انا پرستی اور خود پسندی یہ دونوں ایسے امراض ہیں جو انساں کو ہوجائیں تو
وہ بظاہر تو صحتمند و توانا نظر آتا ہے مگر اپنے ارد گرد کے لوگوں دوستوں
رشتہ داروں یہاں تک کہ معاشرہ کے لیۓ بہت نقصاندہ ہو جاتا ہے کیونکہ ان
امراض کی کوئی انتہا نہیں ہوتی یہ بس بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور مریض اس میں
دھنستا یا ڈوبتا ہی چلا جاتا ہے اور کبھی بھی اس کو اپنے اس مرض کا احساس
نہیں ہو پاتا۔ اللہ ہم سب کو اس موزی مرض سے محفوظ رکھے اور اگر خدانخواستہ
کسی نہ کسی سطح پر ہم اس سے مغلوب ہیں تو اللہ تعالی ہمیں مرض کو پہچاننے
اور اس سے باہر آنے کی ہمت و حوصلہ دے کیونکہ اس میں قوت ارادی کا بہت دخل
ہے جو مرض کو مرض سمجھنے سے ہی مظبوط ہوتی ہے۔ آمین
اس مرض کی بہت سی نشانیاں ہوتی ہیں جو مشاہدے میں آنے سے آپ مریض کو پہچان
لیتے ہیں ۔ کیونکہ ان دونوں امراض میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا بلکہ ایک
دوسرے سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہوتی ہیں تو مریض کا ردعمل قریب ایک جیسا ہی
ہوتا ہے۔ اب زرا وہ علامات یا نشانیاں دیکھ لی جائیں جو ہم کو آگاہی دیتی
ہیں کہ ہم جس سے محو گفتگو ہیں یا محفل میں گفتگو کرنے والے صاحب کس حد تک
ان امراض کے زیر اثر ہیں۔ خیال رہے کہ اس میں ہماری اپنی ذات بھی شامل ہے
کیونکہ ایک انسان ہونے کے ناطے ہم میں بھی ایسی کمزوریاں ہو سکتی ہیں کہ ہم
بھی ان امراض میں مبتلا ہوں۔
سب سے پہلے تو آپ کسی مجلس یا محفل میں ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ حاضرین محفل
میں چند لوگ ایسے بھی ہونگے جو ہر موضوع پر اظہار خیال کررہے ہونگے اور خوب
بڑھ چڑھ کر بول رہے ہوں گے۔ ظاہر ہے وہ بہت اچھی معلومات اور جہاندیدہ
شخصیت کے مالک ہونگے جو ہر موضوع پر دسترس رکھتے ہونگے۔ ان کی گفتگو سے
تمام حاضرین محفل مستفید ہو رہے ہونگے۔ لیکن بہت سی باتیں مدنظر رکھنے والی
ہوتی ہیں ان کی شخصیت اور رویہ کا جائزہ لینے کے لیۓ۔
اگر تو وہ صاحب جن کی گفتگو سے حاضرین محظوظ و مستفید ہو رہے ہیں وہ کسی
اور کو بھی بولنے کا موقع دے رہے ہیں یا نہیں صرف خود ہی گفتگو کا سلسلہ
جاری رکھے ہوۓ ہیں تو ایسا اسوقت بہت مناسب ہوتا ہے جب انکو تقریر کی اجازت
دی گئ ہو یا دعوت دی گئ ہو۔ دوسری صورت میں دوسروں کو ان صاحب کی جانب سے
موقع دیا جانا چاہیۓ اور موضوع پر دوسروں کی راۓ بھی سب لوگوں کے علم میں
آنی چاہیۓ۔
اتنی طویل تمہید کا مقصد دراصل یہی تھا کہ اگر ہمارے درمیان کوئی بھی ایسا
فرد ہے جو صرف اپنی بات سنانے میں دلچسپی رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ صرف اس
