مرے پیام سے واقف نہیں ابھی دنیا

اِنسانی عقل وحی اِلٰہی سے بے نیاز ہو کر یہی دعویٰ کرتی رہی ہے کہ نئی تحقیق اوراِکتشافات کی اطلاع پہلی بار اُسی نے انسانیت کو دی، ورنہ دُنیا اِن سے بے خبر ہی تھی۔ مثال کے طور پر زمین پر موجود نباتات میں پایا جانے والا نر اور مادہMale & Femaleکا نظام یا نظامِ زوجین کی حقیقت اُسی کی دریافت کردہ ہے۔لیکن یہ اٹل حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اِنسانی عقل کے خالق نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے اِس حقیقت ِ نفس الامری کا تذکرہ چھتیسویں سورةکی چھتیسویں آیت میں بڑے اہتمام کے ساتھ فرمادیا تھا:” یہ اسی کی سبحان ہے( تعریف و توصیف ہے،جلالِ کمال ہے) جس نے زمین کی ہر نباتات کو جوڑوں کی شکل میں خلق کیا اور(اِسی طرح) انسانوں میں بھی نر اور مادہ پیدا کئے اوراُن چیزوں اور مخلوق میں بھی(نظامِ زوجین کو برقرار رکھا) جسے انسان نے ابھی تک دریافت نہیں کیا ہے۔ “

پھریہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی عقل نے اپنی فطری محدودیت کی مجبوریوں کے تحت اپنی ہی نام نہاددریافت کی سرحدیں محدود کر لیں اور زیادہ سے زیادہ اِس اِنکشاف کا یہ دعویٰ کر سکیں کہ نباتات اور بیکٹیریا کے جوڑے یا زوج ہوتے ہیں۔کاش عقل کی محدودیت کو آیات اِلٰہی کا سہارا مل گیا ہوتا اور یہ اِس سے اپنی زرخیزی کو اِس قدر بڑھا لیتی کہ اکتشافات و تحقیق میں اِنسانی فلاح کے بے شمار مثبت پہلو نکل آتے، جس کا اِمکان مذکورہ آیت کے فقرے”ممالا یعلمون“ میںموجود ہے۔یعنی نہ جانے اللہ نے کن کن اشیاءکے جوڑے بنارکھے ہیں جن کے بارے میں ہمارا یہ خیال ِ خام ہو سکتا ہے کہ اِس کا کوئی جوڑا نہیں ہوگا۔

سائنسداں رب تعالےٰ کی نازل کردہ کتاب کے مضامین سے استفادے کی ٹھان لیں ، خاص کر وہ جو کتاب اللہ کے حامل کہلاتے ہیں،یہ احبا ب سائنس کے میدانوں میںوحی اِلٰہی کے عمل دخل کا بیڑہ اُٹھالیںتو یقینا سائنسی ترقی کی رفتار و معیار میں اضافہ بھی ہوگا،انسانیت اِس کے مثبت نتائج سے متمتع ہوسکے گی اور خدا فراموش انسانیت کو اپنے رب کا عرفان بھی حاصل ہوگا،اُس رب کا ، جس کا کوئی شریک Counter Partنہیںنہ کوئی ثانی ہی ہے ۔جس نے ان تمام چیزوں کو تو جوڑوں میں بنایا ، مگر خود اس کا کوئی جوڑا نہیں ہے۔یہ یاددہانی ہمیں اکیاونویں سورة کی اُننچاسویں آیت میںملتی ہے:”اور ہر شئے کا ہم نے جوڑا بنایا، تاکہ انسانو! تم نصیحت پکڑو، تم آگاہ ہوجاﺅ۔ “

