چھوٹی سی نیکی، بڑا نتیجہ

کافی عرصہ پہلے ایک کہانی زیرِ مطالعہ آئی۔ اس وقت وہ کہانی اچھی لگی اور اس نے سوچنے پر مجبور کیا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، کہانی بھی دھول بن کر فضا میں تحلیل ہو گئی۔ اکثر کہانیاں یوں ہی زیرِ مطالعہ آ جاتی ہیں، وقتی طور پر اپنا اثر چھوڑ جاتی ہیں پھر لا شعور میں کہیں چلی جاتی ہیں۔ مطالعہ کا یہ سفر اسی طرح جاری رہتا ہے۔ آج کئی سال گزرنے کے بعد اس کہانی نے بالکل اچانک ذہن پہ دستک دینی شروع کی۔ پہلے کچھ دھندلی سی یاد آئی پھر آہستہ آہستہ اس کا نام اور حتیٰ کہ مرکزی کردار تک کا نام یاد آ گیا۔ اس حیران کن تجربے سے یہ احساس شدید ہو گیا کہ پڑھا ہوا، دیکھا ہوا اور سنا ہوا اپنا وجود رکھتا ہے۔ بظاہر وہ انسان کے ذہن کے پردے پر تازہ نہ بھی ہو، مگر وہ لا شعور میں، کسی نہاں خانے میں وجود رکھتا ہے اور جب انسان اپنی زندگی میں اس سے ملتا جلتا مشاہدہ کرتا ہے تو وہ پڑھا ہوا، دیکھا ہوا اور سنا ہوا یک دم ہی آ موجود ہوتا ہے۔ آئیے آج وہ کہانی آپ مجھ سے سنیے۔

برائن اینڈرسن نامی ایک شخص اپنے حالات کے باعث بے حد پریشان رہا کرتا تھا۔ اس کے بہت سے مسئلے تھے اور معاشی طور پر وہ اتنا مضبوط نہ تھا کہ اپنے گھرانے کی پریشانیوں کو حل کر سکے۔ ایک روز وہ یوں ہی کہیں سے گزر رہا تھا کہ ایک خاتون اسے سڑک کنارے کھڑی نظر آئی۔ اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی پریشانی میں مبتلا ہے اور کافی دیر سے یہیں کھڑی ہے۔ نوجوان اس کے پاس آیا اور مسئلہ دریافت کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی سوچ رہا تھا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں، اگر وہ مالی مدد کی محتاج ہو تو میں کیا کر سکوں گا۔ اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا جو وہ اس خاتون کو دے سکے پھر بھی وہ انسانی ہمدردی کے سبب استفسار کر بیٹھا۔ خاتون نے بتایا کہ خراب موسم کے باعث اس کی گاڑی سڑک پہ رک گئی ہے جو وہ ٹھیک نہیں کر پا رہی۔ وہ پچھلے ایک دو گھنٹوں سے لوگوں کو پکار رہی ہے لیکن اس لمحہ سب کو اپنے گھر جانے کی جلدی ہے۔ نوجوان مسکرایا۔ یہ کام اسے آتا تھا۔ تھوڑی دیر کی محنت کے بعد وہ اس کی گاڑی کا معمولی سا مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ خاتون نے اسے پیشکش کی کہ وہ اپنے کام کا معاوضہ لے لے مگر نوجوان نے تو یہ کام محض انسانی ہمدردی کے تحت کیا تھا اور ایک سیکنڈ کے لیے بھی معاوضے سے متعلق نہیں سوچا تھا لہٰذا اس نے خوش مزاجی سے پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ بس ایک کام کیجیے گا، جو چین میں نے شروع کی ہے، اسے جاری رکھیے گا۔ نیکی کی اس زنجیر کو ٹوٹنے نہیں دیجیے گا۔ خاتون گاڑی آگے بڑھا کر لے گئی اور کچھ فاصلے پہ واقع ایک کیفے میں ٹھہری۔ ویٹرس نے خاتون کی خدمت کی اور ہر اعتبار سے اسے آرام پہنچایا۔ اسے دیکھ کر خاتون نے سوچا کہ جانے کیا مجبوری ہے جو یہ ویٹرس اپنے حمل کے آخری ایام میں اتنی سخت مشقت کرنے پر آمادہ ہے۔ کھانا کھا کر خاتون نے میز پر سو ڈالر رکھے۔ ویٹرس چینج لینے کی غرض سے کاؤنٹر تک گئی لیکن جب تک وہ لوٹی، خاتون جا چکی تھی اور میز پہ ایک نوٹ چھوڑ گئی تھی کہ ایک نوجوان نے ایسے ہی میری مدد کی تھی اور کہا تھا کہ نیکی کی اس زنجیر کو ٹوٹنے نہیں دیجیے گا۔ تم بھی اسے میری طرف سے نیکی سمجھو اور یہ رقم رکھ لو۔ ویٹرس کی آنکھوں میں نمی سی تیرنے لگی، اسے واقعتاً اس رقم کی شدت سے ضرورت تھی۔ رات وہ اپنے بستر پہ دراز اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی کہ ہمارے پیسوں کا انتظام ہو گیا ہے، اب تمہیں پریشان نہیں ہونا پڑے گا "برائن اینڈرسن!"
مجھے یہ کہانی موجودہ حالات کی روشنی میں یاد آئی۔ اس وقت جو سیلابی صورتِ حال ملک کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، اس وقت ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی از حد ضرورت ہے۔ بہت لوگ اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ مدد کر رہے ہیں لیکن چند ایسے بھی ہیں جو اب بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ ہم بھلا کیسے مدد کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ انسان جو نیکی کرتا ہے وہ پلٹ کر ضرور آتی ہے۔ جو لوگ زمین پر اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں اللہ انہیں تنہا نہیں چھوڑا کرتا۔ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے بڑے نتائج دے جاتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کام بڑے بڑے پھل دے جاتے ہیں۔ کتنی ہی بار انسان کسی کو تکلیف میں دیکھ کر صرف اس خیال سے مدد کرنے سے رک جاتے ہیں کہ ہم تو خود نادار ہیں ہم بھلا اس کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔ اللہ ہمیں اتنا دے کہ ہم لوگوں کے کام آ سکیں۔ بعض اوقات بڑی بڑی نیکیوں کے انتظار میں چھوٹی چھوٹی نیکیاں کرنے کے مواقع ضائع کر دیتے ہیں۔ اگر برائن اینڈرسن بھی اسی خیال کے تحت رک جاتا اور خاتون کی مدد کے لیے آگے نہ بڑھتا تو شاید اس کو نیکی کرنے کا موقع مل ہی نہ پاتا اور وہ نیکی کی زنجیر اسے کبھی فائدہ نہ پہنچاتی۔ بھلے تھوڑا سا ہی صحیح، اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔ غیر ضروری خیالات میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنا وقت اس چیز پہ لگائیں کہ ایسا کیا ہے جو آپ سے ہو سکتا ہے۔ کوئی مدد چھوٹی نہیں ہوتی اگر نیت خالص ہو۔ غزوہ تبوک کے موقع پر جب غریب مسلمان چند کھجوریں ہی اللہ کی راہ میں دے رہے تھے تو منافقین یہ کہہ کر ان کا حوصلہ پست کیے جاتے تھے کہ چند کھجوروں سے کون سی جنگیں جیتی جاتی ہیں؟ لیکن چند چند کر کے بہت بن گئیں اور پھر یہی مسلمانوں کو کام آئیں۔

