آپ بھی پڑھیۓ! آپ بیتی میری دھرتی ماں کی

پاکستان کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر لکھی گئ وہ تحریر جو محب وطن پاکستانیوں کی فکر و سوچ کے دروازے پر دستک دینے اور ان کے سوۓ ضمیر کو جھنجھوڑنے کو شاید کافی ہو۔

میری زندگی کی کہانی 75 سال پہلے شروع ہوئ۔ میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ اس کے آخری صفحے پر قیامت کی مہر ثبت ہو۔

مجھے میرے بزرگوں نے اسلام کے نام پر حاصل کیا اور دنیا میں میری شناخت کے لۓ نام "پاکستان" دیا یعنی "پاک لوگوں کی سرزمین"۔ میں پہلے انگریزوں اور پھر ہندوؤں کی غلام رہی۔ جس نے جیسے چاہا اپنے مقاصد کے لۓ استعمال کیا۔ پھر اللہ میرے قائد کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماۓ جنہوں نے مجھے غلامی سے آذاد کرانے کی ٹھانی۔ پھر میری خاطر لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان کا نزرانہ پیش کیا اور میری کوکھ نے ان تمام شہداء کو محفوظ کیا۔ آج بھی میرے رگ وپے میں ان ہی کی بیش بہا قربانیوں کا خون دوڑ رہا ہے جس نے مجھے مقصد حیات عطا کیا ہوا ہے۔

میں بہت ہی خوش قسمت ٹھہری کیونکہ مجھے سانس لینے کے لۓ آذاد فضا نصیب ہوئ۔ پھر جب میں نے اپنی ذات پر غور کرنا شروع کیا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی، چلیں وجہ بھی بتاتی ہوں۔ بغور جائزے کے بعد میں نے جانا میں کتنی حسین ہوں، اپنے فلک شگاف پہاڑوں، سونے جیسے صحراؤں، لہلہلاتے کھیتوں، زرخیز میدانوں، صاف شفاف آبشاروں، نغمے سناتے جھرنوں، ٹھاٹھے مارتے سمندر، خوبصورت وادیوں، نایاب جانوروں اور پرندوں، ترقی کرتے شہروں، تہذیب و ثقافت سے پیراستہ دیہاتوں، قدرتی معدنیات کے ذخیروں، محبت بانٹتے انسانوں اور دین کی حفاظت کرتے مسلمانوں کے ساتھ۔

پھر وقت پر لگا کر جیسے اڑتا ہی چلا گیا اور میں نہ چاہتے ہوۓ بھی اپنے حکمرانوں کے اصولوں پر چلتی گئ۔ میں مانتی ہوں کہ میں اپنا سفر تنہا طے نہیں کر سکتی تھی اور مجھے کسی کی رہنمائ درکار تھی۔ کوئ ایسا جو مجھے اپنا سجھتا، مجھے دل و جان سے چاہتا، میری ترقی کے لۓ سر گرداں رہتا، مجھے آگے بڑھتا دیکھتا تو خوشی سے پھولے نہ سماتا، مجھ پر حقیقی معنوں میں جان نچھاور کرتا۔

میں نے تو اپنے تن، من، دھن سے "دھرتی ماں" بن کر دکھایا۔ میرے پاس اپنے رب کی عطا کردہ بیش بہا نعمتوں کا جو خزانہ تھا وہ سب میں نے اپنے باسیوں کو اپنی "اولاد" تصور کرتے ہوۓ وار دیا۔ مگر بہت ہی دکھی دل سے آج میں یہ اعتراف کرنا چاہتی ہوں کہ میری اولاد نے مجھے سوتیلی ماں سے بھی ذیادہ برا جانا، سوتیلی ماں کو تو اولاد ماں کا نام دیتی ہے نہ وہ درجہ۔ مگر یہاں قصہ یکسر مختلف ہے، میری اولاد مجھے ماں کہ تو دیتی ہے پر میرے حقوق سے سب ہی ناواقف۔ میری اولاد نے میری تمام تر قربانیوں کو پس پشت ڈالتے ہوۓ میری ذات کی خوبیوں کو صرف اور صرف اپنے مفاد کے لۓ استعمال کیا۔

آپ یقین جانیۓ کہ میری موجودہ حالت زار کی میں ذمہ دار نہیں کیونکہ میں تو ہمیشہ ان ہی کی رحم و کرم پر رہی جنہیں اللہ نے اختیار دیا کہ وہ میرا نام دنیا میں روشن کریں، میری ساکھ کو مزید بہتر سے بہتر بنانے کے عزم کے جذبے سے سرشار ہو کر میرا شمار بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی سعی میں لگے رہیں۔ مگر افسوس صد افسوس کے میرے پاکیزہ وجود کو صرف اور صرف اپنی ملکیت تصور کرتے ہوۓ سب نے ہی میرے جذبات و احساسات کا خون کیا۔ کسی نے مجھے کنیز جانتے ہوۓ غیروں کے ہاتھوں میرا سودا کرنے کی ٹھانی تو کسی نے میرے وجود کو دشمن کی تہذیب و تمدن اور رہن سہن سے ناپاک کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

میں آج بھی ایک پیر کامل کی تلاش میں ہوں جو میرا ہاتھ پکڑ کر میرا کھویا ہوا مقام مجھے دلا سکے، جو میرے وجود کے ساتھ کھیلنے والوں کو نشان عبرت بنا دے، جو میرے اندر کے ناسور اور لاعلاج بیماریوں (رشوت خوری، فحاشی وعریانی، بہتان بازی، دہشت گردی، چوری اور ڈاکہ زنی، زنا اور جسم فروشی) سے مجھے پاک کر سکے۔ علاوہ ازیں جو میرے نام کے ساتھ انصاف کرنے میں میری مدد کرے اور مجھے حقیقی معنوں میں پاک لوگوں کی سر زمین بنا سکے جس کے باسی فخر سے سر اٹھا کر میرا نام دنیا میں لے سکیں۔

 

Asma Ahmed
About the Author: Asma Ahmed Read More Articles by Asma Ahmed: 47 Articles with 48128 views Writing is my passion whether it is about writing articles on various topics or stories that teach moral in one way or the other. My work is 100% orig.. View More