آزادی کی 75؍ویں جشن کی سب خراب سوغات یہ ہے کہ بلقیس بانو کی عصمت دری
کرنے والوں اور ان کے اہل خانہ کی چار خواتین کی آبروریزی اور تین سالہ
بچی سمیت سات لوگوں کا قتل کرنے والوں کو رہا کردیا گیا ۔ اس طرح لال قلعہ
کی فصیل سے وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ خواتین کے احترام کا پاکھنڈ بھی
بے نقاب ہوگیا۔ انہوں نے خواتین کی طاقت اور خواتین کے احترام پر زور دیتے
ہوئے کہا تھا کہ میں اپنا درد لال قلعہ سے بتانا چاہتا ہوں۔ میں اپنے اندر
کے اس درد کوہم وطنوں میں نہیں تو اور کہاں بانٹ سکتا ہوں۔ مودی کا درد یہ
تھا کہ کسی وجہ سے ہم نے اپنے اندر ایک خرابی پیدا کر لی ہے۔ ہم لوگ اخلاق
میں اور الفاظ میں خواتین کی توہین کرتے ہیں۔ اس اعتراف کے بعد انہوں نے یہ
نصیحت کی کہ ہم اپنی تقریر اور طرز عمل میں کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے
خواتین کی عزت کو ٹھیس پہنچے۔ اس کے بعد انہوں نے شہریوں کو اپنی ذمہ داری
یاد دلائی اور ان کو ادا کرنے تلقین کی۔ اس تناظر یہ دیکھنا اہم ہے کہ مودی
جی کی جنم بھومی گجرات میں بی جے پی کی سرکار نے خواتین کی عزت کو کیسے
ٹھیس پہنچائی ۔ اِدھر تقریر ختم ہوئی اُدھر بلقیس بانو اور ان کے خاندان
والوں پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑنے والوں کی رہائی عمل میں آگئی حالانکہ
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کو پھانسی پر چڑھا دیا جاتا مگر انہیں رہا
کردیا گیا ۔ یہ ہے وزیر اعظم کے درد کا عملی اظہار ہے جس پر وہ پروچن (وعظ
و نصیحت ) کر رہے تھے ۔
آزادی کے امرت مہوتسو کی تقریبات کے تحت مرکزی وزارت داخلہ کی ہدایت پر جب
جیل میں سزا کا 50 فیصد وقت مکمل کرنے والے پچاس سال اور اس سے زیادہ عمر
کی خاتون اور تیسرے صنف کےا فراد ، کل سزا کا پچاس فیصد وقت قید میں مکمل
کرنےو الے ساٹھ سا ل یا اس سے زیادہ عمر کے مرد قیدی، 70فیصد یا اس سے
زیادہ کے معذورا فراد جنھوں نے سزا کا پچاس فیصد وقت مکمل کرنے والوں کو
رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس کا فائدہ اٹھا
کر کیسے درندوں کی رہائی عمل میں آئے گی ۔ لوگ تو سوچ رہے تھے کہ اس سے وہ
مریض جن کی میڈیکل بورڈ لاعلاج مرض میں مبتلا ہونے کی تصدیق کردے اور وہ
سزا کے دوتہائی یعنی 66فیصد سزا مکمل کرچکے ہوں تو انہیں رہائی ملے گی
جرمانہ کی رقم نہیں ادا کر پانے واے غریب یا بے سہارامحصورین کو 15اگست تک
رہا کیا جائے گا یعنی صدیق کپن اور معذور پروفیسر سائی بابا جیسے لوگوں کو
اس کے ذریعہ رہا ئی نصیب ہوگی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ کرم فرمائی تو
کسی اور ہی سازش کا حصہ تھا ۔
مذکورہ بالا سرکاری سہولت کا غلط استعمال روکنے کی خاطر یہ ضمیمہ لگایا گیا
تھا کہ بعض سنگین مقدمات میں سزا یافتہ قیدیوں جیسے کہ سزائے موت، عمر قید
اور دیگر مقدمات پر یہ چھوٹ لاگو نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود گجرات کے بلقیس
بانو اجتماعی عصمت دری کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے تمام 11 مجرموں کو
