صُورتِ تٙحریم و ضرُورتِ تحریم اور سُورتِ تحریم !

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙةُالتحریم ، اٰیت 1 تا 5 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
النبی لم تحرم ما
احل اللہ لک تبتغی مرضات
ازواجک وللہ غفوررحیم 1 قد فرض اللہ
لکم تحلة ایمانکم واللہ مولٰکم و ھو العلیم الحکیم 2
و اذ اسر النبی الٰی بعض ازواجہ حدیثا فلما نبات بہ و اظھرہ اللہ
علیہ عرف بعضہ و اعرض عن بعض فلما نباھابہ قالت من انباک ھذا قال
نبانی العلیم الخبیر 3 ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما و ان تظٰھرا علیہ فان
اللہ ھو مولٰہ و جبریل و صالح الموؑمنین والملٰئکة بعد ذٰلک ظھیر 4 عسٰی ربہ ان طلقکن
ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن مسلمٰت موؑمنٰت قٰنتٰت تٰئبٰت عٰبدٰت سٰئحٰت ثیبٰت و ابکارا 5
اے ہمارے نبی ! آپ نے اپنی دل گرفتہ بیویوں کی دل جوئی کے لئے خود پر اپنی ایک قٙسم کے ذریعے وہ چیز کیوں ممنوع کردی ہے جو ہم نے آپ پر ممنوع نہیں کی ہے تاہم اگر آپ نے ایسا کر ہی لیا ہے تو اللہ جو بہت ہی مہربان و خطا پوش ہے اُس نے انسان کی اِس قِسم کی لٙغزشِ قٙسم سے نکلنے کے لئے قانونِ کفارہ رکھا ہوا ہے جس سے اِستفادہ کیا جا سکتا ہے اور اِس قصے کا وہ پہلو تو بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے نبی نے اپنی ایک بیوی سے جو ایک رازدارانہ بات کہی تھی وہ اُس نے نبی کی دُوسری بیوی پر ظاہر کردی تھی لیکن اللہ نے اُس کی زبان کی وہ بات اپنے نبی کے کان تک بھی پُہنچا دی تھی اِس لئے جب آپ کی دُوسری بیوی نے اُس بات کے بارے میں آپ سے استفسار کیا تھا تو آپ نے اُس کو اُس بات کا ضروری حصہ تو بتادیا تھا لیکن اُس بات کا غیر ضروری حصہ اُس سے چُھپالیا تھا اور پھر جب اُس نے اُس خبر کی خبرداری کے بارے میں دُوسرا سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ یہ خبر میرے خبر کار نے مجھ تک پُہنچائی ہے ، پھر اِس سوال اور اِس جواب کے بعد اللہ نے آپ کی اُن دونوں بیویوں کے لئے یہ فرمان جاری کیا کہ اگر تُم دونوں اپنی دل سے سوچی اور زبان سے کہی ہوئی بات سے رجوع کر لو تو اِس سے وہ خیر ظاہر ہو گی کہ جس خیر سے تُمہارے دل کا بوجھ تُمہارے دل سے اُتر جائے گا لیکن جہاں تک ہمارے رسول کی اپنی دل جوئی کا تعلق ہے تو اُس کے بارے میں تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اُس رسول کے ساتھ اللہ کی وحی ہے ، جبریل کا تعاون ہے ، اہل ایمان کی محبت ہے اور اُس کو بہت سی خُدائی قُوتوں کی خُدائی حمایت بھی حاصل ہے لہٰذا اگر تُم کارِ نبوت میں اُس کا ساتھ نہیں دو گی تو اللہ اُس کا گھر دوبارہ بھی ایسی ہی نیک دل بیویوں سے آباد کر دے گا جو اُس کا کہا سنا تسلیم کریں گی ، اُس کے کہے سنے پر ایمان لائیں گی ، اُس کے سامنے سرنگوں رہیں گی ، خیر سے اعلٰی تر خیر کی طرف آئیں گی اور وہ اُس کی مُہر بہ لٙب اطاعت گزار ہوں گی اِس بات سے قطع نظر کہ تُمہارے بعد اُس کی وہ بیویاں کمسن ہوں گی یا عمر رسیدہ ہوں گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصد اٰیات !