کی بات سنی جاۓ چاہے وہ اتنی اہمیت نہ رکھتی ہو کہ لوگ اس میں دلچسپی لیں
تو یہ ان علامات میں سے ہے کہ آپ خود پسند ہیں آپ اپنی بات سنانے کے خاطر
دوسرے کی بات کو منقطع کر دیتے ہیں صرف اس لیۓ کے آپ کی طرف متوجہ ہوا جاۓ
اور آپ کو ہی سنا جاۓ قطع نظر اس کے کہ دوسرے کی بات نہ صرف لوگ سننا چاہتے
ہیں بلکہ اہمیت کی حامل بھی ہے۔
دوسری علامت ایک یہ بھی مشاہدے میں آتی ہے کہ بس جو میں کہہ رھا ہوں وہی
صحیح ہے۔ میری راۓ کے آگے تمام لوگوں کی راۓ کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اپنی
بات پر ڈٹ جانا اڑ جانا کٹ ہجتی تو کہلاتی ہی ہے مگر انا پرستی بھی اسی کو
کہتے ہیں کہ دنیا ایک طرف اور ہماری سوچ اور راۓ ایک طرف کیونکہ باقی سب
غلط۔ جب تک آپ دوسروں کی راۓ کا احترام کرنا نہیں سیکھتے اسوقت دوسرے بھی
آپ کا احترام کرنے سے ہچکچائیں گے ھاں کوئی مجبوری آڑے آتی ہو تو کوئی کیا
کر سکتا ہے۔
جب معاشرے میں غلبہ ان صاحب اختیار لوگوں کا ہو جو ان امراض کا شکا ہوں تو
وہی حال ہوتا ہے جو ہمارا ہو رھا ہے۔ اس وقت وطن عزیز کے کرتا دھرتا چاھے
مقتدر ادارے ہوں یا سیاسی اکابرین سب کسی نہ کسی سطح پر اپنی اپنی شخصیتوں
کے اس خول میں قید ہیں جسکو خودپسندی اور انائیت سے تعبیر کیا جاتا ہے بلکہ
ہمارے پورے معاشرے کی تصویر بھی یہی منظر کشی کرتی ہے۔
اب ہم منحیث القوم ایسے مریض بن چکے ہیں جہاں ان امراض کی جڑیں بہت گہری ہو
چکی ہیں اور یہ ہم میں مکمل طور پر سرائیت کر چکا ہے۔ بہت معمولی سا طبقہ
اللہ تعالی کے کرم سے اس سے بچا ہوا ہے اور انتہائی بے غرضی سے مثبت کوششوں
میں لگا ہوا ہے اور مثال بنا ہوا ہے۔
خود پسندی اور انائیت ہم میں ایک ایسے جزبے کو ابھارتا ہے کہ ہم کسی دوسرے
کے اچھے کام کو سراہنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ ہم کسی دوسرے کی ہوتی ہوئی
تعریف سے اندر ہی اندر چراغ پا ہو جاتے ہیں اور وہ جائز تعریف کرنے والا
بھی ہمیں کھٹکنے لگتا ہے۔ اندازہ کریں کہ ایک اچھے ہوتے ہوۓ کام کو اگر
ہمارے بجاۓ کسی اور نے سرانجام دے دیا تو اس میں برائی کیا ہے؟ مگر مسئلہ
وہی خود پسندی اور انا کہ قابل تعریف تو میں ہوں کوئی اور اس کا حقدار کیوں
ہو۔
وطن عزیز کا جو حال آج ہے وہ سراسر ہمارے اس مرض کی وجہ سے ہے۔ سالہا سال
سے ہمارے مشاہدے میں یہ آرھا ہے کہ بڑے بڑے میگا پراجیکٹ جو ایک حکومت
غیرملکی تعاون سے اور قرض لیکر مکمل کروارہی ہوتی ہے اس کے بعد آنے والی
حکومت اس کو بیک جنبش قلم ختم کروادیتی ہے۔ نہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنا
