ابھی حال ہی میں دس ستمبر کو چین میں 38 واں یوم اساتذہ
منایا گیا، یہ دن ملک بھر میں اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔چین
نے جہاں ہمیشہ فروغ تعلیم کو اہمیت دی ہے وہاں اساتذہ کی تربیت اور اُن کی
فلاح و بہبود کو بھی مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے۔ چین کی وزارت تعلیم کے
اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے ملک میں کل وقتی اساتذہ کی تعداد میں گزشتہ
دہائی کے دوران تقریباً 38 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ اساتذہ کی تعداد 2012 میں
14.63 ملین سے بڑھ کر 2021 میں 18.44 ملین ہو چکی ہے۔یہ بات بھی قابل زکر
ہے کہ ملک میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والے امیدواروں کے سپروائزرز کی تعداد
گزشتہ دہائی میں تقریباً 229,000 سے بڑھ کر 424,000 ہو گئی ہے، اور ڈاکٹریٹ
کی ڈگری حاصل کرنے والے امیدواروں کے سپروائزرز کی تعداد 69,000 سے بڑھ کر
132,000 ہو چکی ہے۔اسی طرح پچھلے 10 سالوں میں اساتذہ کی تنخواہوں اور
سماجی حیثیت میں بہتری آئی ہے، پرائمری اور مڈل اسکول کے اساتذہ کی اوسط
تنخواہ مقامی سرکاری ملازمین سے کہیں بھی کم نہیں ہے۔ 1.3 ملین سے زیادہ
دیہی اساتذہ ایک خصوصی سبسڈی پروگرام سے مستفید ہوئے ہیں جس میں انہیں
اضافی لیونگ الاؤنس دیا گیا ہے ۔ چین نے 2016 سے 2021 تک، وسطی اور مغربی
علاقوں میں شعبہ تعلیم میں معاونت کی خاطر 1.03 ملین اساتذہ بھیجے اور انہی
پالیسیوں کے ثمرات ہیں کہ 2022 تک، 44.3 ملین سے زائد طلباء ملک بھر کے
اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم تھے۔درحقیقت، بہتر تعلیم نے چینی قوم کو
ترقی کی مضبوط بنیاد فراہم کی ہے اور لوگوں کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں
کلیدی کردار نبھایا ہے۔
دوسری جانب یہ بات بھی خوش آئند اور قابل تقلید ہے کہ چین کی اعلیٰ قیادت
نے ہمیشہ تعلیم کو اہمیت دی ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ نے ہمیشہ تعلیم کو اپنی
ترجیحات میں سب سے آگے رکھا ہے۔ انہوں نے متعدد تقاریر اور اقدامات کے
ذریعے، بارہا یہ زور دیا کہ اساتذہ کی قدر کی جائے اور تعلیم کو ترجیح دی
جائے۔ انہوں نے متعدد دوروں اور معائنوں کے دوران غربت زدہ علاقوں میں
تعلیم کی ترقی پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایات جاری کیں۔شی جن پھنگ کہتے ہیں
کہ "بہت سارے اساتذہ نے مجھے پڑھایا ہے، اور مجھے وہ سب آج بھی یاد ہیں
۔انہوں نے مجھےعلم اور انسانیت کے اصول سکھائے ہیں اور مجھے بے انتہا فائدہ
پہنچایا ہے۔"شی جن پھنگ نے اپنی ابتدائی اور جونئیر ہائی سکول کی تعلیم
بیجنگ با ائی اسکول سے حاصل کی۔اس کے بعد وہ شدید سیاسی و انتظامی مصروفیات
کے باوجود ہمیشہ اپنے اساتذہ سے ملنے کے لئے وقت نکالتے رہے۔1999 میں ، اُن
کی ایک سابق استانی چھن چھو اینگ نے شی جن پھنگ کو اپنی نئی کتاب
بھجوائی۔اُس وقت شی جن پھنگ اگرچہ صوبہ فو جیان کے قائم مقام گورنر تھے مگر
پھر بھی انہوں نے فوری طور پر اپنی استانی کو جوابی خط بھیجا۔ ان کے ایک
اور استاد چھن زونگ ہان کہتے ہیں: "ان برسوں کے دوران ، اس بات سے کوئی فرق
نہیں پڑا کہ شی جن پھنگ کس عہدے پر فائز ہیں ، انہوں نے ہمیشہ اپنے اساتذہ
کو یا د رکھا ہے۔"
یوم اساتذہ سے قبل صدر شی جن پھنگ نے بیجنگ نارمل یونیورسٹی کے کچھ طلباء
کو بھی ایک جوابی خط ارسال کیا اور یوم اساتذہ کے موقع پر ملک بھر کے تمام
اساتذہ کو مبارکباد دی۔انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ بیجنگ نارمل یونیورسٹی
،چین میں اساتدہ کی تربیت و تیاری کا پہلا جدید اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہے جس
میں بڑی تعداد میں بہترین اساتدہ کو تربیت دی گئی ہے۔انہوں نے اس خواہش کا
اظہار کیا کہ یہ طلباء گریجویشن کے بعد ایسے علاقوں کو جائیں جہاں ملک اور
عوام کو ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور ملک کے لیے باصلاحیت افراد کو
تربیت فراہم کرنے میں اپنی خدمات سرانجام دیں۔اس بات کا تذکرہ بھی لازم ہے
کہ سال 2021 سے چین نے وسطی و مغربی علاقوں کے لیے باصلاحیت اساتدہ کی
تربیت کا منصوبہ شروع کیا جس میں بیجنگ نارمل یونیورسٹی نے بھی حصہ لیا
تھا۔ بیجنگ نارمل یونیورسٹی میں اس منصوبے کے تحت زیر تعلیم طلباء نے صدر
شی جن پھنگ کے نام لکھے گئے ایک خط میں انہیں اپنے تعلیمی تجربات سے آگاہ
کیا اور تعلیمی شعبے میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے عزم کا بھی اظہار
کیا۔دیکھا جائے تو چین کی اعلیٰ قیادت کی تعلیم سے گہری دلچسپی اور لگاو ہی
ہے جس کی بدولت ملک میں شعبہ تعلیم مسلسل عروج کی جانب گامزن ہے اور آج
چینی جامعات کا شمار دنیا کی صف اول کی جامعات میں ہوتا ہے۔ساتھ ساتھ
اساتذہ کی فلاح کے منصوبوں سے جہاں ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں مسلسل
بہتری آ رہی ہے وہاں سماج میں بھی اُن کی حیثیت کو نمایاں پزیرائی ملی ہے
،جو بہترین تعلیمی نتائج کی ایک ٹھوس بنیاد ہے۔
|