یہ حقیقت ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ دنیا میں شفاف توانائی
کی اہمیت کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔دنیا متفق ہے کہ انسانی بقا کے لیے
لازم ہے کہ کم کاربن ترقی کی جستجو کی جائے اور ایسی ترقیاتی راہیں اپنائی
جائیں جو فطرت سے ہم آہنگ ہوں ،مطلب بنی نوع انسان کا متفقہ نقطہ نظر ہے
کہ ماحول کی قیمت پر ترقی ہماری آنے والی نسلوں کے لیے تباہی لائے گی۔دنیا
میں رکازی ایندھن کی حوصلہ شکنی کے حوالے سے کئی دہائیوں سے فعال معروف
ادارے راکی ماؤنٹین انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ روایتی ایندھن سے شفاف
توانائی کی منتقلی پر لاگت کم آئے گی اور حکومتوں، کاروباری اداروں اور بہت
سے تجزیہ کاروں کی توقع سے کہیں زیادہ ، تیزی سے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
حالیہ برسوں میں اس نقطہ نظر کو بھرپور انداز سے ثابت بھی کیا گیا ہے اور
وقت کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے شفاف توانائی پر آنے والے
اخراجات میں مزید کمی آئی ہے یوں تیز رفتار صاف توانائی کی منتقلی سستا
ترین انتخاب بن چکا ہے۔اس تناظر میں چین جیسے بڑے ممالک کا کردار بھی
انتہائی نمایاں ہے جن کی شفاف اور ماحول دوست توانائی کی کی کوششیں نہ صرف
لائق تحسین ہیں بلکہ قابل تقلید ہیں۔
چین ، دنیا میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے اور معاشی حجم کے
اعتبار سے بھی دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے۔ایسے میں چین کی جانب سے مختلف
شعبہ جات میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات اور پالیسی سازی کے اثرات
عالمی سطح پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ان میں تحفظ ماحول بھی اہم ترین شعبہ ہے
جسے آگے بڑھانے کے لیے چین شفاف توانائی کو بھرپور طور پر فروغ دے رہا ہے۔
چین کی ترقی کا بغور جائزہ لیا جائے تو "پائیداری" ایک کلیدی عنصر ہے جس کا
مطلب ہے کہ چین ایسی ترقی کا خواہاں ہے جو مستحکم اورصحت مندانہ رجحان کے
عین مطابق ہو۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ چین نے بدلتے تقاضوں کے عین مطابق
اپنی ترقیاتی پالیسیوں کو آگے بڑھایا ہے۔اس کی حالیہ کڑی ملک میں توانائی
کے شعبے کے ماحول دوست اقدامات ہیں جن کی روشنی میں کوشش کی جا رہی ہے کہ
ایسی پائیدار ترقی کو یقینی بنایا جائے جو فطرت سے ہم آہنگ ہو۔اس حوالے سے
تازہ ترین مثال چین کی جانب سے شمال مغربی ننگ شیاہ ہوئی خود اختیار علاقے
کے ایک صحرا میں شمسی توانائی کے اپنے سب سے بڑے بیس کی تعمیر کی شروعات
ہیں۔اس فوٹو وولٹک پاور بیس کی پیداواری صلاحیت تقریباً تین گیگا واٹ ہے جو
ننگ شیاہ کے ٹینگر صحرا میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔یہ چین کا چوتھا بڑا صحرا
ہے جس کا رقبہ تقریباً 43,000 مربع کلومیٹر ہے۔پایہ تکمیل کو پہنچنے کے بعد
، یہ منصوبہ ہر سال تقریباً 5.78 بلین کلو واٹ فی گھنٹہ بجلی پیدا کرے گا،
جس سے 1.92 ملین ٹن معیاری کوئلے کی بچت ہو گی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے
اخراج میں سالانہ تقریباً 4.66 ملین ٹن کمی آئے گی۔اس منصوبے پر کل 15.25
بلین یوآن (2.2 بلین ڈالر) کی لاگت آئے گی جبکہ مکمل ہونے کے بعد تقریباً
1.5 بلین یوآن کی سالانہ آمدن ہو گی اور 1,500 ملازمتیں بھی میسر آئیں گی۔
ننگ شیاہ اپنی اونچائی اور سورج کی روشنی کے طویل اوقات کے ساتھ، شمسی
توانائی کے بھرپور وسائل رکھتا ہے۔ یہ چین کے ان پانچ صوبوں میں سے ایک ہے
جو نئی توانائی کی ترقی کے لیے موزوں ترین ہیں۔ چین ویسے بھی صحرا گوبی اور
دیگر صحرائی علاقوں میں 450 گیگا واٹ شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کا
منصوبہ رکھتا ہے۔یہ اقدامات چین کی جانب سے 2030 تک کاربن پیک اور 2060 تک
کاربن نیوٹرل کے اہداف کو حاصل کرنے میں نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔چینی صدر
شی جن پھنگ نے ان اہداف کے حصول کے لیے، 2020 میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی
تبدیلی سمٹ میں وعدہ کیا تھا کہ چین 2030 تک ملک کی ہوا اور شمسی توانائی
کی پیداواری صلاحیت کو 1,200 گیگا واٹ سے زائد تک لے جائے گا، اور اسی مدت
کے دوران بنیادی توانائی کی کھپت میں غیر رکازی ایندھن کا حصہ تقریباً 25
فیصد بڑھایا جائے گا.اس ضمن میں چین کی حاصل کردہ کامیابیوں کا جائزہ لیا
جائے تو 2021 کے آخر تک، ملک میں شمسی توانائی کی پیداواری صلاحیت 306 گیگا
واٹ اور ہوا سے توانائی کی پیداواری صلاحیت 328 گیگا واٹ ہو چکی ہے ، جو
دنیا میں بے مثال ہے۔ ماہرین کے نزدیک آج کے روایتی توانائی کے نظام کو
جاری رکھنے کے مقابلے میں تیزی سے شفاف توانائی کی منتقلی سے 26 ٹریلین
ڈالر کی بچت ہوگی۔ اس میں ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ ہم جس قدر زیادہ شمسی
اور ہوا سے بجلی کی پیداوار کے عمل کو آگے بڑھائیں گے، اسی قدر ان سے
متعلقہ ٹیکنالوجیز میں جدت اور قیمتوں میں تیزی سے کمی واقع ہو گی۔
|