گودھرا جیل سے رہا کر دیا گیا ۔ انہیں اس سرکاری معافی کی پالیسی کے تحت
رہا کیا گیا جس کے وہ مستحق نہیں تھے ۔ ان ملزمین کو 2004 میں گرفتار کیا
گیا تھااور انہیں 2008 میں سزا سنائی گئی تھی۔ان پر 3 مارچ 2002 کو احمد
آباد کے قریب رندھیک پور گاؤں میں گودھرا فسادات کے دوران بلقیس بانو کے
خاندان پر بھیڑ کی شکل میں حملہ کرنے کا الزام ثابت ہوگیا تھا ۔ اس حملے
میں بلقیس کے خاندان کے سات افراد مارے گئے تھے۔ اس وقت بلقیس بانو پانچ
ماہ کی حاملہ تھیں۔ ان کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی ۔ سماعت کے
دوران عدالت کو بتایا گیا کہ چھ دیگر ملزمین فرار ہیں ۔ ممبئی کی ایک خصوصی
سی بی آئی عدالت نے 21 جنوری 2008 کو اس معاملے میں 11 مجرموں کو عمر قید
کی سزا سنائی تھی۔ بمبئی ہائی کورٹ نے بھی ان کی سزا کو برقرار رکھا تھا۔
ان مجرموں نے 15 سال سے زیادہ قید کاٹی۔ ان میں سے ایک نے قبل از وقت رہائی
کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو اس کی
سزا کے معاملے میں معافی کو دیکھنے کی ہدایت کی اس کا فائدہ اٹھا کر ان
درندوں کوبے لگام کردیا گیا ۔
اس معاملے کا سب سے بھیانک پہلو یہ ہے کہ جس سماجی جہد کار نے بلقیس بانو
کو انصاف دلانے کی خاطر جن ہتھیلی پر رکھ کر کام کیا وہ تیستا سیتلواد فی
الحال گجرات کی جیل میں ہے۔ وزیراعظم نے 76ویں یوم آزادی پر قوم سے اپنے
خطاب میں اعتراف کیا کہ خواتین ہمارے معاشرے کے ہر شعبے میں بہت بڑا تعاون
دے رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تیستا سیتلواد جیسی خواتین کے عظیم تعاون کا
انعام یہ ہے کہ ان پر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں جیل کے پیچھے بھیج دیا
جائے تاکہ کوئی مظلومین کی دادرسی کے لیے آگے نہیں آئے۔ ظالموں اور
جابروں کو سزا نہ دلائے اور اگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوجائیں تو قانون
کی آڑ میں ان کی کوششوں پر پانی پھیر دیا جائے۔ ایک طرف یہ ظالمانہ رویہ
اور دوسری جانب تقریر میں امید جتانا کہ اگلے 25 سالوں میں زندگی کے تمام
شعبوں میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شراکت ہوگی اور ملک کی بیٹیاں ہندوستان
کو مزید بلندیوں پر لے جائیں گی، سراسر منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟ وزیر
اعظم کا یہ فرمان درست ہے کہ خواتین نے انہیں متاثر کیا ہے اور وہ آگے
آرہی ہیں لیکن بلقیس بانو پر ظلم کرنے والوں کو رہا کرواکر انہوں نے بلقیس
کے ساتھ ساتھ تیستا جیسے لوگوں کو بھی مایوس کیا ہے ۔جلد یا بہ دیر ملک کی
خواتین اس توہین کا انتقام ضرور لیں گی اور بی جے پی کو اس کے کیے سزا مل
کر رہے گی ۔
وزیر اعظم مودی نے پچھلے سال اور اس بار بھی لال قلعہ کی فصیل سے خطاب میں
تقسیم کے درد سے ہندوستان کے سینہ چھلنی ہونے کا ذکر کیا ۔ وزیر اعظم کو
سترّ سال پرانا درد تو محسوس ہوتا ہے بیس سال قبل احمد آباد کی ذکیہ جعفری
کا درد نہیں محسوس ہوتا حالانکہ اس کے لیے وہ بذاتِ خود قصوروار ہیں۔ احسان
