کیوں نہ پھولوں کو چنا جائے

پھول چاہے کوئی سا ہو اسے دیکھتے ہی طبیعت میں ایک شگفتگی ایک نکھار سا پیدا ہوتا ہے اور بعض پھولوں کو بعض پر انکی خوشبو کی وجہ سے فوقیت دی جاتی ہے کہ کتنی پیاری اور دیرپا خوشبو ہے ۔ گلاب تو ویسے ہی بادشاہ ہے البتہ وہ کہتا ہے کہ مجھ تک پہنچنے کا راستہ پتھریلا تو نہیں مگر کانٹوں بھرا ہے اگر ان سے الجھو گے تو اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاؤ گے لہولہان کرلو گے سمجھدارییہ ہے کہ ان کو نظرانداذ بھی نہ کرو مگر ان سے اپنے آپ کو بچاتے ہوۓ مجھ تک پہنچو اور اپنے آپ کو میری خوشبو سے مہکا لو ہم نے کانٹوں سے الجھنا اپنا طریقہ بنا لیا ہے اتنا زیادہ اپنے آپ کو الجھا لیا ہے کہ اپنے لہولہان ہونے کا احساس ہی ختم ہو گیا ہے بقول شاعر ع. خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں ہم کو اپنے ارد گرد سب کچھ برا یا غلط ہی کیوں نظر آتا ہے ہم مکھی کی طرح گندگی کی تلاش میں کیوں سرگرداں رہتے ہیں ہم لوگوں میں عیب کیوں تلاش کرتے ہیں ان پر تہمتیں کیوں لگاتے رہتے ہیں بغیر جانے کیا صحیح ہے کیاغلط دوسروں کو غلط ثابت کرنے کی روش کیوں ہمارا وطیرہ بن گئی ہے ہمیں سوچنا ہو گا کیونکہ ہمارے یہ انداز ہم کو تو تباہ کر چکے ہماری آئندہ نسلوں کو بھی برباد کردینگے ہم کو اپنے اردگرد اچھائیاں کیوں نظر نہیں آتیں ہم کو اچھے لوگ کیوں نظر نہیں آتے ان کے وہ کام کیوں نظر نہیں آتے جو وہ بیغرضی سے خلق خدا کی خدمت کے لیۓ کرتے ہیںیا کر رہے ہیں اور اپنے ان نیک کاموں کا ڈھنڈورا بھی نہیں پیٹتے اور ایک اچھی خاصی تعداد ہے ان اللہ کے نیک بندوں کی مگر ہم ان سب نیکیوں کو بجاۓ اجاگر کرنے کے نظر انداز کرتے ہیں بلکہ کسی بہت ہی اچھی شخصیت کے متعلق کوئی جھوٹی غلط بات کہی جاتی ہے تو عام لوگ تو الگ میڈیا چڑھ دوڑتا ہے نہ اصل معاملہ کی تحقیق کرے گا نہ اس شخصیتیا تنظیم کی اچھی شہرت کو مدنظر رکھے گا بس سارا بغض نکال دے گا اس کے خلاف اور جب حقیقت سامنے آتی ہے تو سناٹا خدارا پاک سرزمیں کو گلزار بنایۓ بلکہ گلزار تو یہ ہے اس میں خوشبوئیں پھیلائیں اسے مہکائیں ان لوگوں کے نیک کاموں کو سراھیں جو شب و روز ایک اچھا معاشرہ بنانے کی جدوجہد میں رہتے ہیں ان کا ھاتھ بٹایۓ ان کو احساس دلایۓ کہ کار خیر میں آپ بھی انکے ساتھ ہیں ذرا تجسس کیجیۓ آپ کو ہزاروں کی تعداد میں افراد اور سینکڑوں ایسی تنظیمیں اور ادارے مل جائیں گے جو کسی نہ کسی حوالے سے بندگان خدا کی خدمت کو فرض سمجھ کر نبھا رہے ہیں انکے کاندھے سے کاندھا ملا کر ان کو مظبوط کیجیۓ عام لوگوں کے مسائل حل کیجیۓ ضروری نہیں کہ اچھا کام صرف پیسے سے ہوتا ہے جو بھی صلاحیت آپ کے پاس ہے بروئیکار لایۓیہ جو ہم نے اپنا اوڑھنا بچھونا سیاست کو بنالیا ہے وہ غلط ہے بقول شاعر ع اور بھی غم ہیں زمانے میں سیاست کے سوا راحتیں اور بھی ہیں حکومت کرنے کی راحت کے سوا. (شاعر