مادیت اور ہم

نہ جانے کب مادہ پرستی کا طلسم ٹوٹے گا؟
نہیں معلوم کب مغربی آسیب کے بادل چھٹیں گیں؟
کب ہمارے گھر کے آنگن میں مشرقیت پروان چڑھے گی؟
کب ہماری حمیت انگڑائی لے گی؟
کب باد سموم کے جھونکے تھمیں گے؟
نہ جانے کب ہم سماجی تفریق کے بالا خانوں سے نیچے اتریں گے؟ نہ جانے کب ہم مغرب کی تہزیب کی صنعتوں سے بہرہ مند ہونا اپنا زیاں تصور کریں گے؟
کب تہذیب نوی ہماری روحوں کو گھائل کرنا چھوڑے گی؟
پتا نہیں کب مغربی دستکاریوں کے چابک ہم پر برسنا رک ہو جائیں گے؟
کب ہمارا پا بہ زنجیر ہونا ہماری عقل کے دروازے پر دستک دے گا؟
کب ہماری دہلیز مغربی آلائشوں سے پاک تصور ہوگی؟
کب خودی فریبی کے دراز سلسلے اپنے اختتام کو پہنچیں گے؟
کب غیر فطری رجحانات اپنے انجام کو پہنچیں گے؟
کب ہمارے در و دیوار اس کی حدت سے پناہ میں ہوں گے؟
کب معاشرتی آلودگیوں کے اسباب کے راستے مسدود ہو جائیں گے ؟
کب باطل رسموں کے سب سامان محدود ہوجائیں گے؟
کب انسانیت سوز پست معیار نا بود ہوجائیں گے؟
کب یہ دیواریں گرائی جائیں گیں؟
کب رکاوٹیں ہٹائی جائیں گیں ؟
کب بیناؤں کو بنائی ملے گی؟
کب داناؤں کو دانائی ملے گی؟
کب وہ بستیاں اہل عقل جن کے مکیں ہیں ان کی آہ فغاں زندہ لاشوں کی سماعتوں پر دستک دیں گی؟
کب اہل دانش فنکاروں پر سبقت لے جائیں گے؟ کب اہل تکلم مزاح نگاروں پر سبقت لے جائیں گے؟
کب بے ہنر، ہنر مند بننے کی جستجو کریں گے؟
کب اہل سکوت گفتگو کریں گے؟
کب چشم لا شعور میں شعور اجاگر ہوگا؟
کب جہالت کا شجر لاغر ہوگا؟
کب رگ و جاں میں موجود عہد الست ضمیر سے متقاضی ہوگا؟
نہ جانے کب چشم تر کی شنوائی ہوگی؟
ہاں اس کائنات میں اتفاقات کی دنیا سے زیادہ وجود ممکنات کی دنیا کا ہے۔ اتفاقات کی دنیا حقیقت سے طویل مسافت پر ہے جبکہ ممکنات کا وجود حقیقت کے قریب تر ہے۔ اتفاقات غیر یقینیت کی جنم گاہ ہے جبکہ ممکنات امید اور رجائیت پسندی کی آماجگاہ ہے۔ در حقیقت ممکنات رموز حیات انسانی کا مظہر ہے۔ خدا نے انسان کے علاوہ روئے زمین ، مخلوقات اور باقی نظام کو تخلیق کیا اور ان کے بقا کے اسباب ان کو بہت حد تک ودیعت کر دیے۔ جبکہ انسان سے بنسبت مذکورہ بالا دوگنا معاملہ کیا۔ ربط اور ضبط دونوں دیے۔ اسے بقا کی قوت بھی بخشی اور کن فیکون کا مشروط اختیار بھی۔ خواہشات اور عقل کو یکجا کرکے فقط اسی مخلوق کو آراستہ کیا۔ احساسات و جذبات سے اسے مزین کیا۔ جوہر تکلم بھی دیا اور کچھ مخلوقات پر عارضی حاکمیت بھی۔ خلیفة اللّٰہ کا تمغہ بھی اسی کی جبیں پر سجایا۔ احسن تقویم کی سند بھی اسے عطا کی۔
لیکن کس طرح انسان اپنی خدا داد قویٰ سے کما حقه استفادہ کر کے فطرت کے قریب تر زندگی گزار سکتا ہے۔؟؟؟؟؟
جس طرح آکسیجن اور ہائڈروجن گیس کے تعامل سے موزوں درجہ حرارت اور دباؤ کے بغیر پانی نہیں بن سکتا بعینہٖ انسان غیر فطری رجحانات کے حصار میں رہتے ہوئے فطرت کے انعامات کو بروئے کار لاتے ہوئے نقطہ کمال حاصل نہیں کر سکتا۔ انہی رجحانات کے تحت نہ ہمارا شعور اجتماعی شعور سے سبقت حاصل کر سکتا ہے نہ ہماری عقل ،عقل سلیم کا روپ دھار سکتی ہے، نہ ہمارا قلب ،قلب منیب کی سند حاصل کر سکتا ہے۔نہ ہمارے وجود سے مثبت چیزیں ساطع ہو سکتیں ہیں۔ نہ ہمارا تخیل عقل سے ماورا حقائق کو درک کر سکتاہے۔ غیر فطری رجحانات کے تحت نہ تو انسان مافوق الفطرت مظاہر کے دقیق و عمیق رازوں سے واقف ہو سکتا ہے اور نہ قضا و قدر کے معاملات کی گہرائی اور گیرائی کو سمجھ سکتا ہے۔ انسان کی عقل اور مذکورہ بالا چیزوں کے درمیان حائل دبیز پردے غیر فطری روش کا نتیجہ ہیں۔
یورپ میں اہل فلسفہ و دانش نے کائنات کے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھانے اور انسانی زندگی کو ضابطے کے تحت گزارنے کیلئے 2500 قبل اپنی کاوشوں کا آغاز کیا۔ اچھے حکومتی نظام کی تشکیل کیلئے کئی نظاموں جیسے بادشاہت،مطلق العنایت،اشرافیہ، جمہوریت وغیرہ وغیرہ پر طبع آزمائی کی۔ اچھے معاشرتی نظام کی تخلیق کیلئے لا تعداد اور متنوع قوانین بنائے۔ اچھے معاشی نظام کو استوار کرنے کیلئے شرق و غرب سے کیپٹلزم اور سوشلزم کے نظریات کی ترویج کی گئی مگر ہنوز عدم استحکام حکومت،معاشرت اور معیشیت میں اپنی جگہ پر قائم ہے۔ کیونکہ ان سب کی بنیاد غیر فطری تھی۔
کیونکہ جس ذات نے انسان کو جس فطرت پر تخلیق کیا ہے اسی فطری رجحان پر قواعد وضوابط وہ ذات خود بتا سکتی ہے۔ شریعت، دین اسلام اور قرآنی تعلیمات کچھ بھی نہیں یہ سب خدا کی تخلیق کردہ فطرت انسانی پر چلنے کی حدود و قیود ہیں۔ ثواب کا فلسفہ فقط انسان کے لالچی پن کی تشفی ہے۔ دین مبین اسلام کو اگر عدالت کے عنصر سے ہٹ کر ثواب کے زاویے سے پرکھا جائے تو سب کچھ مذاق لگتا ہے۔ اس لیے بقول سید روح اللّٰہ *"ملاں کے فلسفہ ثواب نے دین اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔"*
«ختم شد»
 

Muhammad Suqlain
About the Author: Muhammad Suqlain Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.