جب اس خلاق العلیم و حکیم نے ہر شئے کے جوڑے بنائے ہیں، توہمیں غور کرنا چاہیے کہ جن اشیاءکے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ اِس کا جوڑا نہیں ، کیا فی الواقع ایسا ہے۔ مثلا! ہم اپنی اس زندگی ہی کو لیں۔ اپنی موجودہ حیات پر غور کرکے کے دیکھیں کہ آخر اس کا جوڑا کہاں ہے؟ہم اپنی دنیا کی ہماری اپنی زندگی پر غور کرتے ہیں تو لگتا ہے یہ ہر زاویہ سے ادھوری ہے۔مثلاً، ظلم و ستم ہی کے معاملے کو لیجیے ۔یہاں ”ظلم و ستم “اپنے زوج ”انصاف“ کے لیے ترستا رہ نظر آتا ہے۔کئی معاملات میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوپاتے۔ مظلوموں کویا تو ان کا حق نہیں ملتا یاملتا بھی ہے تو وہ ظلم کی برابری سے قاصر رہ جاتا ہے۔مظلوم اپنی چشمِ سر سے ظالم کو سیکیوریٹی کے سائے میں دندناتے ہوئے پھرتا دیکھتے ہیں۔ امن و امان اورآرڈر کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔نہ مظلوم کی منصفانہ داد رسی ہوتی ہے نہ ظالم کی حقیقی چارہ جوئی ۔ کوئی کسی کوپوچھنے والا نہیں نظر نہیں آتا!!یہ منظر بھی ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ فقط ایک فرد کی انا ، غرور و استکبار، اُس کی شان و شوکت اور جاہ وحشمت کی آبیاری کے لیے ہزاروں انسان اپنے خون کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اورپھر بھی یہ خون کافی نہیں ہو پاتا۔اِس کی شان میں کبھی حرف آنے نہیں دیا جاتا چاہے دیگر مخلوقات کے حقوق کا جنازہ ہی کیوں نہ نکل جائے۔ محض ایک مقتدرشخص Individualکی ضد لاکھوں انسانوں کی موت کا تقاضہ کرتی رہ جاتی ہے۔ مصر اور لیبیا جیسے ممالک میں ابھی پچھلے دنوں چند شاہی افراد کی انا کی حفاظت کے ایسے کئی مکروہ مناظر کے رقص ہائے برہنہ ہماری آنکھیں دیکھ چکی ہیںاوریہ سلسلہ ہنوزجاری ہے،کہ بے شمار لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اِن افراد کی انا ، غرور اور جاہ و جلال کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ایسے میں ظالم افراد کو محفوظ تخلیہSafe Exit بھی مل جاتا ہے۔اِن پرمقدمے قائم بھی ہوتے ہیںتو کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ خود منصف اِنہیں قانون ہی کا سہارا لے کر بچا لیتا ہے اور انصاف منہ تکتا رہ جاتا ہے۔پھراگروہ کسی قانونی شق کے تحت سزا کا مستحق بھی قرار پاتاہے تو اِسے پھانسی سے زیادہ اور کیا سزا دی جا سکتی ہے ۔زیادہ سے زیادہ برسرِ عام اِس کا سر قلم کرکے مظلوم کو تسلی دینے کی ناکام کوشش کی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے اِن ظالموں کے اُن کے اپنے حسبِ جُرم اِس دُنیا کے نظامِ عدل و اِنصاف میں ایک سزا کہاں ممکن ہے۔؟ انصاف کے تقاضوں کے عشرِ عشیر تک بھی ہمارا اِس دنیا کے نظام قانون کا پہنچ جا نا مشکل ہے۔

غورو فکر کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی انسان نے کسی دوسرے انسان کا ناحق خون بہایاہو، توہم دنیاوی قانون کے ذریعہ قاتل کو ایک ہی بار موت کی سزا دے سکتے ہیں۔کسی کا یہ گمان ہو سکتا ہے کہ یہ سزا ، قتل کے ظلم کی برابری کرنے والی ہے۔ لیکن بات یہیں پر رکتی کہاں ہے، بلکہ اِسکے بعد اِس قتل کے اثرات کا ایک لامنتاہی سلسلہ شروع ہو جانا لازمی ہے، جس میں مقتول کی بیوہ کی آہیں، معصوم بچوں کی یتیمی و یسیری کے مراحل، بوڑھے والدین کی کسمپرسی شامل ہوجاتے ہیں ۔ان امور کا کسی کی موت کی سزا میں کوئی لحاظ کسی قانون کے پیش نظر نہیں ہوتا نہ ہو سکتا ہے۔عصر نو کے کسی نظامِ عدل کے پاس یہ نظم نہیں کہ اِن مابعد قتل عوامل کو بھگتان یا تلافی Compensatonکے دائرے میں لایا جا سکے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دُنیا کے بنانے والے نے یہ دنیا قاتل کے مفاد کے لیے ہی بنائی ہے، جس میں مقتول کے لیے مسائل کانہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع توہو جائے لیکن قاتل دندناتا پھرے یا اتنی سزا پائے جو اُس کے جرم کے ہم پلہ ہو!!۔ یا یہ کہ من مانی کرنے والوں کی کوئی چارہ جوئی نہ ہو اور من مانی کے شکار افراد اپنی پوری نسل سمیت بے یار و مدگار رہ جائےں!!فریاد رسی کے نامکمل ماحول میں یہ دنیا واقعی بڑی ادھوری نظر آتی ہے جیسے وہ اپنے دیرینہ جوڑے یا زوج کا انتظارکر رہی ہے ہو۔کیوں کہ اللہ نے ہر شے کا جوڑا بنایا ہے تو یقینادنیاوی زندگی کا بھی جوڑاضرور بنایا ہوگا۔ورنہ ایسا مطلق نہیں ہوسکتا کہ وہ خالق جس نے ہر شئے کو جوڑوں کے ساتھ تخلیق و تکمیل کاجامہ پہنایا ہو، جس کا ہر کام تکمیل کا شاہکار ہو،مگر وہ اس دنیا کو ادھورا چھوڑ دے،جہاں ظالم کو کھل کھیلنے کا موقع توہو ، مگر مظلوم ، اپنی مظلومیت کی بے چارگیاں لے کر رہ جائے !!!

