ساس بہو کے جان لیوا مسائل

گورنمنٹ کو خاندانی مسائل کرنے چاہئیں

انسانی حقوق کی تنظیموں کو سات سلام بھیج دینے چاہیئیں جو صرف ماتم کرنے میں ماہر ہیں۔ پاکستان بشمول آزاد کشمیر کے شہروں اور دیہاتوں میں خاندانی نظام اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ رد عمل کے طور پہ طلاق، خلع، خود کشیوں، قتل اور ان جیسے بہت سے واقعات روز رونما ہو رہے ہیں۔ بھلا ہو ٹی-وی چینلز کے چند ڈراموں کا جو ساس بہو کی ایسی سازشوں کو سامنے لا رہے جن سے شوہر حضرات مکمل طور پہ لا علم ہیں۔

مثال کے طور پہ جیو کے ڈرامہ "مشکل" میں فراز کی ماں، اے-ار-وائی کے ڈرامہ "پیار دیوانگی ہے" ، "میرے ہمسفر" اور اسی طرح کی کئی کہانیاں چل رہی ہیں۔

اصل مسلہ مذہب سے دوری، اور حسد جیسی بیماری میں مبتلا ہونا ہے۔ کیونکہ ساس گھر کی مالکن ہوتی ہے، شوہر اور بیٹا اس کے غلام ہوتے ہیں، اپنی بیماری اور ماضی کی قربانیوں کو بنیاد بنا کے بہو کا جینا حرام کر دیتی ہے۔ جھوٹی کہانیاں بنانا ایسی عورتوں کے بائیں ہاتھ کا کام ہوتا ہے۔ خود چونکہ ان جیسی عورتوں نے ہر پیر فقیر کی بیعت لی ہوتی ہے، اس لئے انہیں خوف ہوتا ہے کہیں ان کے مشرکانہ اعمال کا توڑ نہ ہو جائے۔ اس طرح وہ اپنے بیٹے کی زندگی میں زہر گھول گھول کہ اسے ذہنی اور جسمانی طور پہ بیمار کر دیتی ہیں۔

اس وقت ضرورت ہے ایدھی ، سیلانی اور ان جیسی تنظیمیں جو لاشیں اور تشدد زدہ عورتوں اور بچوں کو ہسپتال لے جاتی ہیں ۔

اس ساس کے لئے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے تاکہ وہ جس لالچ میں بہو کا جینا حرام کرتی ہے، وہ اپنے شوق پورے کر سکے اور معاشرے میں بگاڑ کا سبب نہ بنے۔ یا پھر بہو کا ماہانہ وظیفہ مقرر کریں تا کہ بیٹا بیوی کو کچھ نہ دے کہ ماں کو خوش رکھ سکے۔

 

Asma Aslam
About the Author: Asma Aslam Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.