سے معزرت) ایک ایسا ملک جہاں خواندگی شرمندگی کی حد تک کم ہو وھاں ہم اور کسی موضوع پر چاہے بات کرسکیںیا نہیں مگر سیاسی گفتگو میں سب استاد ہیں اس لیۓیہی سوچ کر اپنے آپ کو ان کانٹوں سے بچاۓ رکھیۓ کہ ع انکا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے اپنے آپ کو اچھا بنایۓ اچھے اور صحتمند رجحان والے کام کیجیۓ اور سوچ لیں اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے کے لیۓ دوسروں کو برا کہنا انکو برا ثابت کرنے کی کوشش کرنا کوئی اچھی سوچ نہیں ہے یہ کبھی بھی نہیں کہا جانا چاہیۓ کہ اچھے لوگوں کے لیۓ سیاست شجر ممنوعہ ہے کیونکہ اگر اچھے لوگ اس طرف نہیں آئیں گے تو حکومتوں میں دیانتدار اور مخلص لوگ کیسے پہنچیں گے اپنے آپ کو اچھا بنا کر سیاسی میدان میں جگہ بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے مگر قوت ارادی مظبوط اور ثابت قدمی لازمی شرط ہے اپنی اچھائی سے دوسروں کو گرویدہ بنا لیجیۓ مخالف کو لعن طعن کا نشانہ نہ بنایۓ اپنے مقاصد اور ارادے لوگوں کے سامنے رکھیۓ مشکلات بے انتہا ہونگی مگر منزل آپ کی ہو گی اگر ہمیں ایک اچھا معاشرہ ترتیب دینا ہے تو برائیوں کو ایسے نظرانداذ کرنا ہوگا کہ اچھائیوں کو بڑھا دیں جتنا نیکیاں اور اچھے اعمال بڑھیں گے برائیاں ختم نہیں تو کم ضرور ہو جائیں گی بہت عرصے پہلے ایک چھوٹی سی بات بچوں کے رسالہ میں پڑھی کہ استاد نے تختہ سیاہ پر چاک سے ایک لکیر کھینچی اور ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہو گۓ پھر کلاس میں موجود پھولوں(بچے پھول ہی تو ہوتے ہیں)سے پوچھا کون ہے وہ جو اس لکیر کو بغیر ڈسٹر یا ھاتھ لگاۓ چھوٹا کر دے کلاس میں سناٹا چھا گیا ایک بچے نے ہمت کی سر یہ ہو ہی نہیں سکتا بلکہ کوئی جادوگر ایسا کر سکتا ہے پوری کلاس اس کی ھاں میں ھاں ملانے لگی پھر خاموشی چھا گئ کہ پچھلی سیٹوں سے ایک ہلکی اور ڈری ہوئی آواز آئی”سر کیا چاک استعمال کرنے کی اجازت ہے” استاد نے چاک اٹھا کر خود اس بچے کے ھاتھ میں پکڑا دی اور ایک ملی جلی کیفیت سے اس کو تختہ سیاہ کی طرف جاتے دیکھنے لگا بچہ نے اس لکیر کے نیچے ایک اور بڑی لکیر اپنے کانپتے ھاتھوں سے کھینچ دی استاد نے اس کا ماتھا چوما اور شاباش دی اور پوری کلاس سے تالیاں بجوائیں سبق یہی تھا کہ برائیاں ایسے ختم نہیں ہونگی کہ ہم دنیا کو برا ثابت کرتے رھیں ان پر تنقید کرتے رہیں انکو برے الفاظ اور القابات سے نوازتے رہیں بلکہ خود کو بہتر سے بہتر بنائیں اچھائیوں کو شہرت دیں برائی سے اپنے آپ کو دور رکھیں

Tariq Asif Siddiqui
About the Author: Tariq Asif Siddiqui Read More Articles by Tariq Asif Siddiqui: 7 Articles with 3335 views I am a 63 years old retired banker, who has a passion to write what he percieves about social and political issues of this country, also tries his bes.. View More