انسان میں شر کی کی طاقتیں دو ہیں ، ایک انسانی نفس یہ
اندرونی اور دوسرا شیطان یہ بیرونی طاقت ہے ،یہ دونوں طاقتیں انسان کو
گناہوں کی طرف لے جارہی ہوتی ہیں، اس لیے اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان
سے کچھ نہ کچھ غلطیاں اور گناہ صادر ہوجاتے ہیں ،کیوں کہ انسان خطا کا پتلا
ہے۔
سوائے انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کے کہ وہ معصوم تھے ، ان سے
کوئی گناہ صادر نہیں ہوتا تھا، نبوت سے پہلے بھی اور نبوت کے بعد بھی
انبیاء کی جماعت معصوم ہوتی ہے، معزز گھرانے کے افراد ہوتے ہیں ، اور اللہ
تعالیٰ ان کا بطور خاص انتخاب فرماتے ہیں ، یہ ہمارا اہل سنت والجماعت کا
متفقہ عقیدہ ہے۔انبیا ءکی تخلیق ہی ایسی ہے کہ وہ ان دونوں شر کی طاقتوں سے
محفوظ ہوتے ہیں ، انہیں جو نفس عطاکیاجاتاہے وہ نفس مطمئنہ ہوتاہے ، جس میں
طبعی طور پر ہر گناہ اور معصیت سے نفرت ہوتی ہے اور خالص عبادت اور رضا اس
نفس میں مجتمع ہوتی ہے،اور شیطان کے تسلط اور غلبہ سے وہ محفوظ ہوتے ہیں ۔اس
لیے ان کا ہر قول اور فعل نفسانی خواہش اور شیطانی تسلط سے پاک ہوتاہے ۔حتی
کہ حالت نوم میں بھی ان کا دل بیدار رہتا ہے ، اور ان کا مزاح بھی اتنا
پاکیزہ ہوتا ہے کہ حق کے دائرے سے باہر نہیں ہوسکتا۔جو شخص انبیاء کو معصوم
نہ سمجھے وہ گمراہ ہے۔اور صحابہ ؓکے بارے میں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ یہ
جماعت انبیاء کی طرح معصوم تو نہیں لیکن محفوظ ضرور ہے۔
استغفار کی فضیلت :
جب انسان خطا کا پتلا ہے تو ان خطاؤں کےازالے کے لیے قرآن کریم نے ہدایت
دی اور رہنمائی کی ، چنانچہ سورہ آل عمران کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں کہ میرے کچھ بندے ایسے ہیں جن کا حال یہ ہے کہ ’’اگر کبھی کوئی
فحش کام ان سے ہوجاتا ہے ،یا ان سے کوئی گناہ ہوجاتاہے(یعنی وہ اپنے اوپر
ظلم کرلیتے ہیں )تو فوراً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور وہ اللہ سے اپنے اس
گناہ کی معافی مانگنے لگ جاتے ہیں ، استغفار کرتے ہیں ، کیوں کہ وہ جانتے
ہیں کہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو؟ اور یہ لوگ کبھی
جان بوجھ کر اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے ‘‘۔اس آیت میں اللہ نے یہ بیان
کیا ہے کہ کسی سے گناہ ہوجائے تو اسے چاہیے فوراً اللہ کو یاد کرے ،ایسے
لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں ،یہ لوگ گناہ کے بعدفوراً توبہ اور استغفار کرنے
لگتے ہیں ، اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ، گناہوں پر جمتے نہیں ہیں ، ایسے
لوگوں کو اللہ مغفرت اور دخول جنت سے نوازے گا۔
امام ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا فرماتے ہیں کہ جب
یہ آیت اتری تو شیطان رونے لگا اور شیطان نے نے کہا:: اے میرے رب، تیری عزت
وجلال کی قسم! جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی اور وہ
زندہ رہیں گے میں انہیں گمراہ کرتا رہوں گا، تو اللہ نے فرمایا: میری عزت
وجلال کی قسم! جب تک میرے بندے مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے میں مسلسل ان
کو بخشتا رہوں گا۔
احادیث میں ہمارے نبی کریم ﷺنے استغفار کی بہت فضیلت بیان فرمائی ہے ۔
ایک حدیث میں رسول کریم ﷺفرماتے ہیں : جو شخص استغفار کی کثرت کرتا ہے یعنی
ہمیشہ استغفار کرتا رہتاہے ، مسلسل استغفار کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ ہر تنگی
اور پریشانی سے اس کے لئے راستہ نکال دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے آدمی
کو غم سے نجات اور رہائی نصیب فرماتے ہیں اور اس آدمی کو اللہ تعالیٰ ایسی
جگہ سے روزی پہنچاتے ہیں کہ اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا۔اسے معلوم بھی
نہیں ہوتا ایسی جگہ سے اللہ اس کو رزق عطا فرماتے ہیں ۔
یہ حدیث ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ ہم کثرت سے چلتے پھرتے ،اپنے کاموں میں
مشغول ہوں تب بھی استغفار کرتے رہیں ، اور اس کے تین بڑے فائدے اس حدیث میں
ہمارے پیارے رسول کریم ﷺنے ہمیں بتائے ہیں ۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ استغفار کی