مالی نقصان ہوا نہ عوامی دلچسپی اور فائدہ مدنظر رکھا جاتا ہے بس کیونکہ اس
کو ہماری مخالف حکومت نے شروع کیا تھا اور اس کے مکمل ہونے سے ان کی واہ
واہ ہوگی یہ ناقابل برداشت ہے۔ سینکڑوں ایسے قومی مفاد کے منصوبے اس
خودغرضانہ سوچ کی وجہ سے ادھورے پڑے ہیں۔ اب تو پچھلے چند سالوں سے اچھے
خاصے چلتے ہوۓ منصوبے عدالتوں سے اسٹے آرڈر لیکر رکوا دیۓ جاتے ہیں کہ
حکومت وقت کوئی ایسا کام نہ کر سکے جو عوام میں مقبول ہو۔ اور جس سابقہ
حکومت کے پراجیکٹ پر تنقید کرتے ہیں وہی زور شور سے اپنی حکومت کے دور میں
شروع کر دیتے ہیں۔ یہ صرف پراجیکٹ ہی نہیں قانون سازی میں بھی ہوتا ہے کہ
کیونکہ ہم صحیح ہیں قابل تعریف ہیں غلطیوں سے مبرا اور پارسا ہیں تو کوئی
اور کیوں قابل تعریف ٹہرے اور سراہا جاۓ۔ ابھی موجودہ صورتحال کو لے لیں۔
دنیا مدد کو آرہی ہے ان کو یہ بھی برا لگ رھا ہے وہی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد
خودپسندی اور انائیت کی۔ کم از کم اس موقع پر تو ان منفی جزبوں کو پس پشت
ڈالیۓ
خدارا ہمارے اکابرین ملک کے لیۓ سوچیں مثبت سوچ اپنائیں اس کو پروان
چڑھائیں عوام کا ذھن ایسا بنانے کی طرف لائیں کہ سب ایک ہو کر اس ملک کی
خدمت کا سوچیں۔ ھم سب بھول بیٹھیں ہیں اس کے لیۓ دی گئ قربانیاں۔ زرا مشرق
وسطی کی طرف دیکھیں کس قدر عذاب زندگی ہو رہی ہے انکی اپنے آپ کو کمزور رکھ
کر اور طاقتور عناصر کے غلبہ میں آکر۔ ھم کو ابھی بھی سمجھ نہیں آرھی آدھا
ملک گنوا کر بھی۔ مالی طور پر یہ حال ہے کہ بھیک منگے بنے ہوۓ ہیں۔ کوئی
احساس ندامت یا شرمندگی ہم کو نہیں۔
کوئی دوسرا ملک تو کیا سازش کرے گا ھم سب خود ہی اس کے لیۓ کافی ہیں۔ کیا
چھوٹا کیا بڑا کیا قابل کیا جاہل سب اس کی جڑیں کھودنے میں صرف یہ سوچتے
ہوۓ مصروف کہ ہم نہیں تو کچھ نہیں ہماری نہیں چلی تو کسی کی نہیں چلے گی۔
سب بقراط بنے ہوۓ ہیں کہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں میری نہیں مانی گئ تو کسی
اور کی کیوں مانی جاۓ۔
تمام مقتدر قوتوں سیاسی اکابرین سوسائیٹی کے تمام ذمہ داروں اور عوام سے
یہی التجا ہے کہ ملک و قوم کے خاطر خود کو سدھار لیں کہیں جھکنا بھی پڑے تو
جھک جائیں کسی کی ماننی بھی پڑے تو ملک و قوم کے خاطر مان جائیں۔ مگر ملک
کی بہتری کے لیۓ سوچیں اپنے آپ کو بانٹیں گے تو خاکم بدھن ہمارا وطن بٹ کے
رہ جاۓ گا ہماری داستان بھی نہ رہے گی۔
قوم و ملک کے خاطر تو لوگ جانوں کا نذرانہ دیتے ہیں تو کیا ہم اپنی انا اور
خود پسندی کی قربانی نہیں دے سکتے۔
چ سے وابستہ ہے منفی اور تخریبی سوچ سے نہیں
|