے بہتر حالات میں زندہ قوم کہلائے جانے کے قابل تھے۔
|