آج آپ اپنے گھر میں محفوظ چھت تلے ہیں مگر سندھ کے اکثر علاقوں، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں لوگ گھروں اور چھتوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ مال مویشی املاک سب پانی کی نظر ہو گئے ہیں۔ ایک بیج بہت چھوٹا سا ہوتا ہے مگر اس سے بننے والا درخت بہت بڑا اور مضبوط ہوتا ہے۔ اس کی جڑیں زمین میں مضبوطی سے دور تک پھیلی ہوتی ہیں۔ اس لیے آج آپ لوگوں کے ساتھ بھلائی کریں، ان کے مسئلوں میں اپنی حیثیت کے مطابق ان کا ساتھ دیں۔ کل اللہ آپ کے ساتھ بھلائی کرے گا اور اپنی وسیع ترین حیثیت کے مطابق آپ کے مسئلے دور فرما دے گا۔ نیکی کی اس زنجیر کو اپنے ہاتھوں سے شروع کریں یہ پھیلتی چلی جائے گی۔ کڑیوں سے کڑیاں جڑتی چلی جائیں گی اور یہ زنجیر اپنے بنانے والے کے پاس پلٹ کر ضرور آئے گی۔ چھوٹے سے بیج سے بننے والے درخت کی خصوصیت بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ چاہے کتنا ہی اونچا ہو جائے، اپنی زمین کو مضبوطی سے پکڑے رہتا ہے۔ نیکی کی زنجیر بھی چاہے جتنی دور تک پھیل جائے، وہ اپنے شروع کرنے والے کو مضبوطی سے جکڑے رہتی ہے اور پلٹ پلٹ کر اس کے پاس ضرور بِالضرور آتی ہے۔ خیر بانٹنے والے ہمیشہ خیر ہی سمیٹتے ہیں۔

 

Unaiza Ghazali
About the Author: Unaiza Ghazali Read More Articles by Unaiza Ghazali: 12 Articles with 6365 views Studying at university of Karachi, teaching Tajweed and various subjects, contributing in social work projects and living with the passion of writing .. View More