غزوہء ہند کو غزوہ کیوں کہا جاتا ہے ؟ جب کہ غزوہ ،اس جنگ
کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی ہو ۔ اس سوال
کا جواب یہ ہے کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے ارشادات ، رہنمائی اور روحانی
تائید کی وجہ سے اس جنگ کو غزوہ کہا جاتا ہے ۔اس کی فضیلت بہت سی احادیث
نبویہ میں بیان کی گئ ہے ،سن میں سے چند درج ذیل ہیں:
ترجمہء حدیث:“حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ مسلمان ،ہندوستان سے جہاد کریں
گے) حضرت ابو ہریرہ رض فرماتے ہیں کہ(اگر وہ جہاد میری موجودگی میں ہوا تو
میں اپنی جان اور مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کردوں گا،اگر میں شہید
ہوجاؤں تو میں افضل ترین شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں زندہ رہا تو میں
وہ ابو ہریرہ ہوں گا جو عذابِ جہنم سے آزاد کردیا ہوگا”-سنن نسائی ۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ ،جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے
،ان سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا ،ان میں
سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ
ہوگا”- بحوالہ مسند احمد بن حنبل ،سنن نسائی ،بیہقی،طبرانی۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
“میری امت کی ایک جماعت ،حق کی خاطر قتال کرتی رہے گی،قیامت تک غالب رہے
گی۔پھر عیسیٰ ابنِ مریم تشریف لائیں گے ،مسلمانوں کے امیر کہیں گے،آئیے،آپ
ہمیں نماز پڑھائیے۔ عیسیٰ ابن مریم فرمائیں گے،نہیں تم ایک دوسرے پر امیر
ہو، اس امت پر اللہ کے شرف کے طور پر ”-صحیح مسلم، باب_ نزول عیسیٰ بن مریم
۔
ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ
“جب تم دیکھو کہ کالے جھنڈے ،خراسان کی جانب سے آرہے ہیں تو ان میں شامل ہو
جانا کیوں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ مہدی ہوگا”-رواہ بیہقی و احمد۔
مزید کئ احادیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں جو بڑی جنگیں
ہوں گی ،اس وقت مسلمانوں اور کافروں کے درمیان حق و باطل کا ایک سخت معرکہ
ہوگا ،جس میں بالآخر فتح مسلمانوں کی ہوگی ۔احادیث نبویہ میں اسے غزوہء ہند
کہا گیا ہے اور تقریبا " اس کے فوری بعد امام مہدی ،مسلمانوں کے لشکر کی
قیادت فرمائیں گے تاکہ بیت المقدس کو آزاد کروایا جاسکے ،لیکن پھر دجال کا
دور شروع ہو جاۓ گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہمراہی میں وہ لشکر جو
اسی علاقے سے جاۓ گا ،وہ جہاد کرے گا ۔
اگر ہم پاک بھارت تاریخ کا جائزہ لیں تو پاکستان ،اللہ تعالیٰ کا ایک معجزہ
ہے اور اسے باقاعدہ لیلتہ القدر میں اتارا گیا ہے ،رمضان کی ستائیسویں شب
تھی جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور یہ دنیامیں واحد ریاست ہے جو کلمہء
طیبہ کی بنیاد پر معرض_ وجود میں آئی ۔اگرچہ ہندوستان نے اسے قبول نہیں کیا
اور وہ اکھنڈ بھارت کے جنون میں ابھی بھی پاکستان کو ہڑپ کرنے کی سازشیں
کرنے میں مصروف ہے۔ وہ پاکستان کی شہ رگ مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کر چکا ہے
،آئین میں ترمیم کرکے کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کردی گئ ہے۔ اب اس کی نظر
باقی کے پاکستان پر ہے۔ بلوچستان میں حالات خراب کرنے میں کلبھوشن یادیو
جیسے بھارتی دہشت گردوں کا نیٹ ورک پکڑا جا چکا ہے اور ایسے کئ نیٹ ورک
ابھی پکڑنے باقی ہیں۔ حال ہی میں بھارت کی آبی دہشت گردی کی وجہ سے سیلابی
ریلے پاکستان میں داخل کر دئیے گئے اور سینکڑوں دیہات صفحہء ہستی سے مٹ گئے
اور لاکھوں جانیں متاثر ہوئی ہیں۔گذشتہ برس آزاد کشمیر کے محاذ پر بھی
پاکستان اور بھارت کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں ۔ اس سے قبل 1965ء اور
1971ء کی جنگوں کا حال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔اگر ڈاکٹر عبد القدیر خان نے
ایٹمی طاقت سے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر نہ بنادیا ہوتا تو بھارت ک۔ کا
پاکستان پہ حملہ آور ہو چکا ہوتا۔ ان حالات میں یہ واضح دکھائی دیتا ہے کہ
غزوہء ہند کا وقت اب زیادہ دور نہیں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے
اس کے لئے کیا تیاری کی ہے ؟ ہمارے تعلیمی اداروں میں تو برسہا برس سے این
سی سی کی جنگی تربیت بھی بند کی جا چکی ہے ! دوسری طرف بھارت اپنی فوج کے
بجٹ میں ہر سال کئی گنا اضافہ کرتا چلا جارہا ہے ۔ ہمیں نہ صرف اپنے بچوں
کو جوانوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ غزوہء ہند کی اہمیت و فضیلت کیا ہے
بلکہ اس کے لئے تیاری اور تربیت کی بھی ضرورت ہے، نہ صرف فوج کو جدید آلات
اور سامان سے لیس ہونا چاہئے بلکہ آبادی کو بھی شہری دفاع اور این سی سی
جیسی تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے۔
ارشادِ الٰہی ہے:
ترجمہ: “تم پر دشمنوں سے جنگ کرنا فرض کیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے
اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں
بہتر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے
حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ”-سورہء بقرہ، آیت 216.
بقول علامہ اقبال
کانپتا ہے دل ترا ،اندیشہء طوفاں سے کیوں؟
ناخدا تو، بحر تو،کشتی بھی تو،ساحل بھی تو
شعلہ بن کے پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو ۔
|