جس طرح ہر ایک انسان کی مشاہداتی حیات ایک دُوسرے سے مشابہ اور واقعاتی حیات ایک دُوسرے سے قدرے مُختلف ہوتی ہے اسی طرح اللہ کے رسول کی مشاہداتی حیات بھی ہر انسانی حیات سے مشابہ لیکن واقعاتی حیات ہر انسانی حیات سے ایک مُختلف حیات تھی اور آپ کی اِس واقعاتی حیات میں وہ مُختلف الاٙحوال واقعات بھی اسی طرح پیش آتے رہتے تھے جس طرح ہر ایک انسان کی حیات میں وہ واقعات ہر روز پیش آتے رہتے ہیں ، قُرآن کی اِس سُورت میں جو دو مرکزی مضامین بیان ہوئے ہیں اُن مرکزی مضامین میں بیان والا دُوسرا مضمون ایک ایسا معاشرتی مضمون ہے جس معاشرتی مضمون میں کافر و مومن اور مشرک و موؑحد جُملہ انسانوں کے لئے ایک ایسا مشترکہ مضمونِ ہدایت بیان کیا گیا ہے جس میں سب انسانوں کے لئے اُن کے اٙحوال کے مطابق ایک مُشترکہ پیغامِ ہدایت ہے لیکن اِس سُورت کا پہلا مضمون جو اِس سُورت کی پہلی پانچ اٰیاتِ ہدایات پر مُشتمل ہے اِس مضمون میں انسانی حیات کے سب سے بڑے ہادی و رہنما کی حیات کا وہ سب سے اہم مضمون بیان ہوا ہے جس مضمون میں انسانی ہدایت کا وہ دفترِ معنٰی چُھپا ہوا ہے جس کو آنے والی سطور میں ہم ایک ترتیب سے پیش کریں گے لیکن اُس ترتیب وار مضمون سے پہلے ہم یہ اٙمر بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ قُرآن کی اِس سُورت کے اِس مضمون کے ساتھ اہلِ روایت نے انسانی حیات کے اُس سب سے بڑے ہادی و رہنما کی مثالی حیات کے ساتھ ایک خیالی کنیز کے گھر پر تمتع حاصل کرنے کے لئے جانے ، اُس کے اُس عمل کے خلاف اُس کی ایک بیوی کے صف آرا ہونے ، پھر اُس کی ایک بیوی کا اُس کی دُوسری بیوی کے ساتھ مل کر اُس کے خلاف ایک مُتحدہ محاذ بنانے اور پھر دونوں کی طرف سے بدبُور دار شہد کا ایک جُھوٹا حوالہ دے کر اُس رسول کو اُس کی ایک فرضی کنیز سے قطعِ تعلق کی قسم دینے کے جو واقعات بنائے اور سنائے ہیں اُن خلافِ عقل واقعات کے نقل و بیان سے ہر مُسلمان انسان کی طرح ہماری طبعیت میں بھی شدید تامل ہے اِس لیئے ہم اُن شرمناک واقعات کو نقل کرنے سے احتراز کرتے ہیں لیکن جہاں تک اِس واقعے کی اُس نفسِ حقیقت کا تعلق ہے جو اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں ہم نے تحریر کی ہے تو اُس حقیت کو سمجھنے کے لئے تمہیدِ کلام کے طور پر ایک تو یہ بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ سیدنا محمد علیہ السلام کی پہلی اہلیہ سیدہ خدیجہ تھیں ، دُوسری اہلیہ سیدہ عائشہ صدیقہ اور تیسری اہلیہ سیدہ حفصہ تھیں اور دُوسری یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ سیدنا محمد علیہ السلام کے پورے عرصہِ حیات کے دوران آپ کے نکاح میں صرف چار خواتین آئی ہیں اور اِن چار خواتین کے بعد اہلِ روایت نے قُرآنی ہدایت کے خلاف آپ کی جن دیگر مُتعدد بیویوں کے جو فرضی قصے بنائے اور سنائے ہیں وہ محض ایک افسانہ ہیں اور جس وقت اٰیاتِ بالا میں بیان کیا گیا یہ زیرِ نظر واقعہ وقوع میں آیا تھا تو اُس وقت آپ کے عقدِ نکاح میں آپ کی ایک اہلیہ سیدہ عائشہ اور دُوسری اہلیہ سیدہ حفصہ ہی موجُود تھیں ، آپ کے اِس نکاح و طلاق کے پس منظر کے حوالے سے قُرآن نے جو واقعاتی پس منظر پیش کیا ہے اُس کا سُورٙةُالاٙحزاب کی اٰیت 28 کے مطابق اِحوال یہ ہے کہ سیدنا محمد علیہ السلام نے اپنی عائلی حیات کے ابتدائی زمانے میں ہی عام انسان کی عام عائلی حیات میں مُسیر آنے والی عائلی آسائشوں اور ایک نبی کی عائلی زندگی میں اُن آسائشوں کی کمی اور اُس کے کارِ نبوت میں شامل ہو کر کارِ نبوت میں ہمہ وقتی و ہمہ جہتی تعاون کی مُشکلات کے پیشِ نظر اپنے نکاح میں آنے والی عورتوں کو اختیار دیا تھا کہ اگر وہ نبوت کی اِن مُشکلاتِ حیات کے ساتھ بوجوہ نہ چل سکیں تو نبی علیہ السلام اُن کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ اپنی فطری آسائشوں کو دُبانے کے بجائے اُن