پشتو زبان میں ایک محاورہ ہے "چی اوبہ زئی نو پہ کمزورے
زائے ورزئی " یعنی پانی راستہ نکالنے کیلئے کہیں پر جاتی ہیں تو سب سے پہلے
کمزور جگہ ہی کو نشانہ بنتی ہیں ، پتہ نہیں محاورہ کس وقت اور کن حالات میں
بنایا گیا تھا لیکن اسے موجودہ حالات میں سن کر لگتا یہی ہے کہیہ ہمارے
زمانے کیلئے یعنی ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں اس کیلئے خصوصی طور پر
ہے.اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں آپ کو ہر شعبہ زندگی میں کمزور افراد ٹارگٹ ہی
نظر آئے ہیں.معاشرے کے ایلیٹ کلاس خواہ و بیورو کریٹ ہوں ، سیاستدان ہوں یا
خان خوانین آپس میں رشتہ دارہیں اور اتفاق سے رہتے ہیں ، اور کمزور طقبے کو
ٹارگٹ کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں. اتنی لمبی تمہید شعبہ سپورٹس
میں کئے جانیوالے اقدامات کے بارے میں لکھی کہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح
شعبہ کھیل میں بھی "کھیل ہی کھیل" کمزوروں کو دبانے کی پالیسی جاری ہے.
ایک ماہ قبل سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ نے یہ کہہ کر ڈیڑھ سو سے
زائد ملازمین کوفارغ کردیا کہ ان کے پاس فنڈز کی کمی ہے اس لئے ڈیلی ویج
کلاس فور فارغ ، حالانکہ اسی ڈیپارٹمنٹ میں ایسے افراد مفت میں لاکھوں میں
تنخواو لے رہے ہیں جو بنیادی طور پر کوچ کی حیثیت سے لئے گئے ہیں نام کے یہ
لیجنڈ ہیں لیکن چل بھی نہیں سکتے تاہم انہیں لاکھوں میں تنخواہیں اس لئے
ادا کی جارہی ہیں کہ یہ صاحب لوگوں کے پاس بیٹھ کر 'خوشامدیں"کرنے کا فن
جانتے ہیں.حالانکہ سال میں صرف ایک یا دو مرتبہ آتے ہیں.ان کوچز کی ایک
تنخواہ پانچ ڈیلی ویجز ملازمین کے برابر ہیں ، چھ ماہ قبل ڈیلی ویج ملازم
کی تنخواہ اکیس ہزار کردی گئی . برق گری تو بے چارے غریب پر ، یوں کئی
سالوں سے ملازمت کرنے والے ڈیلی ویجز ملازمین فارغ کردئیے ، اب مزے اور
دلچسپ امر یہ ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے " کچھ مخصوص لوگوں" نے
اپنے بھائیوں کو ڈیلی ویج میں بھرتی کرلیا کہ گھر میں فارغ بیٹھنے سے بہتر
ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے تنخواہیں لے لی جائے ، اور یوں رشت داروں کے اس
ڈیپارٹمنٹ میں مزید رشتہ داروں کی ڈیلی ویج بھرتیاں جاری ہیں کچھ لوگ
سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو ڈائریکٹریٹ برائے رشتہ داران بھی کہتے ہیں. سوال یہ
بنتا ہے کہ اگر فنڈز نہیں تو صرف غریب کیلئے نہیں اور اگر رشتہ دار ہوں تو
پھرفنڈز میسر ہے . یہ کونسا قانون ہے
اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں عرصہ دراز سے کام کرنے والے کلاس فور ملازمین کو
بے عزت کرنے اور انہیں گالیاں دینے کی آڈیو بھی گذشتہ دنوں وائرل ہوئی جس
میں ایک خاتون آفسر"کلاس فور " ملازمین پر غصہ نکال رہی ہیں کہ یہ بے چارے
کہیں پر شکایت بھی نہیں کرسکتے اور نہ ہی کوئی ان کا پوچھنے والا ہے کیونکہ
یہ ڈیپارٹمنٹ تو اب " پی ایم ایس " افسران کیلئے مخصوص ہے ، اس لئے تو گریڈ
اٹھارہ کے بڑے صاحب کو گریڈ بیس کی سیٹ پر لگایا جاتا ہے جنہیں چھ ماہ بعد
گریڈ انیس میں پروموشن ملتی ہے.اس سے کم از کم ایک فائدہ تویہ ہے کہ کہ بڑے
صاحب کی سیٹ بھی پی ایم ایس کے قبضے میں رہے ,او ر ان رشتہ داریوں و
دوستیوں کی وجہ سے کلاس فور ملازمین کی وائرل آڈیو پر بھی کوئی کارروائی
نہیں کی جاتی کیونکہ بڑے صاحب بھی وزیراعلی کی ہدایت پر لائے گئے ہیں اس
لئے اگر مار پڑتی ہے ،گالیاں ملتی ہے یا نوکریوں سے نکالا جاتا ہے تو بے
چارے کلاس فور اور غریب ملازم کو ، اس سے اوپر والوں پر حکم کسی کانہیں
چلتا ، اور ویسے بھی کون پی ایم ایس اپنی دوستیاں و تعلقات کلاس فور کی
خاطر خراب کرے .