یہی وہ مقام ہے جہاں سے ہماری سوچ کو ایک رخ مل جاتا ہے اور حقائق پر سے پردے اٹھتے چلے جاتے ہیں۔دراصل ہماری یہ حیاتِ دنیوی ہماری زندگی کا پہلا حصہ ہے یاہمارا اولین پڑاﺅ ہے۔ ہم اس دنیا میں تھے نہیں، بلکہ آئے ہیں اور پھر ہمیں یہاں سے لازماً ایک ایسی زندگی میں داخل ہونا ہے جو فی الوااقع اِس زندگی کا جوڑا یا زوج ہوگا۔اور زندگی کایہ بقیہ اور حتمی حصہ ہماری موت کے بعد سے شروع ہوگااور جس کاکوئی آخری لمحہ نہیں ہوگا۔ انصاف کے سارے تقاضے پورے ہونے کی وہاں پوری گنجائش پائی جائے گی۔”عمر قید کی سزا“اپنا حقیقی مفہوم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جو دنیاوی ”عمرقید“سے بالکل مختلف ہوگا ۔جہاں ظالموں کو موت کی سزا اپنی جدید معنویت کے ساتھ مظلوموں کی تسلی کا سامان فراہم کرتی نظر آئے گی۔جہاں ہماری محرومیوں کا خاتمہ ہوکر رہے گا۔ ہماری مظلومیت اپنا Payment ظالم سے پوری طرح وصول کر سکے گی۔ مستحقین کے حقوق کی مکمل ادائیگی وہاں ممکن ہو سکے گی۔ حق تلفیوں کا اختتام ہوگا اورحقوق چھیننے والوں سے مظلوموں کاPayment دلوایا جائے گا۔تب یہ سائنسدان اور دانشور جو نباتات کے اور بیکٹیریا کے جوڑے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں، پکار اٹھیں گے کہ جس ادھوری دنیا کو وہ سب کچھ سمجھ بیٹھے تھے ، اُس کا جوڑا یہ ہے، جسے آخرت کہتے ہیں۔جن حقائق کو ہم نے اوپر بیا ن کیا ہے اُس کی روشنی میں یہ بات کہ آخرت اِس دنیا کی زندگی کا جوڑا ہے، اُس حقیقت کی نہ صرف تصدیق کرتی ہے جس کا ذکر اوپر آیت میں موجود ہے بلکہ ہماری عقل اورمنطق بھی اِس کی تائید کرے گی کہ یقینا یہ دنیوی زندگی بے زوج نہیں بلکہ آخرت کی شکل میں اِس کا جوڑا پایا جاتا ہے جس کی جانب ساری انسانیت محوِ سفر ہے اور بہت جلد اِس میں داخل ہونے جا رہی ہے۔

انسانی عقل کے ذریعہ غور وفکر اور قرآنی آیات میں تدبر ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری اپنی اس دنیا کی زندگی تکمیلی حصہ کہاں ہے۔؟ورنہ اِس اہم سوال کا کوئی جواب دنیا کی کسی کتاب میںموجود نہیں ہے،بجز خالق و مالک کی تنزیل کے۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اِسی کتاب میں ہمیں دیگر متعلقہ سوالوں کے جواب بھی مل جاتے ہیں کہ کہاں سے ہم اور ہمارے جیسے سارے انسان آئے ہیں؟ زمین کی پشت پر کس طرح اِنہیں زندگی گذارنی ہے؟ کہاں اِنہیں جانا ہے؟ اگر نہ جانا چاہیں تو کیا ایسا کسی کے لیے ممکن بھی ہے؟ایسا کبھی ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ چھپنویں سورة کی ساٹھویں آیت میں ہے:” ہم نے ہی تمہاری تقدیر میں موت کو لکھ دیا ہے اور (تمہیں بچانے کے لئے) ہم پر کوئی سبقت نہیںلے جاسکتا ۔ “