کو پانے کے لئے چاہیں تو اللہ کے نبی سے اپنا عقدِ نکاح ختم بھی کر سکتی ہیں اور اگر وہ یہ فیصلہ کریں تو اُن کو با عزت وسائل دے کر عزت کے ساتھ رسول کے گھر سے رُخصت کر دیا جائے گا لیکن آپ کی اُن منکوحہ خواتین نے ایک آسائش بھری زندگی کے بجائے آپ کے ساتھ ایک آزمائش بھری زندگی گزارنے کو ترجیح دی تھی اور اِس طرح وہ آزمائش کی اُس مُشکل گھڑی سے کامبابی کے ساتھ گزر گئی تھیں جس کے بعد اِن خواتین کے جائز انعام کے طور پر سُورٙةُالاٙحزاب کی اٰیت 52 میں اللہ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا تھا کہ آج کے بعد آپ ان خوتین کے موجود ہوتے ہوئے بھی کوئی دُوسرا نکاح نہیں کر سکتے اور اِن میں سے کسی عورت کو طلاق دینے کے بعد بھی اور عورت کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتے ، سیدنا محمد علیہ السلام کی عائلی حیات کے بارے میں قُرآن کے بیان کیئے ہوئے اِن دو واقعات کے بعد یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ جب کسی مملکت کے حاکم کو مملکت کے حاکمِ اٙعلٰی کی طرف سے اہلِ مملکت کے لئے کوئی اجتماعی حُکم دیا جاتا ہے تو اُس اجتماعی حُکم کے خطاب میں اُس سربراہِ مملکت کو براہِ راست خطاب کیا جاتا ہے لیکن اُس خطاب میں اُن اہلِ مملکت کو جو اٙحکام دیئے جاتے ہیں اُن اٙحکام کا وہ سربراہِ مملکت بذاتِ خود بھی پابند ہوتا ہے چنانچہ جب سُورٙةُالطلاق نازل ہوئی تو اِس سُورت کے خطاب کے مخاطب بھی نبی علیہ السلام تھے اور جب یہ وحی آپ کے گھر کی اُن منکوحہ خواتین تک پُہنچی تو اُن میں قدرتی طور پر ایک اضطراب کی لہر دوڑ گئی اور جب وہ طلاق کی اِس اجازت سے مضطرب ہو کر ایک عالٙمِ اضطراب میں ایک دُوسری سے گفتگو کرنے لگیں تو وہ گفتگو نبی علیہ السلام نے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی بذاتِ خود سُن لی اور چونکہ نبی علیہ السلام کو سُورٙةُالاٙحزاب کی اٰیت 52 کا حُکم یاد تھا اِس لئے جب آپ کی ایک بیوی نے تخلیہ ملنے پر آپ کے سامنے اپنے رٙنج کا اظہار کیا تو آپ نے اُس کو مُختصر الفاظ میں تسلی دے دی لیکن ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کردی کہ تُم نے یہ بات ابھی اپنی ذات تک محدود رکھنی ہے اور اُس وقت غالبا یہی خیال ہو گا کہ جب آپ اُس دُوسری بیوی سے بات کریں گے تو اُس کو بھی خود ہی یہ خوش خبری سنا دیں گے لیکن ابھی آپ کی اُس کے ساتھ بات کی نوبت ہی نہیں آئی تھی کہ آپ کی پہلی بیوی نے دُوسری کو بھی وہ خوش خبری سنا دی جس سے بظاہر تو بڑی حد تک اُن دونوں پر یہ حقیقت واضح ہو گئی تھی کہ اُن خواتین کا عائلی مستقبل غیر محفوظ نہیں ہے بلکہ محفوظ ہے لیکن اُن دونوں نے جذباتی ہو کر آپ سے کہا کہ اگر آپ نے طلاق کی اِس اجازت پر کبھی بھی عمل نہیں کرنا ہے تو آپ قسم کھالیں کہ آپ ہمیں کبھی بھی طلاق نہیں دیں گے اور چونکہ طلاق کے عمومی مسائل کی اِس سُورت سے پہلے سُورٙةُالاٙحزا کی اٰیت کا 52 کا حکم آپ کے پیشِ نظر موجُود تھا اِس لئے آپ نے بھی بلا تامل وہ قسم کھالی جس پر اللہ نے آپ سے پوچھا کہ جو قانون میں نے ایک اجتماعی قانون کے طور پر سب کے لِے ایک غیر ممنوع قرار دیا ہے تو آپ نے اُس کو اپنے لئے کیوں ممنوع قرار دیا ہے ، اجتماعی قوانین تو سب کے لئے یٙکساں قابلِ عمل ہوتے ہیں لیکن اُن قوانین پر بوقتِ ضرورت عمل بھی کیا جاتا ہے اور بغرضِ مصلحت کبھی کبھی اُن پر فوری عمل میں تامل بھی کیا جاتا ہے ، اٙمرِ واقعہ کے طور پر تو اِس سُورت کے اِس مضمون کی اتنی ہی بات تھی جو قُرآن کے الفاظ سے بھی واضح ہے لیکن اہلِ روایت نے اِس سادہ سی بات کو کھینچ تان کر ایک ایسا طلسمِ ہو شرُبا بنا دیا ہے کہ جس کو پڑھتے ہوئے غیر شرفا کے سر بھی شرم سے جُھک جاتے ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558120 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More