یہی تعلقات سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انجنیئرنگ ونگ بھی کنٹریکٹر سے خراب نہیں
کررہی ، بھلے سے کھلاڑیوں کا کھیل خراب ہو ، اب بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ
عوامی ٹیکسوں کے پیسوں سے بنے ہوئے سنتھیٹک کورٹ خواہ وہ بیڈمنٹن کے ہوں یا
لان ٹینس کے ، پشاور سپورٹس کمپلیکس میں ہوں یا حیات آباد سپورٹس کمپلیکس
میں یا شاہی باغ میں ، سب جگہ پر غیر معیاری کام ، لیکن آفیسرز میس سمیت
پولیس لائن میں کی جانوالے معیاری کام ہے ، ، ادائیگی ہینڈنگ ٹیکنگ ہونے کے
باوجود کردی گئی اور اب حال یہ ہے کہ سنتھیٹک کورٹ پر ببل بن رہے ہیں چھ
ماہ کے اندر ہی سب کچھ خراب ہوگیا ، اخبارات میں خبریں شائع بھی ہوئی ، غیر
معیاری کام کی نشاندہی کی گئی ، متعلقہ حکام کو تحریری طور پر آگاہ بھی کیا
گیا مگر نوٹس کون لے ، اب سوال تو یہ کرنے کا ہے کس طرح ایک کنٹریکٹر ایک
جگہ پر غیر معیاری کام کرتی ہے تو دوسری جگہ جہاں پر افسران ہوں پر معیاری
کام کرایا جاتا ہے کام کی تکمیل کے بعد ہینڈنگ ٹیکنگ ہوتی بھی نہیں لیکن
ادائیگی کی جاتی ہیں ایک جگہ پر معیاری اور دوسری جگہ پر غیر معیاری کام کی
وجہ یہی ہے کہ ایک جگہ پر افسران آتے ہیں اور دوسری جگہوں پر "کمی کمین اور
ان کی اولادیں" اس لئے "کمی کمین"کی اوقات بھی نہیں ہوتی . حالانکہ افسران
سمیت سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے بڑوں بڑوں کے گھروں کے چولہے انہی "کمی کمین"
لوگوں کے خون پسینے کی کمائی سے نکلنے والے ٹیکسوں سے چلتے ہیں لیکن اپنے
آپ کو"زمین پر خدا سمجھنے والے" اپنے اصلی خالق کو بھولے ہوئے ہیں.
"اپنے آپ کو زمین پر خدا سمجھنے والے " بڑے صاحب کا ایک واقعہ بھی چلتے
چلتے پڑھ لیں ، کچھ دن قبل ایک صاحب جو نیم صحافی ہے نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ
کے بڑ ے صاحب سے ملنے کی کوشش کی ، تو یہ انہیں یہ کہہ کر "بھگا دیا گیا"کہ
زہ مڑہ یو خو د دوی نہ تنگ یو" بس اشتہار غواڑی ، د ا لا د اخبار والا بلہ
دکانداری دہ ، یہ کہہ کر بڑے صاحب نے غصے میں نیم صحافی سے ملنے سے انکار
کردیا ، حالانکہ وہ غریب بڑے صاحب کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں مگر جب انہیں
پتہ چلا کہ نیم صحافی ان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ہیں تو پھرانہوں نے
بڑی دوڑ لگائی لیکن شکر ہے کہ نیم صحافی نے غیرت کھاتے ہوئے ملنے سے
انکارکردیا ، اس واقعے کے بتانے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ کچھ نشہ اور غلطی
" بڑے صاحب " کا ہے تو کچھ ہمارے ہاں سرکار کے گود میں بیٹھ کر مدح سرائی
کرنے والے سرکاری ملازمین نما صحافیوں کا بھی ہے جو "خوشامد"کرنے پرآئے تو
پھر سننے والا بندہ بھی اپنے اتعریفیں سن کر "حیران و پریشان"ہو تا ہے کہ
میں اتنے بڑی خوبیوں کا مالک ہوں ، اور اگر یہی سرکاری ملازمین نما صحافی
ہاتھ میں مائیک لے تو پھر ایونٹ میں مائیک پر دس صحاافیوں کی نمائندگی کرتے
ہوئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ "جائو صحافیوں پینتیس ڈبے چاولوں کے لے لو"
اور کھا لو.پرائے واسکٹ پہن کر اپنی اوقات بھولنے کی عادت سب میں ہے کیا
سرکاری نما صحافی اورکیا بڑے صاحب..
|