یہ مسلم معاشرہ

معاشرے میں رہتے ہوئے انسان کو ادبی، سماجی، تعلیمی، تہذیبی، اخلاقی اور روحانی اقدار کو نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ یہ اقدار ہی انسانیت کے اعلیٰ اقدار ہیں جو شخص ان اقدار سے محروم ہے، وہ انسان کہلانے کا حقدار نہیں ہے کیونکہ ان مذکورہ اقدار کے فقدان کے باعث انسان کا وجود معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔معاشرے میں اہمیت انسانیت کی ہے، روحانیت کی ہے او رجب انسان میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا تو وہ جانور سے بھی بدتر ہوگا۔

موبائل نے آج کے دور میں انسان کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے حالانکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ موبائل معلومات کا بہترین ذریعہ ہے؛ لیکن اس کے زیادہ اور بیجا استعمال سے نقصان کی صورت پیدا ہورہی ہے، اگرچہ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں؛ لیکن تربیت کے فقدان کے باعث نتائج یہ برآمد ہورہے ہیں کہ بچوں کی ذہنی صورت حال بگڑتی جارہی ہے کیونکہ جب بچوں کی تربیت ہی نہیں ہوگی تو ان کی نشونما بھی بہتر صورت میں نہیں ہو سکتی۔ ان کی سوچ میں بلندی، خودداری اور اعلیٰ ظرفی کے عناصر کہاں سے پیدا ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ لوگوں میں جھوٹ، چغل غوری، طعنہ زنی، تہمت، بداخلاقی، کردارکشی اور ایسے ہی بدترین قسم کے دیگر عناصر معاشرے میں تیزی سے فروغ پارہے ہیں۔ معاشرے میں لوگ اپنی بدعملیوں سے اپنے غلط مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں، معاشرے میں ایسا ماحول بن چکا ہے کہ تہذیبی اور اخلاقی اقدار تو کیا نظر آئیں گی، ایک دوسرے گفتگو کا لب ولہجہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جیسے آپس میں لڑرہے ہیں جدید ٹیکنالوجی نے ہماری بہت سی ادبی روایات کو تہہ تیغ کر دیا ہے یعنی اس دور میں تہذیبی، ادبی اور ثقافتی اقدار یکسر ختم ہوچکی ہیں۔ آج کے تعلیم یافتہ اس نئی ٹیکنالوجی کے اسیر ہو چکے ہیں۔ ان کی پوری زندگی اس نئی ٹیکنالوجی کی بھینٹ چڑھ رہی ہے، ادبی محفلیں جو اپنی رونق اور آب و تاب کی وجہ سے اپنا ایک خاص تاثر رکھتی تھیں، زوال پذیر ہورہی ہیں۔ اس جدید ٹیکنالوجی کے اسیر اس بات سے قطعی بے خبر ہیں کہ ہمارے والدین ہم سے گفتگو کرنے کے خواہشمند ہیں؛ لیکن اس موبائل سے ہی ان کو چھٹکارا حاصل نہیں ہوتا کہ وہ والدین سے گفتگو کریں۔ گھر آنے والے مہمانوں کا استقبال کرنا اور خاطرتواضع کرنا اب قصہ پارینہ بنتا جارہا ہے۔ اس طرح یہ مغربی موسیقی اور لباس کے شیدائی یعنی مغربی تہذیب کے علمبردار اندھیروں میں گھرتے جارہے ہیں، انھیں کچھ نہیں معلوم کہ ہم کیا کارہے ہیں، کہا ں جارہے ہیں اور کیا عمل انجام دے رہے ہیں اور کیا ہو رہا ہے۔ معاشرے میں ان کے بارے میں کیا تاثر پیدا ہورہا ہے۔ طالب علم اور تعلیم یافتہ دونوں ہی مادرہ پرستی کے زیر اثر ہیں اور اس لیے روحانیت سے دور ہوتے جارہے ہیں؛ لیکن مذہب اسلام کی اپنی ایک روحانی کشش ہے جو لوگوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے اور لوگ پرسکون زندگی گزاررہے ہیں۔ اس روشنی میں معاشرے میں دینی ماحول بنا رہنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کے ذریعہ اخلاقی، تہذیبی اور روحانی اقدار کو فروغ ملنا ہے اور بڑوں کے لیے عزت و احترام کا باعث ہے۔ خدا نے قرآن اس لیے نازل کیا کہ دنیا میں امتیاز ختم ہو اور مساوات پیدا ہو، سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں۔ بلاامتیاز رنگ و نسل و مذہب سب کے ساتھ مساوات کا عمل انجام دیا جائے۔ انسان کی زندگی میں امن و سلامتی سب سے اہم ہے؛ لیکن یہ امن و سلامتی صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ اسلام نے ہر طرح سے انسانیت کو ترجیح دی ہے تاکہ انسان ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور احترام سے پیش آئیں۔ خدا اس شخص کو بہت پسند کرتا ہے جو مخلوق سے محبت اور خیرخواہی کرتا ہے۔ ایک عابد و زاہد کا دل و دماغ بغض، حرص، حسد، کینہ، جلن، خار اور غیبت سے پاک ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ عناصر خود اس کے اپنے لیے بہت مضر ہیں بلکہ بدترین نفسیاتی بیماری ہے جس سے دور رہنا ضروری ہے۔

