چین کے دارالحکومت بیجنگ کا شمار دنیا کے مصروف ترین
دارالحکومتوں میں کیا جاتا ہے جہاں مختلف عالمی سیاسی ،اقتصادی ،سماجی اور
ثقافتی تقاریب کا تواتر سے انعقاد کیا جاتاہے۔ اس شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل
ہے کہ یہ دنیا میں سرمائی اور گرمائی ،دونوں اولمپکس کی میزبانی کرنے والا
واحد شہر ہے۔شہر کی دو کروڑ سے زائد آبادی کو تمام ضروریات زندگی اور دیگر
سہولیات کی احسن فراہمی بھی بیجنگ کا ہی خاصہ ہے جس میں گزرتے وقت کے ساتھ
مسلسل جدت اور بہتری آتی جا رہی ہے۔
انہی ضروریات زندگی میں ایک صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک ماحول بھی شامل ہے
جس میں بیجنگ نے نمایاں کامیابیاں سمیٹی ہیں۔یہاں رہائش پزیر لوگ بشمول
بیرونی ممالک کے افراد ، گواہی دیں گے کہ بیجنگ نے صرف چند برسوں میں فضائی
آلودگی کے خاتمے میں قابل زکر پیش رفت دکھائی ہے۔گزشتہ سال کا ہی تذکرہ کیا
جائے تو ، بیجنگ کے باشندوں نے 288 دن اچھے یا معتدل فضائی ماحول میں گزارے
ہیں، مطلب ان دنوں میں ہوا کا معیار اچھا رہا ہے اور شہریوں نے صاف فضا میں
سانس لیاہے۔ جہاں تک مثبت اشاریوں کا تعلق ہے تو بہتر فضائی ماحول کے حامل
دنوں کی تعداد میں 2020 کے مقابلے میں 12 دن کا اضافہ ہے۔ یہ بات شائد کئی
لوگوں کے لیے محض ایک چھوٹی سی خبر یا معمولی سا امر ہے مگر بیجنگ کے 20
ملین سے زیادہ باشندوں کے لیے یہ ایک قیمتی تحفہ ہے۔
تاریخی اعتبار سے بیجنگ ایک طویل عرصے سے شمال اور شمال مغرب سے آنے والے
ریت کے طوفانوں اور علاقے کی صنعت کاری کی وجہ سے فضائی آلودگی کا شکار
تھا۔ 40 سال پہلے دارالحکومت میں رہائش پزیر افراد کو ہر سال کئی خطرناک
ریتلے طوفانوں سے نمٹنا پڑتا تھا۔ 2013 میں، جب بیجنگ نے فی گھنٹہ فضائی
آلودگی کا انڈیکس جاری کرنا شروع کیا، تو پتہ چلا کہ سال کے صرف 176 دنوں
کے لیے ہوا کا معیار اچھا یا معتدل تھا جبکہ بقیہ دنوں میں سے 58 کو خطرناک
قرار دیا گیا۔ اس کے بعد ہی مرکزی اور مقامی حکومتوں نے ماحولیاتی تحفظ کے
قوانین کو مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ بیجنگ کے باشندوں کو تازہ ہوا میں
سانس لینے اور نیلے آسمان کے دنوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل سکے۔اُس
وقت کئی لوگوں کو یہ یقین نہیں تھا کہ حکومتی منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہوں
گے ، اکثر حلقے شکوک و شبہات کا شکار تھے کیونکہ اُن کے نزدیک بہت سے ترقی
یافتہ ممالک کو اگر اپنی ہوا کو صاف کرنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں تو
چین ویسے بھی ایک ترقی پزیر ملک ہے اور اُس وقت وسائل کی فراوانی بھی ایک
مسئلہ تھی۔ لیکن بیجنگ نے اپنے منصوبے میں غیر معمولی کامیابیاں سمیٹتے
ہوئے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام سے زبردست پزیرائی حاصل کی اور دنیا
نے اسے ایک معجزہ قرار دیا۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران بیجنگ میں تحفظ ماحول
کے اقدامات کو مزید مضبوط کیا گیا ہے اور نیلے آسمان کے حامل دنوں کی تعداد
میں اضافہ انہی ماحول دوست پالیسیوں کے ثمرات ہیں۔
اس معجزے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما رہے ہیں جن میں ایک کوئلے کے استعمال
کی حوصلہ شکنی ہے۔ 2013 سے پہلے، بنیادی طور پر کوئلہ بجلی پیدا کرنے اور
ہیٹنگ نظام کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اب بیجنگ اور اس کے پڑوسی علاقوں میں
کوئلے کی جگہ گیس اور بجلی نے لے لی ہے۔ نتیجے کے طور پر، بیجنگ کے دیہی
علاقوں میں بھی لوگ کھانا پکانے کے لیے کوئلہ استعمال نہیں کرتے ہیں۔ بیجنگ
کی یہ خوبی بھی رہی اس نے 2008 کے اولمپک کھیلوں سے قبل اپنی آئرن اور سٹیل
کی صنعت اور آلودگی کا موجب بننے والی دیگر صنعتوں کو بتدریج شہر سے باہر
منتقل کرتے ہوئے ملک میں ایک نیا رجحان متعارف کروایا۔اسی طرح 2011 میں،
بیجنگ نے صرف 240,000 نمبر پلیٹس جاری کر کے گاڑیوں کو کنٹرول کرنے کی
پالیسی متعارف کروائی۔رواں سال اسی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے صرف 100,000
پلیٹیں جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس میں 70 فیصد خصوصی طور پر نئی
توانائی والی گاڑیوں کے لیے ہیں۔
یہ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ "بیجنگ کا معجزہ" آسانی سے نہیں تخلیق ہوا ہے۔
اس کے پیچھے مرکزی، میونسپل اور صوبائی حکومتوں کے درمیان موثر ہم آہنگی
تھی، جس نے بیجنگ اور ہمسایہ صوبوں کو آلودگی سے پاک کرنے کے اقدامات کی
جانب راغب کیا۔اچھی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے بلکہ اس قدر
کامیابیوں کے باوجود ہوا کے معیار کو مزید بہتر بنانے کے لیے مسلسل کوششیں
جاری ہیں۔یہ معجزہ یقیناً دنیا کے ترقی پزیر ممالک کے لیے ایک قابل تقلید
ماڈل ہے جہاں فضائی آلودگی کی سنگینی وقت کے ساتھ مزید بڑھتی چلی جا رہی ہے
جو نہ صرف معیشت بلکہ انسانی جانوں کے لیے بھی تباہ کن ہے۔
|