حقیقت یہ ہے کہ سائنسدانوں کو ہر شئے کاجوڑاCounterpart یاPair ضرور ملا ہے۔پھل ، پھول، سبزیاں، اناج، دالیں، چوپائے، پرندے،سمندری مخلوق، جراثیم یا خود حضرت ِ انسان کے جوڑے موجود ہیں جن سے اب ہر انسان واقف ہے۔سائنسی نقطہ نظر سے بہ ظاہر جو اشیاءبلا زوج یا واحددکھائی دیتے ہیں، ہو سکتا ہے اِن کے بھی جوڑے موجود ہوں جن کی جستجو کی تحریک ہمیں آیت کے مذکورہ فقرے ”ممالا یعلمون“ میںملتی ہے۔نظر آنے والی اِن اشیاءکی جستجو کے ساتھ انسان اِس دنیا کی اپنی اس آدھی ادھوری زندگی کے بارے میں سوچے تو اِس کا تکمیلی حصہ زندگی بعد موت میں نظر آتا ہے۔ کاش کہ ہماری عقل کے ساتھ ساتھ ہمارا شعور بھی کام کرنے لگ جائے اور ہماری منطق، ہماری عقلِ سلیم کتابِ اِلٰہی کے پیش کردہ حقائق کی روشنی میں زندگی کے جوڑے کو ڈھونڈ لے۔ ان دکھائی دینے والی اشیاءکے جوڑے یا Counter Partکے بارے میں غورو فکر کے ساتھ ساتھ اپنی ہر اعتبارسے نامکمل دنیوی زندگی کے Counter Partکے بارے میں بھی ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اِس ادھوری زندگی کا تکملہ اخروی زندگی ہے۔لیکن ا س کے لیے عقل کے ساتھ شعور کی بیداری بھی ضروری ہے۔ہماری منطق، عقل ، الکتاب کے تابع ہو جائے تو اِ س حقیقت تک رسائی مشکل نہیں۔کتنی صاف اور سچی بات الکتاب کی دوسری سورہ کی دو سو اکیااسیویں آیت میں ہمیں ملتی ہے:” اے انسانو! باشعور ہوکر اُس دن سے ڈر ڈر کر جینے والے بنو،جس میں تم اللہ کی جانب لو ٹو گے،پھر ہر نفس سے پوری پوری وفاداری کے ساتھ اُس کی کمائی کا فائنل Paymentعطا کر دیا جائے گا اور کسی ظلم کا ہدف نہیں بنایا جائے گا۔“

اب آخری سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کس طرح انسان ڈر ڈر کرزندگی گزارے؟ کس طرح اسے اس زمین پر اپنی پہلی زندگی کو گزارنا ہے تاکہ اِس کے جوڑے کے ساتھ کامیابی کے ساتھ ملاقات کر سکے۔ ہم جانتے ہیں کہ خالق کائنات اللہ کے کام نہایت اعلیٰ درجے کی تکمیلیت کا مظہر ہوتے ہیں۔اُس نے انسانوں کو ہدایت سے کبھی محروم نہیں رکھا نہ بے یار و مددگار چھوڑا ہے۔ہماری ہدایت کے لیے اُس نے نہایت اعلیٰ درجے کے انتظامات کر رکھے ہیں کہ ہم کس طرح اِس زندگی پر سے گزرتے ہوئے ، اِس کے زوج یعنی آخرت میں قدم رکھیں ؟اُس نے ہماری ہدایت کے لیے جو سسٹم Develope کیاہے،وہ ایک اعلیٰ درجے کا پروگرام ہے، جس کے دو پہلو ہیں، ایک تو یہ کہ اُس نے ہر دور میں انسانوں کی ہدایت کے لیے رسول، نبی بھیجے اورکتابیں اور صحیفے نازل کیے اور دوسرا یہ کہ اُس نے خود انسان میں Inbuilt Systemبھی رکھ دیا ہے جس کا تذکرہ ہمیں نوے نمبر کی سورة میں آٹھویں آیت تا ستراویں آیت میں ملتا ہے:” کیاہم نے انسان کے لیے دو آنکھیں ، ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے؟ اور کیا ہم نے اسے دو نوںراہیں نہیں سُجھائیں؟ مگر وہ اس گھاٹی کوپار کرنا ہی نہیں چاہتا، اس Testمیں اترنا ہی نہیں چاہتااور تمہیں کیا پتہ کہ وہ گھاٹی ،وہ Test کیا ہے؟ (وہ امتحان یہ ہے کہ)کسی پریشانی میں پھنسی ہوئی گردن کو چھڑا دیا جائے اور کسی بھوکے کو اسکی بھوک کے دن کھانا کھلا دیا جائے! کسی یتیم اور محروم سامنے ہو ! یا کوئی خاک نشین ہوا جارہا ہو مسکینی اور غریبی کے سبب(تو اُس کی داد رسی کی جائے)! پھر ایسا انسان ایماندار بھی ہواور اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو صبر پر آمادہ کرتارہے، اور آپسی رحم کی وصیت بھی کرتا رہے۔ “

