دیار ِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
جب بھی یہ حکم پڑھنے کو ملتا ہے تو یقین کیجئے کہ سوچ میں پڑ جاتا ہوں،اور
شائد آپ خیال کررہے ہوں گے کہ میں ابھی مٹھی کھول کر آپ کو نئے صبح و شام
دکھا دوں گا، لیکن جب یہ حکم دیا جارہا تھا تو دینے سے پہلے اتنا تو سوچ
لیا ہوتا کہ میں کوئی جانور تو نہیں ہوں کہ زندگی کے نشیب و فراز اور
قوانین ِ فطرت سے از خود آگاہ ہوجاؤں گا، میں تو ایک انسان ہوں اور بحیثیت
انسان تو ہم سب کے علم میں ہے، کہ ہم وہی کچھ بنسکتے ہیں جو کچھ آپ بنانا
چاہیں، بہر حال یہاں میرا مقصود کسی کو بھی فرائض کی آگاہی نہیں۔ تاہم میں
تو بذات حیران ہوتا ہوں کہ نئے صبح و شام کا آخر مطلب کیا ہے، صبح و شام تو
ہر روز پیدا ہوتے ہیں اور ہر روز نئے ہی ہوتے ہیں کیونکہ ہر آنے والی صبح
اگر نئی نہیں ہوتی تو اخبار کی سرخی کیوں بدل جاتی ہے۔ نت نئے مسائل کیوں
پیدا ہوتے ہیں۔
جب راقم نے اپنے ایک محسن سے اس کی وضاحت چاہی تو انہوں نے بتایا کہ تم غور
سے دیکھو گے کہ زندگی ایک ہی ڈھب پہ چل رہی ہے، خبریں وہی ہوتی ہیں، صرف
عنوان بدلتے لیکن، لیکن جس نئی صبح کی امید تم سے کی جا رہی ہے، وہ ایک
ایسی صبح ہوگی جو انسان کو ایک نئی زندگی کا پیغام دے گی۔ ایسی زندگی جس
میں انسان، انسان کا محتاج نہیں ہوگا، کسی کو کسی دوسرے کا بوجھ نہیں
اٹھانا پڑے گا۔ لیکن وہ صبح پیدا کیسے ہوگی؟۔ میں پوچھا،جواب ملا کہ ”اس
علم سے جو تم حاصل کررہے ہو، محسن نے لفظ علم پر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی زور
دے کر کہا، لیکن اگر علم سے وہ پیدا ہوسکتی ہے تو وہ لوگ ایسی صبح کیوں
پیدا نہیں کرسکے، جن کی لکھی ہوئی کتابیں ہم پڑھتے ہیں۔
دراصل انسانوں کے خود ساختہ غیر حقیقی نظام ہائے حیات میں جہاں دیگر
سینکڑوں مسائل اپنی جگہ جمائے ہوئے ہیں، وہاں ایسے تباہ کن حادثات بھی
ناگزیر ہوجاتے ہیں، مگر ان حادثات کے تحت افراد معاشرہ تین شقوں سے تعلق
رکھتے ہیں، ایک وہ لوگ جو حادثوں کی زد سے بچے رہتے ہیں، چنانچہ وہ اپنے
موجودہ صبح و شام کو ہر طرح محفوظ و مامون سمجھ کر نئے صبح و شام اور نیا
زمانہ پیدا کرنے کا احساس ہی نہیں رکھتے۔ دوسرے اپنے اعمال کا ذمے دار کسی
اور پر ڈال دیتے ہیں اور تیسرے جو یہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کے اپنے
اعمال کا مکافات عمل ہے۔ان حادثوں کے اثرات و عواقب جن مصائب کی شکل میں
انسانی زندگی پر نازل ہوتے ہیں، ان میں ایک تو خارجی مشکلات ہوتی ہیں لیکن
اس کا سب سے بڑا اور گہرا اثر انسان کے اپنے اندرونی جذبات پر مرتب ہوتا
ہے۔باشعور افراد درست انداز ِ فکر رکھ کر ایسے سانحوں کی لپیٹ میں آجانے کے
بعد اپنے سلگتے، سسکتے جذبات کے نیچے دب کر ان کے محض انفرادی غم بنالینے