جعفری اور ان کے گھر میں بند بے قصور لوگوں کی موت کے لیے مودی انتظامیہ
براہِ راست ذمہ دار ہے۔ پہلے تو وہ اسے روک نہیں سکے اور پھر اس جرم کا
ارتکاب کرنے والوں سزا بھی نہیں دلاسکے بلکہ بری کروا دیا۔ آزادی کے اس
جشن کی آڑ میں انہوں نےخود تو کلین چٹ حاصل کرلی اور مظلومین کو انصاف
دلانے کی خاطر جدوجہد کرنے والی تیستا سیتلوادکو جیل بھجوا دیا ۔ سوال یہ
ہے کہ کیا تیستا اور ذکیہ جعفری خواتین نہیں ہیں اور ان کے ساتھ بدسلوکی کا
ارتکاب کون کررہا ہے؟ یوگی نے محمد جاوید کے نام پر نوٹس دے کر پروین فاطمہ
کا گھر ڈھادیا اور ان کی دوبیٹیوں سمت پورے گھر کو بے خانماں کردیا ۔ وزیر
اعظم کو ان خواتین کا درد بھی محسوس کرنا چاہیے لیکن ان سے یہ توقع کرنا
مناسب نہیں معلوم ہوتا کیونکہ جس شخص نے اپنی شریک حیات کی حق تلفی کی ہو
وہ بھلا دوسری خواتین کا خیر خواہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ کتنے افسوس کی بات ہے
کہ ملک کے وزیر اعظم کی زوجہ کے پاسپورٹ کی درخواست رد کردی جاتی ہے کیونکہ
وہ شادی کا مشترکہ حلف نامہ جمع کرنے سے قاصر ہے۔
وزیر اعظم کو پتہ ہونا چاہیے کہ ملک کی خوددار خواتین ان کے ذریعہ بہائے
جانے والے مگر مچھ آنسووں کی محتاج نہیں ہیں ۔ ان خواتین کا حوصلہ کس قدر
بلند ہے یہ جاننے کے لیے جیل میں بند صحافی صدیق کپن کی نو سالہ بیٹی کی
تقریر سن لینا کافی ہے ۔ ایک دلیر باپ کی نڈر بیٹی نے اپنے اسکول میں یوم
آزادی کے موقع پر تقریر میں شہریوں کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں
نے کہا کہ مذہب، رنگ اور سیاست کے نام پر شہریوں کو حقوق سے محروم نہیں کیا
جا سکتا۔ صدیق کپن کی بیٹی مہناز کپن نے کہا کہ ہندوستانیوں کو قربانی اور
شہادت کے بعد آزادی ملی۔ آج ہندوستان میں اپنی مرضی کے مطابق بولنے، کھانے
پینے اور کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے کی آزادی ہے۔صدیق کپن کو حق کی آواز
بلند کرنے کے سبب قید کردیا گیااس کے باوجود ان کی بیٹی ببانگ دہل کہتی ہے
اظہار رائے کی ہندوستان میں آزادی ہے۔ آپ اختلاف کرنے والوں کو خاموش نہیں
کرسکتے ۔ مہناز نے مودی سرکار کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ، ’’ہماری عزت کو
کسی کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے۔ ہمیں متحد ہوکر بدامنی کا ماحول ب بدلنا
ہوگا ۔ مذہب، رنگ اور سیاست کے نام پر حملوں کو روکنا ہوگا اور ایک بہتر کل
کا خواب دیکھنا ہوگا ۔ یہ تقریر ، یہ حوصلہ اور عزم ثابت کرتا ہے کہ مودی
اور یوگی اپنی خوفزدہ کرنے کی کوشش میں ناکام ہوگئے۔ وہ ایک ننھی مہناز کو
دہشت زدہ نہیں کرسکے تو بلقیس بانو اور تیستا سیتلواد کو کیا ڈرا سکیں گے ؟
وزیر اعظم مودی نے خواتین پر لب کشائی کرکے خود کو رسوا کرنے کے سوا کچھ
حاصل نہیں کیا ۔ عصر حاضر کی ان حوصلہ مند خواتین پر فرحت زاہد کا یہ شعر
صادق آتا ہے
عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں
اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں
|