برکت سے اللہ ہمیں پریشانی وں سے بچائیں گے اور اگر کوئی آدمی کسی پریشانی
میں مبتلا ہوگا اللہ تعالیٰ اس پریشانی سے اس کو نکال دیں گے۔
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ہر غم سے اللہ ہمیں نجات عطا فرمائیں گے۔اور تیسرا
فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی جگہ سے روزی دیں گے جہاں ہمارا
گمان بی نہیں ہوگا،غیب کے خزانوں سے ہمیں اللہ تعالیٰ روزی عطا فرمائیں گے۔
نبی کریم ﷺکا خود استغفار کی کثرت کرنا
نبی کریم ﷺتو تمام گناہوں سے معصوم تھے ، پھر بھی آپ ﷺکثرت سے استغفار کرتے
تھے ، چنانچہ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو (پہلے) تین مرتبہ استغفار
کرتے اور (پھر) یہ دعا پڑھتے: اللھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا
الجلال و الاکرام۔ " (صحیح مسلم)
مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ جب سورہ نصر نازل
ہوئی توآپﷺبکثرت « سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ
وَأَتُوبُ إِلَيْهِ» پڑھتے تھے۔ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس حدیث پر عمل کریں
اور نمازوں کے بعد " أَسْتَغْفِرُ اللَّه"پڑھنے کا اہتمام کریں۔
ایک دوسری حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ کی قسم ! میں دن میں ستر بار سے
زیادہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔ (بخاری)
آپ ﷺتو معصوم تھے ،پھر بھی اتنی کثرت سے استغفار کرتے تھے ، اس سے مقصود
امت کو،ہمیں استغفار وتوبہ کی ترغیب دلانا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم باوجودیکہ معصوم اورتمام مخلوقات سے افضل ہیں پھر بھی جب آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے دن میں ستر بار توبہ واستغفار کی تو امت کے گنہگاروں کو
بطریق اولیٰ استغفار وتوبہ بہت کثرت سے کرنی چاہئے ۔
استغفار کے کلمات:
اب استغفار کن کلمات یعنی کن الفاظ سے کرنا چاہیے ، اس کے لیے احادیث میں
مختلف الفاظ آئے ہیں ، جس آدمی کو جو یاد ہوں وہ کلمات استغفار کے پڑھتے
رہنا چاہیے۔
ایک کلمہ استغفار کا "أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِى لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ
الْحَىُّ الْقَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ "ہے جس کو یہ یاد ہو یہ پڑھتارہے
،
ایک کلمہ " أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَ أَتُوبُ
إِلَيْهِ " ہے یہ بھی پڑھ سکتے ہیں اور جس کو یہ یاد نہ ہوں تو "
أَسْتَغْفِرُ اللَّه"،"أَسْتَغْفِرُ اللَّه"ہی پڑھتا رہے۔یہ مختصر کلمہ ہر
مسلمان کو یاد ہوتاہے اسے پڑھتے رہنا چاہیئے ، اس کو زبان پر ہر وقت جاری
رکھیں اللہ تعالیٰ ہمیں استغفار کی تمام فضیلتیں عطا فرمائیں گے۔
توبہ کی فضیلت:
اسی طرح احادیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہر انسان خطا کار ہے ،یعنی ہر انسان گناہ کرتا ہے ،کوئی نہ کوئی غلطی سرزد
ہوجاتی ہے ، اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ یعنی جن لوگوں سے
گناہ ہوگیا اور انہوں نے اپنے گناہ سے توبہ کرلی یہ لوگ سب سے بہترین لوگ
ہیں ۔
اگر انسان گناہ سے توبہ نہیں کرتا بلکہ بار بار گناہ کرتا رہتاہے تو اس کا
دل سیاہ ہوجاتاہے۔اس لیے حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
:جب کوئی مومن یعنی مسلمان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ
جاتا ہے ،پھر اگر وہ اس گناہ سے توبہ کر لیتا ہے اور استغفار کرتا ہے تو اس
کا دل صاف کر دیا جاتا ہے یعنی وہ کالا نقطہ ہٹادیاجاتاہے، اور اگروہ آدمی
زیادہ گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر
چھا جاتا ہے اور پورا دل سیاہ ہوجاتاہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس سے حفاظت
فرمائے۔
جوآدمی گناہوں سے سچی توبہ کرتاہے اور اپنی توبہ پر قائم رہتاہے اللہ
تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو معاف کردیتے ہیں ،ایک حدیث میں آپ ﷺفرماتے ہیں
: گناہوں سے صحیح اور پختہ توبہ کرنے والا شخص ایساہے کہ گویا اس نے گناہ
کیاہی نہ ہو ۔اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ واستغفار کی کثرت کرنے کی توفیق عطا
فرمائے ۔
|