کی بجائے انہیں غلط معاشرے کے خلاف انقلاب جذبات میں ڈھال لیتے ہیں اور یہی
وہ لوگ ہیں جو زمانے کو اس کے سابقہ صبح و شام پر چلتے چلے جانے کی اجازت
نہیں دیتے۔ اس تگ و دو میں اگر چہ ان بے خطا بندگان ِ خدا کو غلط معاشرے کی
بے راہ روی کے کا رن ناکردہ گناہوں کا عذاب بھگتنا پڑتا ہے، ان کی بے داغ
زندگی کی سیدھی و ہموار رہ گذار پُر پیچ و کج مج پگڈنڈیوں میں تبدیل ہوجاتی
ہے، ان کا مستقبل کلیتہ خراب ہوجاتا ہے، لیکن زندگی کے اسی نازک و خطرناک
مقام پر صراطمستقیم کے راہی اپنی منزل کا نشان پاتے ہیں۔ وہ حکیم الامت
علامہ اقبال علیہ رحمۃ کے الفاظ میں اس ازالی و ابدی پیغام کو گوش ہوش سے
سن کر نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرنے کا عزم صمیم کرتے ہیں اور یہ
عزم وہی کرسکتے ہیں جن کی اپنی ذات پر بیتی ہو اور اسے وہ کسی کی بھی
مجبوری اور بے بسی کی تصویر نہ بننے دیں۔ وہ انسانیت کے وقارکی حفاظت کے
لئے نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرنا اپنا فرض قرار دیتے ہیں اور
یقین محکم کے ساتھ وہ راہ عمل اختیار کرتے ہیں کہ جس سے ہر صبح نئی صبح اور
ہر شام نئی شام بن کر جلوہ پزیر ہوتی ہے۔
محض انفرادی طور پر کسی برائی، کسی ناہمواری کو چھوڑ دینا اور صرف اپنی ذات
سے اچھا بن کر مطمئن ہوکر بیٹھ جانا معاشرے میں انقلاب نہیں لایا کرتا۔
برعکس اس کے غلط معاشرے میں ہوتا یہ ہے کہ ایک آدمی کا غلط عمل دوسرے آدمی
کے صحیح عمل کو بھی لے ڈوبتا ہے۔ دن رات کے یہ حادثات یوں ہی تو رُو پذیر
ہوتے ہیں، ناگہانی تباہیاں یوں ہی نازل ہوتی ہیں، اس لئے جب تک کسی ایک فرد
کی راست روی دوسرے فرد کی راست روی کا سبب نہیں بنتی، نہ کسی معاشرے کی
تطہیر ہوسکتی ہے، نہ اس میں صالح تغیر پیدا ہوسکتا ہے۔ وحدتِ انسانیت کے
زریں اصول کو پیش نظر رکھ کر ہی افراد معاشرہ،فرد واحد بن کر نیا زمانہ اور
نئے صبح و شام پیدا کرسکتے ہیں، بغیر اس کے ہر اچھائی برائی ایک دوسرے میں
خلط ملط ہوکے رہ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے کی ہر صبح تیرہ و تار
ہوتی ہے اور ہر شام و یرانی کی منہ بولتی تصویر۔ اس معاشرے میں رہنے
والے،بسنے والے کو بستیوں میں بستے ہیں لیکن جس پر پڑتی ہ وہ اپنے آپ کو
بیابان میں کھڑا محسوس کرتا ہے، یہاں تنہا رہ جانے والے پھنسی ہوئی گاڑی کو
باہر نکال کررواں کرنے والا کوئی نہیں ملتے۔ کیا ہمارا معاشرہ صبح و شام اس
تلخ حقیقت کا آئینہ دار نہیں، کیا ہماری موجودہ صبح و شامیں بے حسی و جمود
کا شکار نہیں؟۔ لامحالہ زمانے کی تبدیلی کا انحصار ذہنیت کی تبدیلی پر ہوتا
ہے اور صبح وشام نیرنگی دل کے بدلنے پر موقف ہوتی ہے۔
میں اب سمجھا کہ دنیا کچھ نہیں،دنیا میرا دل ہے
بدل جانے سے اس کے رنگ ہر اک چیز کا بدلا |