یہ ہے وہ فارمولا جو ہمیں ایک کامیاب زندگی کی یہاں بھی ضمانت د یتا ہے اور آخر ت میں بھی۔”....گردن چھڑانا، بھوکے کوبھوک کے دن کھانا کھلانا ، یتیم کی، مسکین و محروم کی داد رسی کرنا ، ایمانداری کے ساتھ اپنے ماحول میں خوئے صبر پیدا کرنے کی سعی کرنا اور آپسی ہمدردی کی فضاءپیدا کرنا....“ یہ وہ ترجیحات ہیں جوقرآن ہمیں عطا کرتا ہے۔یہ وہ احکامات ہیں جو ہمارے رب نے ایک کامیاب زندگی کی ضمانت کے طورپرعطا کیے ہیں جو بیشتر اوقات ہمارے پیش نظر نہیں رہتیں بلکہ ہم اپنی خود ساختہ ترجیحات کے ساتھ نیک بننے کی کو ششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ وہ ترجیحات ہیں کہ ہم میں لازماً نرم مزاجی اور ہمدرانہ رویہ کا شعور پیدا ہوگاجو ہمیں اپنے رب کے آگے سربسجود ہونے کا موقع عطا کرے گا۔پھرہم اس قابل ہو جائیں گے کہ اِس وسیع و عریض دنیا میں ہم اپنے حقیقی مقام کو دریافت کرلیں ، اپنے انجام کے تعلق سے فکر مند ہوجائیں، اپنی زندگی کے جوڑے اور تکمیلی حصے کے تعلق سے باشعور اوربیداری ہم میں آجائے۔اپنی مستقل زندگی کو دریافت کرنے کے لیے الکتاب ہماری بڑی مددگار ثابت ہوگی اور یہ کتاب جس ذاتِ رحمت پر نازل ہوئی، یعنی حضر ت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم، انکے اُسوہ حسنہ، اُن کے کردار اوراُن کے اخلاق، ان کی زندگی کے شب و روز ہمارے لیے مشعلِ راہ بننے کے لیے پہلے سے موجودہیں کہ کس طرح اُنہوں نے اِس دنیاوی زندگی میں اپنی ایماندارانہ زندگی کے ساتھ اپنی کاروباری اور سماجی سرگرمیاں جاری رکھیں اور کس طرح اُن کے رشتہ داروں سے اُن کے معاملات رہے اور کس طرح اُن کے قرض خواہوں یا قرض داروں کے ساتھ تعلقات رہے۔ یتیمیوں ، مسکینوں، بیواﺅ ں، لاچاروں اور محرومین کے ساتھ کس طرح کا طرز عمل اُس نے روا رکھا اوراِس سلسلے میں مزید اور کیا رہنمائی اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں پائی جاتی ہے۔

اِس کے بعد جو اہم کام باقی رہ جاتا ہے وہ یہ کہ اِن ترجیحات کی دریافت کے بعد رب کے اِن پیغامات کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں تک پہنچانے کی طرف توجہ دی جائے ۔ ہم اپنے اعلیٰ اخلاق اور مثالی کردار کے ذریعہ دعوت الی اللہ کا کام ہاتھ میں لیں اوراپنے اپروچ میں اخلاص پیدا کریں۔انسانیت کے ساتھ اِس سے بڑھ کر خیرخواہی اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ ہم ہدایت سے محروم انسانوں میں انکے رب کی رضا اور ناراضی کو جاننے کی خواہش جگائیں۔اِس طرح ہم اِنسانیت کے لئے فائدہ مند بن سکیں گے۔ اس دوران ہماری زبان پر یہی دُعا ہونی چاہیے کہ:ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنة وفی الاخرة حسنة وقنا عذاب النار۔” اے ہمارے رب! ہمیں دنیا بھی حسین دیجئے ، اور(اِس دنیا کے جوڑے یعنی)ہماری آخرت کو بھی ہمارے حسین بنادیجیو، اور ہمیں جہنم کی آگ کے عذاب سے بچا ئیو۔ “....آمین۔

اِس پیغام کو شعور کے کانوں سے سننے والا ہے کوئی بندہ خدا....!!!
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 75968 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.