یہ عناصر اس کی عبادت کو بھی گناہ آلود بنا دیں گے، ایسے لوگوں کو معاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور ایسے لوگوں کی وجہ سے معاشرے میں بھی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ حق اور سچ کی اہمیت یہ ہے کہ اس کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ حق بات کرنے والے کو حق بجانب قرار دینا چاہیے۔ اس سے بڑھ کر کوئی کارنمایاں نہیں ہے کہ آپ کسی بے سہارا کا سہارا بنیں۔ اس سے خدا بہت خوش ہوتاہے اور اجر بھی دیتا ہے۔آپ رحم دل اس صورت میں سمجھیں جائیں گے کہ اگر آپ یتیموں، بیواؤں کا حق نہیں ماریں گے کیونکہ دنیا میں انسانیت کی اہمیت ہے جس نے اس کا دامن چھوڑ خدا نے اس کو چھوڑا۔ اسلام دین فطرت ہے اسی لیے انسان ضمیر کا مالک ہے اور یہ ضمیر ہی انسان انسان کو برے کاموں سے روکتا ہے اور اچھے عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے، یعنی سچے ضمیر کی آواز پر انسان عمل کرے گا تو ثواب کی جانب جائے گا۔ایسے لوگوں کو معاشرے میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے یعنی اس طرح کے عناصر جب لوگوں میں موجود ہوں گے تو معاشرہ خود بہ خود بہترین صورت میں نظر آئے گا۔

معاشرے کی مضبوطی اس بات پر منحصر ہے کہ ازدواجی رشتے پرخلوص اور محبت سے سرشار ہوں کیونکہ ان رشتوں میں ہم آہنگی اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے کہ جب دونوں طرف کے افراد ایک دوسرے کی اہمیت، عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں گے۔ ازدواجی زندگی اس صورت میں کامیاب رہے گی کہ دونوں افراد مزاجی اعتبار سے ایک دوسرے کو سمجھیں۔ زندگی میں نشیب و فراز تو آتے ہی رہتے ہیں؛ لیکن ان کا مقابلہ خلوص و ایثار کے ساتھ دونوں کو مل کر کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ معاشرے میں شادی بیاہ کی کچھ فضول رسومات ہیں جن کو اسلامی تہذیب اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی، جہیز کی وجہ سے نہ جانے کتنی خواتین خون کے آنسو روتی ہیں اور سسکتی ہوئی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ حوا کی بیٹی اپنے ہی گھر میں سسکتی ہوتی زندگی کاٹ کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے۔ اس روشنی میں لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ معاشرے میں ہر انسان کا رہن سہن اور اخلاق و اطوار قابل رشک، قابل تقلید اور قابل ستائش ہوں۔ یہ مذہب کی دین ہے کہ انسان تہذیبی اور اخلاقی اقدار سے آگاہ ہوا۔ انسان ایک دوسرے کے حقوق سے آگاہ ہوا یعنی انسان کی اپنی اہمیت مذہب سے ہے، مذہبی عمل سے ہی انسان پر سکون زندگی بسر کرتا ہے اور معاشرہ بھی پرسکون رہتا ہے اور بہتر راستے پر گامزن رہتاہے۔

