امسال کے اواخر میں گجرات کے ساتھ ہماچل پردیش میں بھی
اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہوگا ۔ پچھلے پانچ سالوں میں وہاں کی صوبائی
سرکار نے عوام کی فلاح وبہبود کا کوئی ایسا قابلِ ذکر کام تو کیا نہیں کہ
جس عوض پھر سے ووٹ مانگا جائے تو اس نے عوام کو بہلانے پھسلانے کی
خاطر13؍اگست کو اسمبلی میں اجتماعی طور پر تبدیلی مذہب پر روک لگانے کے لئے
مذہب کی آزادی کا ترمیمی بل 2022 منظور کرلیا ۔ مذکورہ بل کے مطابق بیک وقت
میں دو یا اس سے زیادہ افراد یعنی کوئی خاندان بیک وقت مذہب نہیں بدل سکتا
۔ جبراً مذہب بدلنے کی سزا سات سال سے بڑھا کر دس سال کردی گئی۔ وزیراعلیٰ
نے بل کا مقصد کےبیان کرتے ہوئے جبر کا ذکرتک نہیں کیا ۔ اس طرح مذہبی
آزادی کا ڈنکا پیٹنے والے جمہوری نظام میں تبدیلیٔ مذہب پر عملاً پابندی
لگا دی گئی ہے حالانکہ پہلے تو پورا کے پورا قبیلہ بیک وقت مذہب تبدیل کرنے
کے لیے آزاد ہوا کرتا تھا۔ ویسے انبیاء کی سیرت گواہ ہے کہ اسلام کی دعوت
کو کبھی بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا گیا نیز داعی اور مدعونہ کسی کی
اجازت کے محتاج ہوتے ہیں اورنہ ان اقدامات خوفزدہ ہوتے ہیں ۔
ارشادِ ربانی ہے:’’ ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا اس نے کہا ،اے
برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے میں
تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں‘‘۔ قوم کی جانب سے اس
نہایت درد مندی کے ساتھ پیش کی جانے والی معقول ترین دعوت کا ردعمل یہ
سامنے آیا کہ ’’اس کی قوم کے سرداروں نے جواب دیا ،ہم کو تو یہ نظر آتا ہے
کہ تم صریح گمراہی میں مبتلا ہو‘‘۔ ان بد بختوں نے دعوت کے بجائے داعی کو
نشانہ بنایا مگر اس بہتان تراشی کے جواب میں نہایت متانت کے ساتھ :’’نوحؑ
نے کہا ،اے برادران قوم، میں کسی گمراہی میں نہیں پڑا ہو ں بلکہ، میں رب
العالمین کا رسول ہوں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، تمہارا خیر
خواہ ہوں اور مجھے اللہ کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے جو تمھیں معلوم نہیں
ہے‘‘۔ قوم کے انکار و الزام کی تردید میں حضرت نوح علیہ السلام پلٹ وار
کرتے ہوئے اسے گمراہ نہیں کہتے بلکہ اپنے منصب کا تعارف کرتے ہوئے اپنی
خیرخواہی کا ذکر فرماتے ہیں ۔
گمراہ قوم کے حق میں دعوت دین سراپا خیر خواہی ہے؟ حضرت نوحؑ فرماتے ہیں
:’’ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے
ایک آدمی کے ذریعہ سے تمہارے رب کی یاد دہانی آئی تاکہ تمہیں خبردار کرے
اور تم غلط روی سے بچ جاؤ اور تم پر رحم کیا جائے؟‘‘۔یعنی میں تمہیں خبردار
کرکے غلط روی سے بچانے کی سعی کررہا ہوں۔ قوم ِ نوح پر اس احسانمندی کا
کوئی اثر نہیں ہوا ۔ فرمانِ ربانی ہے :’’ مگر انہوں نے اس کو جھٹلا دیا آخر
کار ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں نجات دی اور اُن لوگوں کو
ڈبو دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا، یقیناً وہ اندھے لوگ تھے‘‘۔
آگے حضرت ہودؑ اپنے تعارف میں فرماتے ہیں :’’تم کو اپنے رب کے پیغامات
پہنچاتا ہوں، اور تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے‘‘۔
یہاں داعی میں خیر خواہی کے ساتھ بھروسہ مندی کی صفت کا اضافہ ہے۔
ان آیات سے دعوت دین کےانبیائی طریقۂ کار کی رہنمائی ملتی ہے۔ انبیاء کی
اس احسانمندی اور خیرخواہی کے جواب میں داعی و مدعو دونوں کو جبر تعذیب کا
نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ہماچل پردیش تبدیلی مذہب ترمیمی بل 2022 اسی جبر
کی ایک کڑی ہے ۔اس لاقانونیت کے مطابق زبردستی اجتماعی طور سے تبدیلی مذہب
کو جرم قرار دیاگیا اور سزا کے علاوہ ریزرویشن کے فوائد سے محروم کرنے کے
سخت التزامات کئے گئے ۔ ایوان میں موجود سب سے بڑی حزب اختلاف نے بھی اس
قانون کی حمایت کرنے کے بعد یہ اعتراض درج کیا کہ اس بل میں شامل شق درج
فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کو دیئے جانے والےریزرویشن کی آئینی
التزامات کو متاثر کرتی ہے۔ ریزرویشن کی آئینی دفعات کے خلاف ہونے کے سبب
یہ بل ریاستی اسمبلی کے ترمیمی اختیار سے باہر ہے۔ اس نے اسے سلیکٹ کے
حوالے کرنے کی تجویز دی مگرچونکہ تین ماہ کے اندر انتخابی فائدہ اٹھانا
مقصود ہے اس لیے اکثریت کے زور پر اسے منظور کروالیا گیا۔ اشتراکی جماعت کی
لنگڑی دلیل تھی کہ ہائی کورٹ میں زیر التوا ء معاملے پر اسمبلی کا ضابطہ
قانون کو پیش کرنے یا اس پر بحث کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔اس تکنیکی اعتراض
کو بھی کوڑے دان کی نذر کردیا گیا کیونکہ فی الحال آئین و قانون وہیں
براجمان ہیں۔ اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ کہ کسی نے اس بنیاد پر مخالفت
نہیں کی کہ اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنا انسانوں کا بنیادی حق ہے۔ اس کی
ضمانت تو صرف دین اسلام میں اس طرح دی گئی ہے کہ :’’دین کے معاملے میں کوئی
زور زبردستی نہیں ہے‘‘۔
|