معاشرے کی بہتری اور بھلائی اس میں ہے کہ عوام تعلیم حاصل کریں اور اعلیٰ مقام تک پہنچیں کیونکہ انسان کے لیے تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے حاصل کرنے سے باشعور رہتا ہے؛ لیکن تعلیم حاصل کرنے کے باوجود تعلیم یافتہ اخلاق سے محروم نظر آتے ہیں، انسان کے لیے جہاں تعلیم ضروری ہے کہ وہاں تربیت کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ تربیت سے ہی تعلیم یافتہ کی شخصیت نکھرتی ہے۔ یہ تر بیت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان باشعور، بااخلاق اور تہذیب یافتہ بنتا ہے۔ انسانیت کے یہ عناصر تعلیم یافتہ ہیں اچھی تربیت حاصل کرنے کی صورت میں پیدا ہوئے ہیں کیونکہ تربیتی صلاحیتوں کے ذریعہ انسان کردار کی جانب بڑھتا ہے اور ترتیبی عمل سے ہی علم کو عملی شکل دے سکتا ہے یعنی اعلیٰ تعلیم یافتہ کو اعلیٰ کردار کا مالک ہونا ضروری ہے۔ اس طرح تربیت یافتہ افراد معاشرتی تہذیب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ا ورجب معاشرے میں اعلیٰ تربیت یافتہ اور اعلیٰ اقدا کے حامل افراد کا اضافہ ہوگا تو معاشرہ بھی اس کی صورت اختیار کرے گا۔ یہ خدا بھی کہتا ہے کہ تم اچھے کام کروگے، لوگوں کو اچھی راہ پر لے کر آجاؤگے تو میں تمہیں اچھا راستہ دکھاؤں گا۔ جس معاشرے کے نوجوان محنت و مشقت کے عادی ہوتے ہیں، اور تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا دکھ درد کا احساس کرتے ہیں، وہ ہمیشہ اپنے نیک مقاصد میں کامیابی حاصل کرتے ہیں؛ لیکن ایسے افراد جو معاشرے میں شیطانی حربے اختیار کرتے ہیں، ان سے بدظنی اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو قابو میں کرنے کے لیے اور معاشرے کو ایسے لوگوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کو صحیح راہ پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اپنی جہالت اور شری فطرت کے باعث ہمیشہ جھگڑے پر آمادہ رہتے ہیں اور جھگڑے کی ابتداء بھی یہ ہی لوگ خود اپنی جانب سے کرتے ہیں جس سے معاشرے کی فضا مکدور ہوجاتی ہے۔ ان کو اس بات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے کہ ان کی بدعملیاں خود ان کے اپنے لیے مضر ثابت ہوں گی۔ معاشرہ ایسے لوگوں کی وجہ سے بدنظمی کا شکار ہوتا ہے کیونکہ یہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہیں، جہالت سے بھرپور، شعور سے نابلد اور شیطانی فطرت کے مالک ہیں۔ اس لیے معاشرہ ان پر لعنت بھیجتا رہتا ہے۔ لہٰذا ان کے لیے بہتر یہ ہی ہے کہ اپنی ایسی تمام بدعملیوں کو ترک کرکے ایک اچھا ذمہ دار شہری بن کر معاشرے کو اچھی صورت دیں۔

تعلیم یافتہ حضرات کی سوچ، خیالات و نظریات میں وقت کے لحاظ سے تبدیلی بہت ضروری ہے کیونکہ یہ سوچ و خیالات حتمی صورت میں معاشرے میں مضر ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان میں لچک ہونا ضروری ہے کیونکہ کچھ لوگوں کی سوچ، خیالات اور نظریات میں جب اختلاف پایا جاتا ہے تو ایسے لوگ ہٹ دھرمی پر اتر آتے ہیں اور وقار کا سوال بنا لیتے ہیں اور بضد رہتے ہیں کہ ہم جو کہہ رہے ہیں، وہ صحیح ہے۔ اس طرح معاشرے میں برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو اپنے کردار کی جانب دیکھنا ضروری ہے کہ معاشرے کے لیے ان کا کہنا کہاں تک صحیح ہے اور کہاں تک غلط ہے۔ معاشرے کے لیے اتحاد اور ہم آہنگی ضروری ہے اگر معاشرے پر جاہل طبقہ چھا گیا تو معاشرہ بد سے بدتر ہوجائے گا۔ اس طرح معاشرے میں جب اخلاقی اور تہذیبی اقدار کا خاتمہ ہوجائے گا تو معاشرہ کیا باقی رہ جائے گا۔ ایسی صورت میں یہ مسلم معاشرہ کس سمت جائے گا یہ سمجھنے اور دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس جانب غور و فکر سے کام نہیں کیا گیا تو معاشرہ انتہائی بدترین صورت اختیار کرسکتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی، سازشی اور گناہ آلود سوچ اور عمل کو قطعی طور پر ختم کرنا ہوگا تاکہ معاشرہ گندگی سے پاک رہے۔

 

Hakeem Siraj Uddin Hashmi
About the Author: Hakeem Siraj Uddin Hashmi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.